لہولہان سیریا

عبدالغفار عزیز

یہ کوئی ایک آدھ دن کی بات نہیں، ۱۵؍مارچ ۲۰۱۱ء سے لے کر آج تک گزرنے والا ہر لمحہ، شامی عوام کے لیے قیامت کا لمحہ ہے۔ گھر، مسجدیں، بازار اور انسان … اور تواور باغات،مویشی، کھیت اور کھلیان کچھ بھی اور کہیں بھی محفوظ نہیں ہے۔ بستیوں کی بستیاں مسمار کردی گئیں، سیکڑوں انسانوں کو خاموشی سے اجتماعی قبر میں دبا دیا گیا۔ یہ خونی کھیل ۱۸؍ماہ سے جاری ہے مگر۴۹؍برس کی ڈکٹیٹر شپ کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب قتل و غارت کے نتیجے میں لوگ خوف زدہ ہوکر نہیں بیٹھ گئے۔بلکہ ان کی جدوجہد میں اور زیادہ شدت اور ارادے میں زیادہ پختگی آگئی ہے۔
شام کے موجودہ حالات کا جائزہ لینے سے پہلے آئیے ذرا گزشتہ صدی کا سرسری جائزہ لیں۔ مئی ۱۹۱۶ء کو ہونے والے سایکس پیکو معاہدے کے تحت پورے مشرق وسطیٰ کو ٹکڑیوں میں بانٹ دیا گیا۔ ۳۰؍ستمبر ۱۹۱۸ء کو آخری عثمانی افواج بھی شام سے نکل گئیں۔ فرانس قابض ہوگیا۔ اپریل ۱۹۴۶ء میں فرانسیسی استعمار سے بھی نجات مل گئے۔ اپریل ۱۹۴۷ء میں وہاں بعث پارٹی کی باقاعدہ تاسیس عمل میں آئی۔ اسی سال ملک میں انتخابات ہوئے تو بعث پارٹی کے بانی میشل عفلق اور صلاح بیطار جیسے اس کے تمام لیڈر ناکام ہوگئے۔
۳۰؍مارچ ۱۹۴۹ء کو حسنی الزعیم کی سربراہی میں فوجی انقلاب آگیا، پورے عالم عرب میں یہ پہلا انقلاب تھا۔پھر ایک کے بعد دوسرا سفاک خود کو قوم کا محبوب ترین لیڈر ثابت کرنے پر تلا رہا۔ حسنی الزعیم کو ہی دیکھ لیجیے۔ اگست ۱۹۴۹ء میں ۹۹ء۹۹ فی صد ووٹ حاصل کرلینے والے بزعم خود ’’ہر دل عزیز‘‘ لیڈر کا اگلے ہی مہینے نہ صرف تختہ الٹ گیا، بلکہ اسے پھانسی پر لٹکا دیا گیا۔ ۱۵؍نومبر ۱۹۴۹ء کو دوبارہ عام انتخابات ہوئے، حکمراں پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی۔ ان انتخابات کی خاص بات یہ ہے کہ ان میں الاخوان المسلمون کو چار نشستیں حاصل ہوئیں جن میں شام میں اخوان کے بانی مصطفی السباعی بھی شامل تھے، جب کہ بعث پارٹی کا صرف ایک رکن منتخب ہوا۔ اسی ایک سال کے اندر اندر دسمبر ۱۹۴۹ء میں وہاں تیسرا انقلاب آگیا۔
۱۹۵۲ء میں الاخوان المسلمون سمیت اکثر سیاسی جماعتوں کو کالعدم قرار دے دیا گیا اور پھر مسلسل کئی انقلابات کے بعد ملک سے بعث پارٹی کے علاوہ باقی تمام جماعتوں اور مذاہب و ادیان کا ناطقہ بند کردیا گیا۔ ۱۹۶۳ء میں بعثی انقلاب نے اقتدار سنبھالا، حافظ الاسد اس کا اہم حصہ تھا۔ ۱۹۶۶ء میں اس نے مزید اختیارات کے لیے پارٹی قیادت کے خلاف بغاوت کردی، خود وزیر دفاع بن بیٹھا، اور پھر نومبر ۱۹۷۰ء میں ایک اور انقلاب کے ذریعے مکمل اقتدار سنبھال لیا۔ وہ دن اور آج کا دن، اسد خاندان کا اصرار ہے کہ شامی عوام سانس بھی اس کی مرضی اور اجازت سے لیں۔
حافظ الاسد کی سفاکیت اور اسلام دشمنی کا اندازہ لگانے کے لیے چند جھلکیاں ملاحظہ کرلیجیے۔
جون ۱۹۷۹ء میں کسی فوجی افسر نے چند علوی فوجی افسروں پر فائرنگ کردی۔ حافظ الاسد نے اس اندرونی شورش کا سارا الزام اخوان کے سر تھوپتے ہوئے ایک ہی واقعے میں جسر الشغور نامی شہر میں ۹۷ افراد شہید اور کئی گھر زمین بوس کردیے۔
