اگر احتجاجی مظاہروں، معصومانہ اپیلوں اور منافقانہ کانفرنسوں کے ذریعہ امن اور جنگ کے مسائل حل ہوسکتے تو یہ دنیا یقینا جنت بے نظیر ہوتی لیکن افسوس کہ ایسا ممکن نہیں ہے۔ جبروتی اور قاہری قوت کے ذریعہ امن کا فلسفہ بھی قبرستان کا سناٹا تو پیدا کرسکا لیکن چلتے پھرتے فعال انسانوں کی دنیا میں امن کی کارفرمائیاں قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ انہی ناکامیوں کانتیجہ سرزمین عرب و عجم کا خون کی گلکاریوں سے لالہ زار ہونا اور ’’بہر سورقص بسمل‘‘ کا جاری رہنا ہے۔ارضِ فلسطین مذکورہ بالا دونوں قسموں کی ناکامیوں کا عجیب و غریب سنگم ہے۔ ساری دنیا میں اسرائیلی بربریت کی مذمت اور اس کے خلاف مظاہرے کہیں کم کہیں زیادہ شدت کے ساتھ جاری ہیں۔ مختلف حلقوں سے اس انسان کشی کو بند کرنے کی اپیلیں بھی کی جارہی ہیں اور اسرائیل کے جنم داتاؤں کی کانفرنسیں بھی لیکن اسرائیلی پتھر پر جونک لگتی نظر نہیں آتی۔ دوسری طرف ہٹلر کی اس بصیرت کی داد دی جاسکتی ہے، جس نے انسانیت کے جسم پر صہیونیت کے بدنما داغ کی حقیقت کو سمجھ لیا تھا، جرمنی کی سرزمین کو اس نجاست سے پاک کرنے کا تہیہ کرلیا تھا۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اس نے سفاکی کی کوئی حد نہ چھوڑی جس کا آخری نتیجہ یہی ہوا کہ جرمنی ایک زبردست کھنڈر اور وسیع قبرستان میں بدل گیا۔ اس کے جبر کا شکار ہونے والوں نے وہ ساری تکنیک جس کا وہ نشانہ بنے تھے، صرف سیکھی نہیں بلکہ اس کی مشق اور مسلسل ریہرسل کے لیے ایک عمل گاہ بھی تلاش کرلی۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ تاریخ کا حصہ ہے اور آج جو کچھ ہورہا ہے وہ اسی کا تسلسل ہے۔ بند ارینا میں بھوکے شیر اور کسی بدنصیب انسان کے مقابلوں، سانڈوں اور انسانوں کے وحشیانہ مقابلوں کے لیے تماشائیوں کے بھیڑیوں کے شب خون اور معصوم انسانوں کے رقص بسمل سے زیادہ دلکش اور دلفریب تفریح اور کہاں مل سکتی ہے۔
سوئے اتفاق سے عربوں کی برادرانہ منافقت اور دنیا میں امن کے ٹھیکیداروں کی سیاسی منافقت کا سنگم بھی سر زمینِ فلسطین ہے۔ عرب اقوام اپنی قوت اتحاد کا تجربہ کرچکی ہیں اور اس کے فیوضـ سے اب تک بہرہ ور بھی ہورہی ہیں لیکن پھر دولت کے سرور نے ان کی عقل کی آنکھوں پر پردہ ڈال دیا اور فلسطینیوں کے سر پر برپا قیامت کو دیکھتے ہوئے بھی ان پر ابوالہول کا سا جمود اور سکوت طاری ہے۔ ظاہر ہے اسرائیلی دہشت گردوں کو علم اور یقین ہے کہ دنیا بھر میں احتجاجوں اور لیڈروں کی بھاگ دوڑ سے ان کے لیے کوئی فرق نہیں پڑنے والا ہے اس لیے وہ اسرائیل میں قریب الوقوع انتخابات تک اور امریکہ میں وہائٹ ہاؤس سے بش صاحب کی واپسی تک جو چاہیں کرنے کی انھیں مکمل آزادی ہے۔
