لیلیٰ مراکش کی رہنے والی ایک مشہور اداکارہ تھی۔ فلمی حلقوں میں اس کا نام بڑا معروف تھا۔ اسے ایک انتہائی مہلک مرض جسے دنیا اب تک لاعلاج تصور کرتی ہے اور جسے ’’کینسر‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے لاحق ہوگیا۔ خاتون نے اپنے علاج کے لیے مختلف ماہرینِ طب کے دروازے کھٹکھٹائے، لیکن تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئیں اور اب خاتون کو اپنی زندگی کی کوئی امید باقی نہ رہی۔ لیلیٰ کہتی ہے میں ایک عرصے سے ایک بے حد خطرناک مرض کا شکار ہوگئی تھی، جسے دنیا کینسر کے نام سے جانتی ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ یہ مرض انتہائی خطرناک اور مہلک ہے۔ لیکن مراکش میں ہم اسے ’’کینسر کا نام نہیں دیتے‘‘ بلکہ ہمارے یہاں اسے ’’خبیث مرض‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔
میرے دل کی وہ شریان جو بائیں جانب سے نکل کر دل کو خون بہم پہنچاتی ہے، اور جو تاج نما ہوتی ہے اس موذی مرض میں مبتلا ہوگئی تھی، اس وقت میں اللہ تعالیٰ اور ایمان سے بالکل غافل تھی۔میں سمجھتی تھی کہ انسان کا حسن و جمال تا حیات اس کی شخصیت کو تازگی بخشتا رہتا ہے اور یہ نعمت پوری عمر زائل ہونے کا نام نہیں لیتی اور عنفوانِ شباب کی مسرتوں سے اسے ہمیشہ لطف اندوزی کا خوش کن موقع نصیب رہتا ہے۔ نیز اس کی صحت ہمیشہ ترو تازہ رہتی ہے جس کی وجہ سے اس کی قلبی فرحت کو روئیدگی وبالیدگی ملتی رہتی ہے۔ میرے حاشیۂ خیال میں بھی نہ تھا کہ میں کبھی ’’سرطان‘‘ جیسی مہلک و جان لیوا بیماری میں گرفتار ہوجاؤں گی۔ لیکن جب میں اس خطرناک مرض میں مبتلا ہوئی تو اس کے خوف و دہشت نے میرے وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور میں بری طرح حواس باختہ ہوگئی۔ میرا جی چاہتا تھا کہ کہیں بھاگ جاؤں لیکن بھاگ کر جاتی تو کہاں جاتی۔ اس لیے میںنے سوچا کہ کیوں نہ میں خود کشی کرلوں۔ لیکن مجھے اپنے شوہر اور بچوں سے شدید محبت تھی، اس لیے میں نے خود کشی نہ کی۔
اس وقت میرے خود کشی سے باز رہنے کی وجہ اللہ تعالیٰ کا خوف یا ڈر نہ تھا۔ اس طرف تو کبھی خیال بھی نہ گیا تھا۔کیونکہ میں اسلام اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے کوسوں دور تھی۔ میں توبہ اور استغفار سے ناواقف تھی۔ بس شاید میرے رب کو میری ہدایت اور رہنمائی منظور تھی۔ تبھی تو مجھے یہ خطرناک مرض لاحق ہوگیا۔ ہاں بعض اوقات بیماری بھی انسان کے لیے رحمت کا باعث ہوتی ہے ا ور وہ اسے جھنجھوڑ دیتی ہے۔ شاید اللہ چاہتا تھا کہ نہ صرف مجھ پر کرم کرکے سیدھے راستے پر لائے بلکہ اور لوگ بھی میری وجہ سے سیدھے راستے پر آجائیں۔ ہاں میں وہی لیلیٰ ہوں جو نہ جانے کتنے لوگوں کو گمراہ کرچکی تھی۔ اپنے جسم کی نمائش کرکے، رقص کے ذریعے اورسنیما کے پردے کے ذریعے۔
