نعیم نے اپنی ماں کی سیٹ بیلٹ باندھی اور کمبل ان کے پیروں پر ڈال دیا۔ جہاز پرواز کرنے ہی والا تھا۔ لوگ جلدی جلدی اپنی جگہ پر بیٹھنے کی کوشش کررہے تھے۔ اس نے جھک کر ماں سے پوچھا :
’’آپ ٹھیک ہے نا اماں؟‘‘
’’ہاں بیٹا‘‘ ماں نے سرگوشی میں جواب دیتے ہوئے اس کی طرف جھک کر پوچھا :
’’بیٹا! بچے تو ساتھ ہیں نا‘‘ نعیم سہم گیا پھر ایک دم خود پر قابو پاتے ہوئے بولا: ’’جی اماں سب ساتھ ہیں۔‘‘
’’بیٹا!‘‘ انھوں نے مدھم آواز میں پوچھا ’’ہم پاکستان جارہے ہیں نا۔‘‘ نعیم نے ماں کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر تھپتھپایا۔
’’جی اماں! ہم پاکستان جارہے ہیں۔‘‘ ماں نے کرسی کی پشت سے ٹیک لگاتے ہوئے سرد آہ بھری۔ ’’ہاں بیٹا! وہی تو ہماری پناہ گاہ ہے۔ اپنی زمین تو ہم سے چھین لی گئی ہے۔ خدا جانے تمہارے ابا کہاں ہوں گے۔ میں تین بچوں کے ساتھ ایک نئے مکان میں ان کو کیسے ڈھونڈوں گی۔ اے اللہ تو ہماری رہبری کر۔‘‘
انھوں نے آہستہ آہستہ کوئی دعا پڑھنی شروع کردی۔ جہاز اب پرواز کررہا تھا۔ نعیم کو اطمینان تھا کہ اس نے ڈاکٹر کی دی ہوئی دوا جہاز پر بیٹھنے سے پہلے دے دی تھی۔ اب وہ سوجائیں گی۔ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اگر وہ راستے میں بے چین ہوں تو ایک خوراک اور دے دیجیے گا۔ وہ ریلکس رہیں گی اور سوجائیں گی۔ خدا کرے یہ اٹھارہ گھنٹے کا طویل سفر بخیرو خوبی گزر جائے۔
سفر کے دوران اماں زیادہ تر سوتی رہیں۔ اگر کبھی آنکھیں کھولتیں تو نعیم ان کو جوس یا پانی پلادیتا۔ کھانے سے انھوں نے انکار کردیا تو اس نے زبردستی بسکٹ کھلائے تھے۔ ایک مرتبہ جوس کا گلاس تھامے انھوں نے اپنے ارد گرد نظر ڈالی اور پوچھا ’’نعیم بیٹا، کیا یہ سب پناہ گزیں ہیں؟‘‘
’’جی اماں‘‘
’’اللہ تو اس سواری کی حفاظت کر۔ سنتے ہیں کہ امرتسر میں سکھ ٹرینوں پر حملہ کرتے ہیں، بم پھینکتے ہیں۔‘‘
’’وہ ایسا نہیں کرسکیں گے اماں، ہماری حفاظت کو فوج چل رہی ہے۔‘‘
’’شکر ہے اللہ کا‘‘ اماں نے مطمئن ہوکر آنکھیں بند کرلیں اور پھر تھوڑی دیر بعد سوگئیں۔ جہاز کے دوسرے مسافر بھی لائٹ بجھا کر کچھ اونگھ رہے تھے۔ زیادہ لوگ ٹی وی دیکھنے میں مصروف تھے۔ اکا دکا کتاب پڑھ رہے تھے۔ چاروں طرف دیکھنے کے بعد اس نے اماں کی طرف دیکھا تو اس کا دل ریزہ ریزہ ہونے لگا۔ اس کی بہن حامدہ نے اسے فون پر بتایا تھا کہ ماں نے حال سے رشتہ توڑ لیا ہے اور اب زیادہ تر ماضی میں رہتی ہیں مگر اماں کو دیکھ کر اس کو جو دکھ ہورہا تھا اس کا سیاہ دھواں، اس کے دل میں اترتا جارہا تھا اور اس کی ساری فکری قوتیں سلب کررہا تھا، اماں… اس کی اماں جو اس وقت ایک کمزور سہمی ہوئی زخمی چڑیا کے مانند لگ رہی تھیں ہمیشہ کتنی صحت مند اور ناقابل شکست ہستی ہوا کرتی تھیں۔ اماں ہی نے تو گذشتہ پینتالیس برسو ںمیں کڑوے وقت خوش اسلوبی سے گزار دئے تھے۔ وہ ساری مشقتیں اور وہ کام کیے جو انھوں نے کبھی نہ کیے تھے نہ کرنا چاہتی تھیں۔ کبھی ایک حرف بھی شکوے کا زبان پر لائے بغیر کرتی رہیں۔ اماں برے وقتوں میں ابا کی دست راست بنی رہیں۔ ان کو سہارا دیا اور ہر ٹھوکر پر ان کی ہمت بڑھائی۔ اماں ہی نے بچوں کی تعلیم پر زور دیا ورنہ ابا تو کاروبار میں لگانے کے حق میں تھے۔ اماں نے کہا نہیں کاروبار چھن سکتا ہے، برباد ہوسکتا ہے تعلیم نہیں۔ انھوں نے گھر کا ماحول ہمیشہ پرسکون رکھا اور مشکل گھڑیاں بھی چپ چاپ گزار دیں کہ بچوں کی تعلیم میں مداخلت نہ ہو۔ وہ ذہنی طور پر پریشان نہ ہوں۔ اور آج جب ہم سب اس قابل ہیں کہ ان کو آرام اور ساری مادی خوشیاں مہیا کرسکیں جو ان سے چھین لی گئی تھیں تو وہ ہر چیز، ہر خوشی، ہر غم سے بے نیاز ہوگئیں۔ یا خدا وہ میری باہمت اور شفقتوں سے بھر پور اماں کہاں گئیں۔ اماں جو سارے محلے کی مددگار تھیں، ہر ایک کے برے بھلے میں کام آتی اور مشورہ دیتیں تھیں۔ اماں جو اتنی فعال تھیں کہ ایک وقت میں کئی کئی کام نمٹا لیتیں، آٹا گوندھ رہی ہیں تو کسی بچی کو اردو پڑھا رہی ہیں، کسی عورت کو قرآن پڑھا رہی ہیں اور سبزی بھی کاٹ رہی ہیں۔ اب انھوں نے اپنے ذہن کی کھڑکی کو کیوں بند کرلیا ہے اور ماضی میں چلی گئی ہیں۔ کیا ہم اس کے ذمہ دار ہیں۔ اسے اپنے اندر سے آواز آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ہاں نعیم، احمد اورقسیم تم سب اس کے ذمہ دار ہو۔ تم سب اپنے اپنے بہتر مستقبل کے لیے اپنی ماں کو باپ کو چھوڑ کر چل دئے اور پھر اپنے مستقبل کی تکمیل کرکے اپنے بچوں کا مستقبل بہتر بنانے کے لیے گارا، مٹی اور اینٹیں تلاش کرنے لگے۔ تم اپنے آگے ہی آگے دیکھتے رہے کبھی پیچھے پلٹ کر بھی دیکھا ہوتا۔ کبھی یہ تو سوچا ہوتا کہ جس طرح تم اپنے بچوں کی ذرا ذرا سی بات پر گھبرا جاتے ہو اور ان کی جدائی کا تصور تمہیں ہولا دیتا ہے۔ کبھی ان کا بھی خیال کیا ہوتا جو یہی جذبے دل میں چھپائے خاموش بیٹھے ہیں، شکوہ بھی نہیں کرتے۔ وہ جو اپنے سارے چین و آرام تم کو سونپ کر اپنی ضروریات اور اپنی ذات کی نفی کرکے تمہارے مستقبل کی اپنی خون جگر سے تعمیر کرتے رہے۔ وہ ذات جو تمہاری اور تمہارے بھائی کی جدائی سے تڑپ تڑپ کر رہی اور کبھی شکایت کا کوئی حرف بھی زبان پر نہ لائی، کبھی یہ نہ کہا کہ بیٹا میں بوڑھی اور کمزور ہوں مجھے عمر کے ان ناتواں لمحوں میں تمہارے قرب کی تقویت اور محبت کی توانائی کی ضرورت ہے تم لوگوں کو دوری مجھے سدا بے چین رکھتی ہے۔ اسے یاد آیا اماں اس کی دو ہفتے کی وزٹ پر ہمیشہ ہنس کر کہتی تھیں: ’’تیرا آنا نہ تھا ظالم مگر تمہید جانے کی‘‘ اماں کتنے عرصے سے تینوں بیٹوں سے جدا ہیں۔ اس نے حساب لگایا قسیم بھائی کو تو پچیس برس ہوگئے امریکہ گئے ہوئے۔ اسے خود بیس برس ہورہے تھے بڑے بیٹے کی گریجویشن ہونے والی تھی اور وہ امریکہ میں پیدا ہوا تھا۔ اس کی توایم بی بی ایس کرتے ہی شادی ہوگئی تھی۔ قسیم کی وجہ سے اماں ابا کو تھوڑا سا سکون تھا کہ ایک بیٹا تو ملک میں ہے مگر دولت کی چمک نے اسے ایسا بدلا کہ ایک دم نوکری چھوڑ آسٹریلیا چلا گیا۔ اماں کے سب بیٹے سات سمندر پار اور بیٹیاں کب ساتھ رہتی ہیں۔ زاہدہ بیاہ کر سعودی عرب گئی اور حامدہ ان سے کوئی دوسو کلو میٹر دور تھی اب وہ بھی باہر جارہے ہیں اور جانا یا نہ جانا اس کے اختیار میں کب ہے۔ اس کے شوہر کا سارا خاندان کینیڈا چلا گیا۔ اب وہ بھی جارہا ہے اور کیوںنہ جائے اس کے بھائی تو والدین کو ساتھ لے کر گئے تھے اور ہم نے کیا کیا۔ ہم نے اپنے بوڑھے والدین کو تنہا چھوڑ دیا۔ بہت بڑی غلطی ہوئی۔ ہم میں سے ایک کو تو ان کے پاس رہنا چاہیے تھا۔ مجھے رہنا چاہیے تھا۔ یہ کوئی قربانی نہ تھی۔ مجھے واپس آجانا چاہیے تھا۔ شاید ہم اب بھی واپس جاسکتے ہیں مگر …مگر… ’’جب چڑیاں چگ گئیں کھیت۔‘‘ اوہ خدایا ہم نے یہ کیا کیا۔ اپنے والدین کو اپنی خواہشات پر قربان کردیا۔ نعیم احمد علی کے دل میں ایک طوفان اٹھ رہا تھا اور واشنگٹن ایئر پورٹ پر اماں کو وہیل چیئر پر بٹھا کر جب وہ انہیں جہاز سے وزیٹر لاؤنچ میں لائے تو احساس جرم سے وہ پسینے پسینے ہورہے تھے۔
’’میں سمجھتی تھی کہ خالہ جان ہم سب کو دیکھ کر، ہمارا گھر دیکھ کر بہت خوش ہوں گی۔ مگر وہ تو بس خاموش ہو کر رہ گئیں ہیں۔‘‘ نعیم کی بیوی شمسہ نے کہا۔
’’تمہیں پہچانا تھا انھوں نے؟‘‘
’’ہاں مجھے پہچان لیا تھا اور امی کو یاد کرکے بہت روئی تھیں کہ میری بہن مجھے چھوڑ کر چلی گئی… لیکن وہ بچوں کو نعیم اور قسیم کہتی ہیں اور سارا کو حامدہ‘‘ وہ اداس لہجے میں بولی: ’’کسی کو نہیں پہچانا۔‘‘
’’میں سوچ رہا ہوں کہ راج کو فون کردوں اگر وہ چند گھنٹے نکال سکے…‘‘
’’ہاں راج بھیا ماہر نفسیات ہیں شاید کچھ تجویز کریں۔ آپ چیک اپ کروالیں خالہ جان کا۔‘‘
’’ارے دادی اماں۔ آپ نے سوٹ کیس الماری سے کیوں نکال لیا۔ کیا کچھ رکھنا ہے؟‘‘ جنید نے حیران ہوکر پوچھا۔ وہ دادی کو دیکھنے ان کے کمرے میں آیا ہوا تھا۔ گھر میں ہر فرد کی ڈیوٹی لگی تھی جو بھی گھر پر موجود ہوتا وہ ان کے پاس جاکر بیٹھتا۔ ان سے بات کرتا ان کی خیر خبر رکھتا۔ نعیم جب گھر پر ہوتا تو زیادہ وقت ماں کے ساتھ گزارتا۔ ڈرائیو کے لیے لے جاتا یا لان پر وہ دونوں میاں بیوی اماں کا ہاتھ پکڑ کر ٹہلتے۔
’’بیٹا نعیم، ہم نئے گھر جارہے ہیں نا اسی لیے میں نے تیاری کرلی ہے۔‘‘ جنید نے سوٹ کیس اٹھایاتو وہ خالی خالی لگا۔
