طب مشرقی میں ’’معجون سیر‘‘ یعنی لہسن پر مشتمل معجون صدیوں سے فالج کی موثر دوا کے طور پر استعمال ہورہا ہے۔ آج طب جدید اور نئی تحقیق بھی خون میں کولیسٹرول کم کرنے اور اسے پتلا رکھنے کی لہسن کی اس خاصیت کو تسلیم کرتی ہے۔ لہسن خون میں گٹھلی بننے نہیں دیتا۔
لہسن میں گندک پر مشتمل ۷۵ مرکبات کے علاوہ سترہ امینو ایسڈ بھی ہوتے ہیں جن میں سے آٹھ اساسی ہیں۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانیہ نے فوجیوں کے زخم بگڑنے سے محفوظ رکھنے کے لیے لہسن بڑی کام یابی سے استعمال کیا تھا۔
جاپان کے ایک کلینک ’’اماگاساکی‘‘ میں ورم جگر کے مریضوں اور پالامارے جانے والے افراد پر لہسن پھوار کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ لہسن بعض قسم کے سرطان کے لیے مفید پایا گیا ہے۔ دنیا بھر کے تحقیقی اداروں میں لہسن کی پوتھی تحقیق کا موضوع بنی ہوئی ہے۔
الائچی دانتوں کی دوست ہے
جنوبی ہند میں الائچی کی کاشت خوب ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں چھالیا کی ایک قسم، یعنی چکنی ڈلی کے درخت بھی بہت ہوتے ہیں۔ طب کی مشہور دوا سپاری پاک چکنی ڈلی سے بنتی ہے۔ اس کے علاوہ جنوب میں کھانے کے بعد اس کا اور الائچی کا استعمال بھی ہوتا ہے۔ ان دونوں کو منھ میں گھولتے رہنے سے منھ خوشبو دار اور دانت مضبوط رہتے ہیں۔
سبز الائچی اس کے علاوہ دوا سازی اور کھانوں وغیرہ کی تیاری میں بھی بہ کثرت استعمال ہوتی ہے۔ امریکہ کی اکیڈمی آف جنرل ڈینٹیسٹری نے بتایا ہے کہ کیلی فورنیا یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ الائچی واقعی دانتوں کی دوست ہوتی ہے۔ اس میں دانتوں کو بوسیدگی اور کیڑا وغیرہ لگنے سے بچانے کی بڑی موثر صلاحیت ہوتی ہے۔ یونی ورسٹی نے اس پر تحقیق کے دوران ایسے دس مختلف مرکبات الائچی سے الگ کیے جن میں دانتوں کی بوسیدگی کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ اس تحقیق کے بعد اکیڈمی کے صدر پال اسٹیفن نے بتایا کہ فطرت کی طرف واپسی اور قدرتی اشیا دوبارہ استعمال کرنے سے انسان کو واقعی فائدہ پہنچتا ہے۔ الائچی کو ٹوتھ پیسٹ، پاؤڈر اور ماؤتھ واش وغیرہ میں استعمال کرنا چاہیے۔ اس طرح صرف دانت ہی محفوظ نہیں رہیں گے بلکہ سانسیں بھی مہکتی رہیں گی۔