میں نے بہت سے ڈاکٹروں سے علاج کے لیے رجوع کیا۔ سب نے میرے شوہر سے کہا کہ اس کی چھاتی کاٹ دینا ضروری ہے اور ایسی کیمیائی دوائیں استعمال کرنی پڑیں گی جس سے سر کے بال جھڑجائیں گے، پلکیں اور بھنوئیں گرجائیں گی۔ چہرے پر داڑھی کے بال اُگ آئیں گے، ناخن اور دانت گرجائیں گے۔
میں نے ڈاکٹروں کی تجویز سن کر ان کے علاج سے مکمل انکار کردیا۔ میں نے کہا کہ میں چھاتی کٹوانے، گنجی ہونے اور قدرتی بناوٹ اور خوبصورتی کو داغ دار کرنے پر مرجانے کو ترجیح دوں گی۔ میں پھر مراکش واپس آگئی اور چھوٹا موٹا علاج کراتی رہی، لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ اثر نہ ہوا۔ مجھے نہ جانے کیسے محسوس ہوا کہ ڈاکٹروں نے میری درست تشخیص نہیں کی اور انھوں نے خواہ مخواہ میرے اندر سرطان کا مرض ثابت کردیا ہے جب کہ میں بالکل صحت مند ہوں۔
لیکن تقریباً چھ ماہ کے بعد مجھے محسوس ہوا کہ میرے وزن میں تیزی سے کمی ہورہی ہے اور یہ شکایت آہستہ آہستہ تیز ہوتی گئی جب میںنے ایک مراکشی ڈاکٹر سے طبی جانچ کروائی تو اس نے مجھے بلجیئم جانے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ میں نے دوبارہ بلجئیم کے لیے رختِ سفر باندھا۔
بلجئیم میں ڈاکٹروں نے جب میرا معائنہ کیا تو انھوں نے نہایت افسوسناک خبر میرے شوہر کو بتائی کہ سرطان پورے جسم میں پھیل چکا ہے اور پھیپھڑے بھی اس سے بری طرح متاثر ہوچکے ہیں۔ ہمارے پاس اب ایسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے کوئی دوا یا علاج نہیں ہے۔ اب تمہارے لیے صرف ایک صورت باقی رہ گئی ہے کہ تم اپنی بیوی کو وطن لے جاؤ تاکہ اسے قبر نصیب ہوسکے۔
ڈاکٹروں نے جب میرے خاوند کو یہ اطلاع دی تو ان پر یہ خبر بجلی بن کر گری۔ وہ حواس باختہ ہوگئے پھر ہم لوگوں نے واپس اپنے وطن مراکش جانے کے بجائے بلجیئم سے فرانس کا ٹکٹ لیا کہ شاید وہاں کوئی علاج میسر ہوسکے اور وہاں میں چھاتی کٹوا کر کیمیاوی دوائیں استعمال کروں تاکہ کسی طرح زندگی بچ سکے۔
اچانک میرے خاوند کے ذہن میں آیا کہ ہم دنیاوی علاج کرواچکے ہیں مگر ایک طبیب باقی رہ گیا ہے اس کے پاس جانا چاہیے۔ اس نے جب مجھ سے بات کی تو جیسے مجھے کوئی بھولی ہوئی بات یاد آگئی ہو۔ ہمیں لگا کہ بلاشبہ ہمیں مکہ مکرمہ جانا چاہیے۔ ہم بیت اللہ کی زیارت کریں اور وہاں اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے دربار میں توبہ و استغفار کریں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ اس مہلک مرض سے شفادے۔ کیونکہ آسمان کے دروازے ہر مریض کے لیے ہر وقت کھلے رہتے ہیںاور وہاں ہر بیماری کا کامیاب علاج ہمہ وقت دستیاب ہے۔
غرض ہم میاں بیوی پیرس سے مکہ کے لیے روانہ ہوگئے۔ راستہ بھر ہم ’’لاالٰہ الا اللہ و اللہ اکبر‘‘ کے ورد سے رطب اللسان رہے۔ مجھے بڑی خوشی ہورہی تھی کیونکہ بیت اللہ کی طرف میری زندگی کا یہ پہلا سفر تھا اور پہلی دفعہ اللہ تعالیٰ کے گھر کا دیدار ہونے والا تھا۔ میں نے پیرس میں ہی قرآن کریم کا ایک نسخہ خرید لیا تھا اور کبھی کبھی اس کی تلاوت کرتی رہتی تھی۔