۲۱؍جون ۱۹۸۰ء کو ملک میں ایک انوکھا قانون نافذ کردیا گیا، جس کے تحت اخوان سے وابستگی کی سزا پھانسی قرار دی گئی۔ آج تک یہ شق نمبر ۹۴ قانون کا فعال حصہ ہے۔
۲۵؍جون ۱۹۸۰ء کو ایک سفارتی تقریب میں حافظ الاسد پر قاتلانہ حملہ ہوا، اس کی تمام تر ذمہ داری بھی اخوان پر ڈال دی گئی۔ ان کے خلاف ظالمانہ کارروائیوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ۲۷؍جون کو تَد مُرجیل میں قید اخوان کے ایک ہزار سیاسی قیدیوں کو اندھا دھند فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا۔ نہ کوئی مقدمہ نہ عدالت، نہ منصف نہ گواہ، بس ایک الزام اور قصہ تمام۔
۲۵؍جولائی کو حلب شہر کے اتوار بازار میں پولیس فائرنگ کے ذریعے ۱۹۰ بے گناہ افراد کو شہید کردیا گیا۔ حلب کے بارے میں عمومی تاثر تھا کہ یہاں اخوان کی تائید نمایاں ہے۔
۱۹؍دسمبر ۱۹۸۰ء کو تَدمر جیل میں ایک اور قتل عام ہوا۔ اس بار وہ خواتین نشانہ بنیں جنھیں ان کے شوہر، باپ، بیٹے یا بھائی کے نہ ملنے پر گھروں سے اٹھا کر جیل میں بند کردیا گیا تھا۔ ۱۲۰؍خواتین لقمۂ اجل بن گئیں۔ یقینا ان سے روزِ حشر پوچھا جائے گا:’’یہ کس گناہ کی پاداش میں قتل کردی گئی؟‘‘ (التکویر:۹)
۲؍فروری ۱۹۸۲ء تو پوری مسلم دنیا کی حالیہ تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے۔ اس دن حافظ الاسد کے حکم پر اس کے بھائی رفعت الاسد نے اپنی سربراہی میں قائم خصوصی سیکورٹی فورس کی مدد سے ’حماہ‘ نامی شہر کا محاصرہ کرلیا۔ اور پھر ۲۴؍روز تک اس پر ٹینکوں، توپوں اور جنگی جہازوں سے بمباری کی جاتی رہی۔ ۳۵ سے ۴۰ ہزار بے گناہ افراد موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ پورا شہر مقبرہ بن گیا کہ لاشیں اٹھانے والا بھی کوئی نہ رہا تھا۔ ’حماہ‘ کا جرم بھی صرف یہ تھا کہ یہ اخوان کا گڑھ تھا۔
مکافاتِ عمل ملاحظہ ہو کہ دو سال بعد حافظ الاسد بیمار ہوا تو اسی رفعت الاسد نے اپنی اسی سیکورٹی فورس کے ذریعے بھائی کا تختہ الٹنے کی کوشش کی جو ناکام رہی۔ رفعت کو فرار ہوکر یورپ میں پناہ لینا پڑی، اس کی خصوصی فوج ختم کردی گئی۔
اس خاندان کے دورِ جرائم کی تفصیل بہت طویل ہے۔ لیکن صرف ڈیڑھ دوسال کے عرصے میں ہونے والے واقعات نے ۴۹ برس پر محیط درندگی کو بہت پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
جبر پر مبنی تدبیریں دوام دے سکتیں تو فرعون کا اقتدار اور قارون کی دولت کبھی ختم نہ ہوتی۔ ظلم کانظام بظاہر بہت محکم لیکن حقیقتاً بہت بودا ہوتا ہے، بالآخر ظالم ہی کی گردن ناپتا ہے۔ ’’بری چال بالآخر چلنے والے ہی کے گلے پڑتی ہے۔‘‘ (الفاطر: ۴۳) زین العابدین، حسنی مبارک، قذافی اور علی عبداللہ صالح پر بھی یہی حقیقت صادق آئی۔ گزشتہ ۴۱؍ماہ میں بشار حکومت نے بھی عوامی تحریک کو کچلنے کی بھرپور کوششیں کیں، لیکن تحریک ختم ہونے کے بجائے مضبوط سے مضبوط تر ہوئی ہے۔ یہ ۱۹۸۲ء نہیں ہے کہ پورا شہر تہ تیغ کردیں اور ذرائع ابلاغ کو قریب تک نہ پھٹکنے دیں۔ ۲۰۱۲ء کی عوامی تحریک کا اصل ہتھیار کیمرا، موبائل فون اور انٹرنیٹ ہے۔ پل پل کی خبر سیٹلائٹ فون کے ذریعے دنیا کے سامنے آجاتی ہیں۔