اس صورتِ حال کے کئی پہلو ہیں۔ ایک طرف عربوں کا عدم اتحاد، فلسطینیوں کے تئیں ان کی بے مہری یا سرد مہری کے اثرات صرف اسی علاقے تک محدود نہیں ہیں۔ اگر وہ قہر سامانی پر شدید ردِ عمل کا اظہار کرتے تو دیگر اقوام پر بھی اس کا اثر ہوتا اور وہ بھی اسرائیل اور اس کے کھلے اوردر پردہ سرپرستوں پر اثر انداز ہوتے، لیکن ایسا کچھ نہیں نظر آتا۔ دوسرے خود ہماری حکومت کی طرف سے بھی ایسا کوئی ردِ عمل نہیں ہوا، جس کا کوئی نوٹس لیتا۔ عربوں کے ساتھ بشمول فلسطین ہمیشہ ہمارے دوستانہ رشتے رہے ہیں۔ تیل کی فراہمی ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر دنیا کی اقتصادی اور فوجی طاقت کا دارومدار ہے، اس معاملے میں متعلقہ عرب ملکوں نے ہمیشہ ہندوستان کے ساتھ ترجیحی سلوک کیا ہے۔ علاوہ ازیں لاکھوں ہندوستانی عرب ممالک میں برسرِ روزگار ہیں ان کی ارسال کردہ دولت ہندوستانی معیشت کی توانائی میں اضافے کا موجب ہوتی ہے اس کے باوجود عرب کاز سے ہندوستان کی موجودہ بے رغبتی حیران کن ہے۔
یوں تو ہندوستان میں سنگھ پریوار کچھ عرصے سے اسرائیل کے ساتھ پینگیں بڑھا رہا تھا لیکن بی جے پی کے برسرِ اقتدار آتے ہی اس کے ساتھ رشتے باقاعدہ استوار کرلیے گئے۔ اس پر عربوں کے ناک بھوں چڑھانے کی کوئی پرواہ نہیں کی گئی۔ لیکن بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی۔ ہندوستان اور اسرائیل کے درمیان کئی اہم میدانوں میں تعاون بڑھتا جارہا ہے اور اس سے متعلق معاہدے ہوتے جارہے ہیں، اس سلسلے میں سب سے زیادہ تشویشناک خفیہ معلومات کے تبادلوں پر اتفاق رائے ہے۔ عام حالات میں تو اس پر کسی تشویش کی ضرورت نہیں ہوتی، دوستانہ تعلقات رکھنے والے ملکوں کے درمیان ایسے رشتے بین الاقوامی سیاست اور سفارت کا حصہ ہوا کرتے ہیں لیکن اسرائیلیوں کی سازشی فطرت اور دروغ بافی کی خصلت کی وجہ سے تخریبی منصوبہ سازی اور ہماری حکومت اور عوام کو گمراہ کرکے ملک کے عوام کے مختلف حلقوں اور طبقوں کے درمیان اختلافات پیدا کرنے کے اندیشے ہیں، خصوصاً ایسے میں کہ یہاں ایسے شورہ پشت گروہ پہلے ہی سے موجود ہیں۔
بعض ایسے شواہد بھی سامنے آئے ہیں ، جن سے شمالی ہند میں صہیونی تحریک کے ہاتھ پاؤں پھیلانے کا پتہ چلتا ہے۔ ان کے عقیدے کے مطابق گزشتہ دو ڈھائی ہزار برس کی مہاجرت اور خانہ بدوشی کے دوران ایک یہودی قبیلہ بھٹک کر اس طرف آگیا پھر اس کا پتہ نہیں چلا کہ وہ کہاں گیا۔ اب کچھ عرصہ قبل یہودی محققوں نے معلوم کیا کہ اس قبیلے کچھ افراد شمال مشرق میں میزورم میں موجود ہیں جن کے کچھ خاندانوں کو اسرائیل میں لے جاکر آباد بھی کیا گیا لیکن وہاں پہنچ کر ان کو معلوم ہوا کہ انھیں تو اسی طرح غلامی کے لیے لے جایا گیا تھا۔ جیسے افریقیوں کو امریکہ لے جایا گیا تھا۔ اسی اثنا میں ملیح آباد کے اطراف میں بھی کسی مسلمان قبیلے کے افراد کو اسی گمشدہ کڑی کا حصہ بتایا گیا۔ اب تازہ ترین انکشاف بمبئی کے نریمان ہاؤس میں خفیہ یہودی سرگرمیوں سے متعلق ہے۔ بمبئی ان کا پہلے ہی سے مرکز رہا ہے۔
پھر اصل مسئلہ یعنی اسرائیل کے ہاتھوں فلسطینیوں کی اس بربادی کی طرف لوٹتے ہیں جس نے ان مظلوموں کے لیے اپنی جان کی قربانی دینے کے سوا کچھ نہیں چھوڑا ہے۔ چونکہ عالمی میڈیا کے نمائندوں کو غازہ میں جانے کی اجازت نہیں ہے اس لیے اصل صورت حال کا پتہ نہیں لیکن اب تک موصول ہونے والی مختلف اطلاعات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہلاک ہونے والوں کی تعداد ہزار تک پہنچی ہوگی۔ ہسپتالوں کے مردہ گھروں میں لاشیں رکھنے کی گنجائش نہیں۔ اسرائیلی بمباری کی شدت کی وجہ سے ان لاشوں کو تدفین کے لیے لے جانا بھی مشکل ہے۔ زخمیوں کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ ہسپتالوں کے فرش پر بھی ان کے لیے جگہ نہیں ہے۔ دوائیں غذائیں سب دریائے فرات کے پانی کی طرح بند ہیں کہ ماہ محرم الحرام بھی ہے۔ ایک طرف لشکر یہود نے اور دوسری طرف مصروشام کے برادرانِ یوسف نے غازہ سے فرار ہونے والوں کے لیے راستے بند کردیے ہیں۔ نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن۔ انسانیت کی نام پر کسی طرح کی امداد نہیں پہنچائی جاسکتی۔ اس میں اقوامِ متحدہ بے بس، ایمنسٹی انٹرنیشنل بے بس، اسرائیل کا اصرار ہے کہ وہ اہداف حاصل ہونے تک فوجی کارروائی جاری رکھے گا۔ اہداف کیا ہیں یہ تووہی جانتے ہوں گے اس لیے کہ اہداف تو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ آج حماس کو سرنگوں کرنا خاص مقصد ہے تو اس مقصد کے حصول کے بعد محمود عباس کی حکومت کو اکھاڑ پھینکنا مقصد اولین ہوسکتا ہے۔ آج حماس کا قصور یہ ہے کہ وہ اسرائیل کے سامنے سپر انداز ہونے کے لیے مصر یا کسی اور ملک کے دباؤ کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کل اس پر اس بربادی کا ذمہ دار ہونے کا الزام بھی آسکتا ہے۔ کچھ بھی ہو یہ وقت محمود عباس کی حکومت کے لیے حماس سے مخالفت کا بدلہ چکانے کا نہیں نہ عربوں کے لیے اختلافِ رائے پر قائم رہنے کا موقع ہے۔ یہ وقت سب کے مشترکہ اور متفقہ دشمن کا مقابلہ کرنے کا ہے۔
لیکن اس مقابلے کی کیا صورت ہو۔ دنیا بھر میں اسرائیل مخالف مظاہرے اور امن کی اپیلیں بے اثر ہوچکی ہیں تو واحد راستہ طاقت کے استعمال کا رہ جاتا ہے۔ ۱۹۷۰ء کے عشرہ کے اوائل میں تیل کے حربے کی طاقت اور چند برس قبل لبنان میں حربی قوت کے کامیاب تجربے عربوں کو ہوچکے ہیں۔ اب میڈیا کی طاقت آلاتِ حرب سے بھی زیادہ ہے۔ اس کے گھاؤ بھی بہت گہرے، اس کے اثرات بہت دور رس اور اکثر فیصلہ کن بھی ہوتے ہیں تو کیا عرب اس طاقت کے استعمال کے لیے بھی نہیں تیار ہیں؟ لیکن اسی وقت مسلمہ حقیقتوں کو بھی تسلیم کرنا دور اندیشی ہوگی۔ وہ حقائق کیا ہیں؟
عالمی حالات مسلسل تغیر پذیر ہیں۔ ملکوں کی سرحدیں بنتی اور بگڑتی رہتی ہیں۔ طاقتوں کے توازن بدلتے رہتے ہیں۔ ابھی ہمارے سامنے کی بات ہے کہ سلطنتِ برطانیہ میں سورج نہیں غروب ہوتا تھا وہ سمٹتے سمٹتے ان حدود کے اندر آگئی جہاں سے اس نے عالم گیری کی مہم شروع کی تھی۔ پہلی جنگِ عظیم نے یورپ پر جو خطوط کھینچے تھے دوسری جنگ عظیم نے ان کو کچھ کا کچھ کردیا۔ اس کے بعد جو عظیم طاقتیں وجود میں آئیں ان کی باہمی زور آزمائی نے سویٹ یونین کے تاروپود بکھیر دیے اور وہ قصۂ پارینہ ہوگئی۔ ایک ہی سپر پاور رہ گئی اور دنیا یک قطبی ہوگئی۔ لیکن سابقہ اور موجودہ طاقتوں کی ساری جبروتی قوت کے باوجود نہ کیوبا کو مٹانا امریکہ کے لیے ممکن ہوسکا نہ فارموسا کو مٹانا چین کے لیے ممکن ہوسکا، ایسے اور بھی قطعات ہیں جہاں اتنے ہی شدید مخالفانہ دعوؤں کے باوجود بات جہاں کی تہاں ہے۔ ایسے میں اسرائیل کے وجود کو ختم کرنے کی باتیں صرف لوگوں میں لہو گرم رکھ سکتی ہیں لہٰذا اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے اس کے لیے سازگار وقت آنے کا انتظار کرنا ہوگا اور اس اثناء میں سیاسی اور سفارتی حکمتوں کے ساتھ ساتھ کم سے کم اس واحد نصب العین کے حصول کی اسٹریٹجی پر زیادہ سے زیادہ اتفاق رائے بنائے رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس کام کے لیے جس عزم و استقلال کی ضرورت ہے اس کی مثال ڈھونڈھنے کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ قوم یہود کو اپنے جس وطن موعود کے حصول کا یقین تھا، اس کی تلاش میں وہ ڈھائی ہزار برس تک ماری ماری پھرتی رہی اور بالآخر بعد از خرابیِ بسیار وہ وقت آہی گیا جب ان کو اپنا وطن تو مل گیا، لیکن اپنی بدقسمتی اور خبثِ باطن کی وجہ سے اس کو امن و امان کا مرکز و محور نہ بناسکے۔ ساری دنیا میں بکھرے ہوئے صیہونیوں کو وہاں لاکر آباد کرنے لگے جن سے مقامی عرب باشندوں سے کوئی تاریخی اور معاشرتی قربت نہ تھی، اس لیے ان کے درمیان فساد یقینی تھا۔ پرانی دہشت گرد یہودی تنظیموں کے سرگرم کارکن اور ان کے منصوبہ ساز بھی اسی بے ہنگم بھیڑ میں گھس آئے اور اپنی پرانی سرشت کے مطابق عرب دشمنی اور ان کی بیخ کنی کی سرگرمیوں میں مصروف رہے اسی کا وہ خونیں سلسلہ ہے جو آج ہمارے سامنے ہے۔
(بشکریہ راشٹریہ سہارا)