آخر وہ مبارک وقت آگیا جب ہم مکہ مکرمہ پہنچ کر خانہ کعبہ میں داخل ہوئے۔ جونہی نگاہ کعبہ پرپڑی میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ مجھے گزشتہ زندگی یاد آگئی۔رب کی نافرمانی اور معصیت کی زندگی۔ میرا ماضی بے حد برا تھا۔ میں نماز روزے سے قطعاً دور رہی تھی اور فرائض کا پتہ تک نہ تھا۔ اب میں نہایت عاجزی کے ساتھ اس رب العالمین کے دروازے پر حاضر تھی جو توبہ قبول کرنے والا اور اپنے بندوں پر شفقت کرنے والا ہے اور پھر میں نے خانہ کعبہ کے دروازے کے قریب جاکر رو رو کر یہ دعا کی :’’اے میرے پروردگار! میری مہلک بیماری کا علاج ڈاکٹروں کے بس میں نہیں، وہ ہزارہا کوشش کے باوجود میرے علاج سے انکار کرچکے ہیں۔ میرے پیارے رب! تیری طرف سے بیماری آتی ہے اور اس کا علاج بھی تو ہی کرتا ہے۔ میری بیماری کے علاج کے معاملے میں ڈاکٹروں نے ہسپتالوں کے دروازے بند کررکھے ہیں۔ صرف تیرا دروازہ میرے لیے کھلا ہے۔ میں اپنے علاج کے لیے تیرے ہسپتال میں پہنچ چکی ہوں میرے رب! اپنا دروازہ میرے لیے بند مت کرنا۔‘‘
پھر میں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور اس دوران میں اللہ تعالیٰ سے بکثرت دعائیں کرتی رہی کہ ’’اے اللہ! میری دعا کو نامراد واپس نہ کرنا مجھے نا امید نہ کرنا اور مجھے شفا عنایت کرکے ڈاکٹروں کو اپنی عظمت شان سے حیران کردینا۔‘‘
جیسا کہ میں نے اوپر کہا ہے کہ میں اس سے پہلے اللہ تعالیٰ سے بالکل غافل تھی، اور اس کے دین پر کبھی عمل نہ کیا تھا لیکن اب میری وہ کیفیت نہ رہی جو پہلے تھی، بلکہ اب میں نے اللہ تعالیٰ کے دین کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا۔ چنانچہ میں مکہ مکرمہ میں موجو دعلماء اور مشائخ کی خدمت میں حاضر ہوکر ان سے اسلامی تعلیمات کی جانکاری حاصل کرنے لگی۔ علماء و مشائخ نے کثرت سے قرآن کریم کی تلاوت کرنے اور زیادہ سے زیادہ اللہ عزوجل کا ذکر کرنے اور رسول ﷺ پر درود وسلام بھیجنے کی تلقین کی۔
مسجدِ حرام میں مجھے کافی راحت محسوس ہورہی تھی اور میرے دل کو بہت اطمینان تھا۔ میں نے اپنے خاوند سے کہا کہ آپ مجھے مسجدِ حرام میں ہی وقت گزارنے کی اجازت دیں۔ میں اب ہوٹل میں کم ہی جاؤں گی زیادہ وقت اللہ کے گھر میں گزاروں گی۔ انھوں نے میری درخواست قبول فرمائی اور میں اپنے اوقات مسجدِ حرام میں رب ذوالجلال والاکرام کے مقدس دربار میں دعاء ومناجات کے ساتھ گزارنے لگی۔
مسجدحرام کے اندر میرے پڑوس میں مصراور ترکی کی چند خواتین تھیں جو میری کثرت آہ وبکا اور میری آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسو دیکھتی تھیں۔ انھوںنے میری کثرتِ آہ وزاری کا سبب دریافت کیا میں نے ان سے جواباً کہا کہ مجھے اللہ تعالیٰ کے مبارک گھر کا طواف نصیب ہوا ہے، جس کے بارے میں مجھے گمان بھی نہیں تھا کہ اس سے ایسی محبت ہوگی، جیسے اب میرے دل میں ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ مجھے سرطان کی بیماری لاحق ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ کے دربار میں آہ و زاری کررہی ہوں۔اب خواتین کا معمول تھا کہ نمازوں کے بعد میرے ارد گرد بیٹھ جاتیں اور خاصی دیر بعد الگ ہوتیں، یوں ہماری اللہ کے لیے آپس میں محبت ہوگئی۔ پھر میں نے ان سے کہا کہ ’’کیوں نہ میں مسجد میں اعتکاف کی نیت کرلوں۔‘‘ ان عورتوں نے اس بات کو پسند کیا اور کہنے لگیں کہ ہم بھی تمہارے ساتھ شریک ہوجاتی ہیں۔ ہر چند رمضان المبارک کا مہینہ تھا پھر بھی ان عورتوں کے شوہروں نے اجازت دے دی اور اب ہم سب اللہ کے گھر میں معتکف تھیں، اب ہمارا سارا دن ذکر و اذکار ، قرآن پاک کی تلاوت، نمازوں اور نوافل میں گزرجاتا۔
اب ہم آبِ زم زم کثرت سے پیتیں کیونکہ نبی کریم ﷺ کا یہ ارشاد ہمیں یاد تھا: ’’آبِ زم زم جس نیت سے بھی پیا جائے تو وہ نیت پوری ہوجاتی ہے۔‘‘ (صحیح ابن ماجہ، ۳۵۶۲)
آبِ زمزم اگر بیماری سے شفا یابی کی نیت سے نوش کیا جائے تو اللہ تعالیٰ شفا بخشتا ہے۔ اگر سیرابی کی نیت سے پیا جائے تو پیسا مٹ جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی پناہ کی نیت سے پیا جائے تو اللہ تعالیٰ اپنے دامن میں پناہ دیتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ہماری بھوک کو زمزم کی برکت سے ختم کرکے ہمیں زندگی بخشی۔
کچھ دن یوں ہی گزرگئے۔ میری سہیلیوں نے مجھے مجبور کیا کہ میں جسم کو آبِ زمزم سے دھو ڈالوں۔ میں نے انکار کردیا۔ مگر مجھے محسوس ہوا کہ کوئی اندرونی طاقت مجھے آبِ زمزم سے اپنے جسم کو دھونے پر آمادہ کررہی ہے۔ میں نے خوف کی وجہ سے اس پر عمل نہیں کیا۔ دوسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا لیکن اس مرتبہ بھی میں نے اپنا جسم نہیں دھویا کیونکہ مجھے ڈر لگتا تھا، تاہم جب تیسری مرتبہ میرے دل نے گواہی دی اور مجبور کیا تو میں اٹھی اور آبِ زمزم لے کر اپنے ہاتھوں سے جسم اور چھاتی پر ملنا شروع کردیا جو کہ فاسد خون، پیپ، پھنسیوں وغیرہ سے پُر تھیں۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے میرا جسم حیرت انگیز طور پر ان تمام بیماریوں سے پاک ہونے لگا۔
چھوٹی چھوٹی پھنسیاں جانے کدھر گئیں۔ جسم کو چور کردینے والا درد اور تکلیف سب غائب ہوگئے۔ میں پہلے تو گھبرا اٹھی ، پھر اپنے کپڑے کے نیچے ہاتھ لے جاکر بار بار جسم کو چھونے لگی لیکن میرے جسم کے اندر اب ہر گز کوئی سوجن نہیں تھی۔ میں کانپ اٹھی مگر فوراً میرے ذہن نے کہا اس قدر تعجب کیوں کرتی ہو؟ کیا اللہ رب العزت اس کام پر قادر نہیں ہے؟ میں نے اپنی سہیلی سے کہا کہ میرے جسم سے ساری پھنسیاں غائب ہیں اور میرا جسم بالکل صحیح و سالم ہے تو وہ بے ساختہ چیخ اٹھیں اللہ اکبر … اللہ اکبر۔‘‘
میں فرطِ مسرت سے اپنے شوہر کو خوشخبری دینے کے لیے مسجدِ حرام سے نکل کر ہوٹل کے لیے چلی، کمرے میں داخل ہوکر جب اپنے شوہر کے سامنے کھڑی ہوئی تو ان سے کہنے لگی کہ دیکھو دیکھو یہ اللہ کی رحمت… کدھر ہیں میرے جسم پر پھوڑے پھنسیاں… ہیں کہیں! ختم ہوگئیں نا…!