شامی عوام کی اصل بدقسمتی یہ نہیں کہ ان پر ایک درندہ نظامِ حکومت مسلط ہے، ان کے بقول ان کی اصل محرومی یہ ہے کہ ان کے بھائیوں نے انھیں تنہا چھوڑ دیا ہے۔ الاخوان المسلمون کے سربراہ محمد ریاض شقفہ کے بقول انھوں نے پہلے دن سے اپنی تحریک کو پرامن رکھنے پر زور دیا ہے۔ لاکھوں عوام کا ۹۵ فی صد غیر مسلح ہے اور عوامی طاقت کے ذریعے ہی تبدیلی لانا چاہتا ہے۔ سفاک حکمراں روزِ اول سے طاقت استعمال کررہا ہے۔ اب ایک طرف ٹینک اور وحشیانہ بمباری ہے اور دوسری جانب خالی ہاتھ عوام۔ یہ درست ہے کہ بے تیغ عوام کو آتش و آہن شکست نہیں دے سکے، لیکن اب معاملات فیصلہ کن موڑ تک آن پہنچے ہیں۔ شامی فوج کی ایک بہت بڑی تعداد بشار کا ساتھ چھوڑ کر ’’الجیش الحر‘‘ آزاد فوج کے نام سے منظم ہوچکی ہے، لیکن ان کی اکثریت بھی ہتھیاروں کے بغیر ہے۔ مسلم دنیا کسی عملی مدد سے عاجز ہے۔ رہے امریکہ اور عالمی برادری… تو ان کے بیانات اور اجلاس تو بہت ہیں لیکن ان کے اہداف کی فہرست میں کہیں یہ بات نہیں ہے کہ عوام کو بچانا اور ان کی مدد کرنا ہے۔ چنانچہ اقوامِ متحدہ سمیت عالمی برادری بشار سے مذاکرات اور دنیا کو گمراہ کرنے میں لگی ہے اور ہمیشہ بغیر کسی ٹھوس نتائج کے بات چیت ناکام ہورہی ہے۔ جس کا واضح مطلب یہ ہے کہ بشار الاسد کو اگر سیریا بارود سے جلے ڈھیر کی شکل میں بھی ملے تو وہ اس پر حکمرانی سے الگ نہیں ہوسکتے۔
شامی عوام کی تباہی پر سب سے زیادہ مسرت صہیونی ریاست کو ہے۔ صہیونی روزنامہ یدیعوت احرونوت کے بقول ۱۳۰۰ سال پرانا شیعہ سنی جھگڑا جو عثمانی خلافت کی کئی صدیوں تک دبا رہا، اب دوبارہ زندہ ہوگیا ہے۔ ایک فریق مشرق وسطیٰ کو شیعہ بنانا چاہتا ہے اور دوسرا ۸۵ فیصد اہلِ سنت کو ان کا فطری مقام دلوانا چاہتا ہے۔
اسد خاندان غلو کی حد کو پہنچے ہوئے علوی فرقے سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ کسی دینی نہیں بلکہ شخصی بتوں پر قائم بعثی ریاست کا بانی خاندان ہے۔ لیکن حالیہ تحریک میں ایران کی طرف سے بشار انتظامیہ کی ہمہ پہلو امداد نے پورے مسئلے کو فرقہ وارانہ رنگ دینے والوں کا کام آسان کردیا ہے۔ بشار اور اس کا باپ شاہِ ایران سے بھی بدتر ڈکٹیٹر ہیں۔ لہٰذا ایران کو اس کا ساتھ دینے کے بجائے مظلوم عوام کا ساتھ دینا چاہیے۔ خود ایران کے کئی اعلیٰ سطحی ذمہ داران بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے اس وقت عملاً بشار انتظامیہ کا سب سے بڑا مددگار ایران ہے اور اس کے بعد روس اور چین۔
تجزیہ نگار کچھ بھی کہیں لیکن اصل مسئلہ ظلم کا خاتمہ، ڈکٹیٹر شپ سے نجات اور عوام کو ان کے حقوق دینا ہے۔ یہ قرآنی فیصلہ سب کے سامنے رہنا چاہیے کہ ’’اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہوجائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں۔‘‘ (الشعراء: ۲۲۷)
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں