عام طور پر لوگوں میں ایک بہت بری عادت دوسروں کی برائی اور عیب جوئی کرنے کی ہوتی ہے۔ یہ گندی عادت بذاتِ خود بہت بری چیز ہونے کے علاوہ بے شمار خراب نتائج کی حامل ہوتی ہے۔ اس کے سبب بدگمانیاں اور غلط فہمیاں پیدا ہوجاتی ہیں، نفاق اور دشمنی پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے سبب آپس میں انس و محبت کے رشتے منقطع ہوجاتے ہیں۔ دوستی اور الفت کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ خاندانوں کے آپس کے تعلقات میں سرد مہری آجاتی ہے، یہ میاں بیوی میں تفرقے اور علیحدگی کا سبب بنتی ہے۔ قتل و غارت گری کا باعث بنتی ہے۔
افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ یہ عظیم عیب کچھ اس طرح ہمارے معاشرے میں سرایت کرگیا ہے کہ لوگ اس کو عیب اور برائی ہی نہیں سمجھتے۔ ہر مجلس میں اس کے ذریعے منھ کا مزہ بدلا جاتا ہے اور ہر محفل کے لیے یہ عادت زینت بخش اور مشغلہ شمار کی جاتی ہے۔ کم ہی ایسی محفلیں ہوں گی جہاں کسی کی بدگوئی نہ کی جائے، خاص طور پر اگر زنانہ محفل ہو اور دوعورتیں آپس میں مل بیٹھیں تو کسی نہ کسی کی غیبت اور بے پر کی باتیں شروع ہوجاتی ہیں۔ یہ اس کی برائی کرتی ہے، وہ اس کی مذمت کرتی ہے۔ غیبت کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے۔ گویا عیب جوئی کرنے کا مقابلہ رکھا گیا ہے اور سب سے بدتر تو یہ کہ دوسروں کو چھوڑ کر ایک دوسرے کے شوہر پر تنقید کرنے پر اتر آتی ہیں۔ ایک دوسری کے شوہر کی شکل و صورت کی برائی کرتی ہے یا اس کی تعلیمی سطح پر اعتراض کرتی ہے یا اس کے اخلاق و کردار کو اپنی تنقید کا نشانہ بناتی ہے یا اس کی مالی حالت پر اظہارِ افسوس کرتی ہے۔ اگر تیل فروش ہے تو کہتی ہے تمہارے شوہر میں سے تیل کی بو آتی ہے، کس طرح اس کے ساتھ نباہ کرتی ہو؟ اگر ڈرائیور ہے تو کان بھرے گی کہ تمہارا شوہر ہمیشہ سفر میں رہتا ہے یہ تمہارے لیے اچھا نہیں ہے۔ اگر غریب اور کم آمدنی والا ہے تو کہتی ہے ایسے غریب کے ساتھ کیسے گزارا کرتی ہو۔ بھلا ایسے مرد سے کیوں شادی کی تھی؟ کیا ماں باپ کو بھاری تھیں کہ ایسے آدمی سے تمھیں بیاہ دیا؟
اس قسم کی سیکڑوں باتوں کا عورتوں کے درمیان تبادلہ ہوتا رہتا ہے۔ دراصل اس قسم کی بے لگام باتوں کی عادت بعض عورتوں کو کچھ اس طرح پڑجاتی ہے کہ وہ ذرا بھی نہیں سوچتیں کہ ان باتوں کے کیا نتائج ہوسکتے ہیں؟ انھیں ذرا بھی فکر نہیں کہ ممکن ہے ان کا ایک جملہ کسی عورت کو اپنے شوہر سے بدظن کردے اور انجام کار اس کا نتیجہ طلاق اور علیحدگی یا گھر کی تباہی و بربادی کی شکل میں نکلے۔ اسقسم کی عورتیں درحقیقت انسان کی صورت میں شیطان ہوتی ہیں۔ وہ خاندانوں کی خوشحالی اور سکون و اطمینان کی دشمن ہوتی ہیں۔ جس طرح شیطان کا کام دشمنی، اختلافات اور نفاق پیدا کرنا ہے اسی طرح یہ عورتیں بھی خوش و خرم گھرانوں کو دردناک اور تاریک قید خانوں میں تبدیل کردیتی ہیں۔ اب یہ غور کرنا ہے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ ہمارے معاشرے کی جملہ خرابیوں میں سے یہ ایک انتہائی بری اور تباہ کن خرابی ہے، حالانکہ اسلام نے اس چیز کی سختی سے ممانعت کی ہے، لیکن ہم اس ذلیل عادت سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں۔
اللہ کے رسولﷺ فرماتے ہیں: اے وہ لوگو! جو زبانی طور پر تو اسلام کا دم بھرتے ہو، لیکن تمہارے دلوں میں ایمان نے راہ پیدا نہیں کی ہے، مسلمانوں کی برائی نہ کیا کرو اور دوسروں کی عیب جوئی کی فکر میں نہ رہو، کیوں کہ جو شخص دوسروں کے عیبوں کو ظاہر کرے گا خدا بھی اس کے عیب برملا کرے گا اور اس صورت میں وہ رسوا ہوگا خواہ اپنے گھر ہی میں کیوں نہ ہو۔‘‘
کٹنی قسم کی یہ عورتیں، اس قسم کی باتیں کرکے اپنے چند مقاصد پورے کرسکتی ہیں وہ یا تو دشمنی اور کینے پن کے سبب اس قسم کی باتیں کرتی ہیں تاکہ کسی خاندان کو تباہ کردیں یا جذبۂ رشک و حسد ان کو عیب جوئی پر مجبور کرتا ہے یا اس قسم کی باتوں سے ان کا مقصد فخر اور خود ستائی ہوتا ہے اور دوسروں کی برائی کرکے چاہتی ہیں کہ اپنی خوبیاں دوسروں کے سامنے بیان کریں کبھی یہ وجہ بھی ہوتی ہے کہ انھیں خود اپنے عیب اور نقص کا علم ہو اور ان کا احساسِ کمتری انھیں دوسروں پر تنقید کرنے پر ابھارتا ہے یا سادہ لوح عورتوں کو فریب اور دھوکا دینا ان کا مقصد ہوسکتا ہے یا اس طریقے سے اپنی ہمدردی اور خیرخواہی جتانا چاہتی ہوں۔ بعض عورتیں بلا مقصد صرف تفریح اور مشغلے کے طور پر اپنی گندی عادت سے مجبور ہوکر ایسا کرتی ہیں۔ بہرحال یہ بات تو مسلم ہے کہ ان کا مقصد خیرخواہی یا ہمدردی نہیں۔ یہ بری عادت جو ہمارے سماج میں مردوں اور عورتوں دونوں میں پائی جاتی ہے، اس کے نتائج بے حد خطرناک ہوتے ہیں۔ یہ خراب عادت دوستوں کے درمیان رخنہ ڈال دیتی ہے، جنگ و جدال کا سبب بنتی ہے، خوش و خرم زندگیوں کا شیرازہ بکھیر دیتی ہے۔ اس کے باعث کس قدر قتل و خون ہوجاتے ہیں۔
اگر اپنی اور اپنے شوہر اور بچوں کی بھلائی چاہتی ہیں تو ایسے لوگوں سے ہوشیار رہیں اور اس قسم کے شیطان صفت انسانوں کے بہکاوے میں نہ آجائیں۔ ان کی ظاہری ہمدردی سے دھوکا نہ کھا جائیں۔ یقین کیجیے اس قسم کی عورتیں کسی کی بھی دوست نہیں، بلکہ یہ خوش بختی اور پرمسرت زندگی کی دشمن ہیں۔ ان کا مقصد خاندانوں کو تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچانا ہے۔ سادہ لوحی اور ہر بات پر جلدی یقین کرلینے کی عادت سے پرہیز کیا جائے خصوصاً ازدواجی امور میں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنی ہوشیاری کے ذریعے ان کے فاسد مقاصد کو بھانپ لیا جائے۔اور اگر یہ آپ کے شوہر کی برائی کرنا چاہیں تو ان کو فوراً ٹوک دیں اور بغیر کسی تکلف کے صاف صاف کہہ دیں کہ ہمارے اور آپ کے درمیان دوستی اور آمدورفت کا سلسلہ اسی صورت میں برقرار رہ سکتا ہے کہ آئندہ میرے شوہر کے خلاف آپ ایک کلمہ بھی نہ کہیں، میں اپنے شوہر کو پسند کرتی ہوں، اس میں کوئی عیب نہیں ہے، آپ کو میری اور میرے شوہر اور بچوں کی نجی زندگی سے کوئی سروکار نہیں رکھنا چاہیے۔
آپ کے اس دوٹوک لب و لہجہ سے وہ اندازہ لگالیں گی کہ آپ کو اپنے شوہر اور بچوں سے شدید لگاؤ ہے۔ لہٰذا آپ کو گمراہ کرنے سے مایوس ہوجائیں گی اور اس طریقے سے آپ ہمیشہ کے لیے ان کے شر و فساد سے محفوظ ہوجائیں گی۔ اس بات کی فکر نہ کیجیے کہ یہ بات ان کی رنجیدگی کا باعث ہوگی اور آپ کی دوستی میں فرق آجائے گا، کیوں کہ اگر وہ لوگ واقعی آپ کی خیرخواہ ہیں تو نہ صرف یہ کہ ناراض نہیں ہوں گی بلکہ آپ کے اس عاقلانہ یاد آوری سے متنبہ ہوجائیں گی اور آپ کا شکریہ ادا کریں گی۔ اور اگر دوست کی صورت میں آپ کی دشمن ہیں تو یہی بہتر ہے کہ آپ ان سے میل جول ترک کردیں اور اگر آپ دیکھیں کہ وہ اس گندی عادت سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تو بہتری اسی میں ہے کہ ان سے مکمل طور پر تعلقات منقطع کرلیں کیوں کہ ایسے لوگوں سے دوستی اور میل جول ممکن ہے آپ کے لیے بدبختی کے اسباب فراہم کردے۔
——