پھر میں نے انتہائی مسرت و شادمانی کے ساتھ اسے اپنے حالات سے آگا ہ کیا۔ لیکن میرے شوہر کو میری گفتگو افسانہ معلوم ہورہی تھی۔ وہ میری بات کو مذاق سمجھ رہا تھا۔ یکایک اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور اس نے بلند آواز میں کہا: ’’کیا تجھے معلوم نہیں؟ کیا تو اتنی جلدی بھول گئی کہ صرف تین ہفتے قبل ڈاکٹروں نے قسم کھا کر کہا تھا کہ تو چند ہی دنوں کی مہمان ہے۔‘‘ میں نے اپنے شوہر سے کہا: ’’زندگی اور موت کا وقت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ غیب کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو نہیں۔‘‘ اس کے بعد ہم میاں بیوی بیت اللہ میں ایک ہفتہ قیام پذیر رہے۔ میں اللہ تعالیٰ کی ان گنت نعمتوں پر ان کا شکر ادا کرتی رہی اور اس کی حمد و ثنا بیان کرتی رہی پھر ہم نے مسجدِ نبوی کی زیارت کی اور اس کے بعد فرانس واپس ہوگئے۔
جب وہاں کے ڈاکٹروں نے مجھے پوری صحت و عافیت کے ساتھ دیکھا اور انہیں علم ہوا کہ مہلک و خطرناک مرض نے مجھے خیرباد کہہ دیا ہے تو وہ حیران و ششدر رہ گئے۔ وہ حیرت زدہ ہوکر مجھ سے کہنے لگے:’’محترمہ! کیا آپ ہی وہ خاتون ہیں جو…‘‘
میں نے فخر سے جواب دیا: ’’جی ہاں میں ہی ہوں وہ خاتون جس کی موت کا آپ لوگوں نے اعلان کررکھا تھا اور یہ میرے شوہر ہیں جنھوں نے میری شفایابی کے لیے اپنے سارے وسائل استعمال کرڈالے تھے۔ میںآپ لوگوں کے علاج سے بیزار ہوکر اپنے پروردگار کے ہسپتال میں جاکر داخل ہوگئی اور اب اس کے علاج سے شفایابی کے بعد واپس آئی ہوں۔ مجھے اب کسی کا خوف اور ڈرنہیں سوائے اللہ کے کیونکہ قضا و تقدیر اللہ ہی کے ہاتھ میں ہے اور وہی زندگی اور موت کا مالک ہے اور تمام امور اسی کی نگرانی میں انجام پاتے ہیں۔ ایک پتہ بھی اس کے حکم کے بغیر نہیں گرتا ہے۔‘‘
ڈاکٹروں نے مجھ سے کہا: ’’محترمہ! آپ کا یہ معاملہ عجیب و غریب ہے۔ تعجب ہے کہ آپ کی سوجن ختم ہوگئی اور آپ مکمل طور پر صحت یاب ہوگئیں جبکہ آپ کینسر جیسے خطرناک مرض میں گرفتار تھیں۔ براہِ کرم آپ ہمیں بتائیں کہ وہ کون سا اسپتال تھا، جہاں آپ کا علاج ہوا؟‘‘ میںنے بڑے یقین و اعتماد کے ساتھ صرف اتنا کہا کہ ’’وہ اللہ کا اسپتال تھا۔‘‘
——