’’دادی اماں، میں جنید ہوں، نعیم کا بیٹا ، آپ کا پوتا۔ سب مجھے جونی کہتے ہیں۔‘‘
’’اچھا نعیم کے یہاں بیٹا بھی ہوگیا اور کسی نے مجھے بتایا ہی نہیں۔‘‘
’’دادی اماں، آپ ہی نے تو میرا نام رکھا ہے جنید علی احمد۔‘‘ وہ حیران ہوکر بولا۔
راج پرشاد نعیم کے کلاس فیلو تھے وہ نیوجرسی میں رہتے تھے۔ ان کا وہاں کلینک تھا، نعیم کا فون ملا تو اس کی ماں کی کیفیت سن کر پہلی فرصت میں دیکھنے آگئے۔ نعیم اسے اماں کے پاس لایا۔ ’’آداب آنٹی۔‘‘
’’اچھے رہو، بیٹا۔‘‘اماں نے اس کی طرف بغیر دیکھے کہا۔
’’یہ راج ہیں اماں۔ میرے بہت اچھے دوست۔‘‘ نعیم بولا۔
’’اچھا‘‘ ان کے چہرے پر ایک دم سے رنگ آگیا۔ ’’تم امرت بھیا کے بیٹے ہو۔ کیسے ہیں تمہارے پتا جی ماتا جی؟‘‘
’’پتا جی، ماتا جی؟‘‘ وہ کچھ دیر خاموش رہا پرسنبھل کر بولا ’’وہ سب ٹھیک ہیں آپ کو بہت پوچھا۔‘‘ راج نے اماں کے ساتھ کوئی ایک گھنٹہ گزارا۔ ان سے باتیں کیں۔ جسمانی تکلیفوں کی باتیں کیں۔ اماںٹھیک ٹھاک دو تین باتوں کا جواب دیتیں اورپھر ماضی میں لوٹ جاتیں اور ایسے لوگوں کے متعلق باتیں کرنے لگتیں جن انسانوں کا وجود ہی نہ تھا اور پھر بڑے جوش سے بتاتیں۔ ’’آج ہم نئے گھر میں جارہے ہیں۔‘‘ بعد میں نعیم نے اس سے ان کی کیفیت کے بارے میں گفتگو کی تو اس نے کہا ’’آنٹی کی ذہنی کیفیت کی کئی وجوہ ہوسکتی ہیں۔ عمر کا تقاضا بھی ہوسکتا ہے۔‘‘
’’مگر ماں تو ابھی ستر کی بھی نہیں ہوئیں۔ تمہارا کیا خیال ہے۔ ’’ال زائمر تو نہیں ہے؟‘‘ اس نے پریشان کن لہجے میں پوچھا۔
’’میرے خیال سے ال زائمر کے آثار نہیں ہیں۔ کبھی کبھی انسانی دماغ بھی خود کو سوئچ آف کرلیتا ہے۔ انہیں پرانی باتیں یاد ہیں۔ میموری تو ہے مگر پاسٹ میموری۔ حال سے ان کو دلچسپی نہیں ہے۔ ان کی زندگی میں اس قدر اتھل پتھل ہوئی ہے، اتنی تبدیلیاں ہوئی ہیں اور پھر فیملی کی جو ’’فریگ من ٹیشن‘‘ ہوئی ہے ہماری زندگی میں، اس سے ہماری پہلی نسل کو بہت نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ جذباتی بھی جسمانی بھی اور پھر وہ راج کے ساتھ پچپن سال پرانی داستان آزادی لے کر بیٹھ گیا اور سلسلہ وار اپنے خاندان کے حالات بیان کرنے لگا۔
نعیم نے رک کر کھڑکی کے باہر دیکھا پھر بولا: ’’ہم سب نے بہت تکلیفیں اٹھائیں بلکہ ہم نے تکلیفوں ہی میں آنکھیں کھولیں۔ اماںابا پر واقعی بہت کڑا وقت گزرا۔ ہم لوگ اس وقت دو کمروں کے فلیٹ میں جو ابا کو الاٹ ہوا تھا رہا کرتے تھے۔ اس میں ایک چھوٹا سا کچن تھا اور باتھ روم ٹائلٹ شیئر کرنا ہوتا تھا۔ کمرے دو تھے اور آگے تھوڑی سی جگہ تھی۔ جہاں کھانا کھاتے تھے۔ پھر ابا نے ایک نئی بستی میں تین کمروں کا مکان بک کرالیا۔ اور دس برس بعد ہم لوگ اس مکان میں آگئے۔ شروع شروع میں یہ بستی نئی نئی اور صاف ستھری تھی پھر رفتہ رفتہ صورت بدلتی گئی۔ خراب مسالے سے بنائی گئی عمارتوں میں جھر جھرا کر چیزیں ٹوٹتی پھوٹتی گئیں، فرش سے پلاستر اکھڑتا گیا۔ کھڑکی دروازے بند نہیں ہوتے۔ مگر ہم لوگوں نے ڈبوں کی طرح بنے ہوئے کمروں میں لڑکپن کاٹ دیا اور جوان ہوگئے۔ ابا کو ایک دکان الاٹ ہوگئی تھی بندر روڈ پر کچھ زمینیں تھیں جو انھوں نے بچا کر ہماری تعلیم پر لگادیں، اماں اس گھر میں جذباتی طور پر سیٹل ہوگئیں۔ پاس پڑوس کے لوگوں سے کیا پورے محلے سے تعلقات تھے مگر جب ہم امریکہ آگئے اور نوکری کرنے لگے تو ہم نے ایک بڑی غلطی کی۔ بلکہ یہ خود غرضی تھی۔ سلیم بھی اس وقت جاب کررہا تھا، اچھے پیسے ملتے تھے۔ ہم نے ایک بڑا پلاٹ خریدا اور چار کمروں کا ایک اچھا سے گھر بنوایا۔ ہم نے یہ نہیں سوچا کہ اماں ابا کا کیا ردعمل ہوگا۔ ہم نے بس سوچا کہ جب ملنے جائیں تو ایک اچھا صاف ستھرا مکان ہو اور ہر کمرے کے ساتھ غسل خانہ اور نئے اسٹائل کا کچن۔ اماں نے صاف انکار کردیا کہ وہ اپنا گھر نہ چھوڑیں گی مگر ابا نے سمجھایا کہ نیک بخت بچے اپنے بچوں کو لے کر آتے ہیں تو ان کے رہنے کا کوئی ڈھنگ کا ٹھکانہ تو ہو۔ ہماری خاطر وہ منتقل تو ہوگئیں مگر ہم نے ان کا دل توڑدیا تھا۔ ہم جو دو تین برس میں چکر لگاتے تھے تو صرف پندرہ دن کے لیے بلکہ قسیم بھائی کی امریکن بیگم تو کبھی گئی ہی نہیں۔ وہ گھر بعض پہلوؤں سے محفوظ نہ تھا اور پھر دو بوڑھے آدمی نوکروں کے ساتھ جن پر اعتماد بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ابا کی ڈیتھ کے بعد اماں بالکل خاموش ہوگئیں۔ پرانے گھر میں لوگ ایسے رہتے تھے کہ اپنے آنگن سے پکار کر دوسرے گھر والوں کو آواز دی جاسکتی تھی۔ رات دن کوئی وقت ہو لوگ موجود۔ باہر کا کوئی کام ہو محلہ کا کوئی نہ کوئی لڑکا کرنے کے لیے تیار اور یہاں خالی گھر۔ اور پڑوسی اس وقت تک نہ سنے جب تک اس کے گھر کی گھنٹی نہ بجائی جائے۔ ہم نے اپنی بہن حامدہ سے کہا کہ وہ آکر اماں کے ساتھ رہ لے اور اپنا گھر کرائے پر اٹھادے۔ کئی سال وہ اماں کے ساتھ رہی۔ اور اب پھر اماں کامسئلہ تھا وہ سب بھی باہر جارہے ہیں۔‘‘ وہ تاسف بھرے لہجے میں کہہ رہا تھا ’’عجیب بات ہے! ڈوب مرنے کی بات ہے نا کہ وہ والدین جنھوں نے اپنے خون جگر سے ہمیں طاقت و توانائی بخشی، وہ ہماری قوت اور زندگی کے محور تھے اور ہم کمزور اور مجبور تھے۔ اب وہ کمزور اور مجبور ہیں تو ہمارے لیے مسئلہ بن گئے۔ ہم ان کی خوشیوں کے امین تھے تو ان کی قوت کیوں نہیں بنتے۔ کیوں نہیں بن سکے۔ انہیں مسئلہ کیوں سمجھتے ہیں ہم۔‘‘
’’ہاں، تم ٹھیک کہتے ہو، ہمیں اپنے بڑوں کا بھی سوچنا چاہیے۔ مگر اچھی ملازمت پیسہ، ضروریات ان باتوں کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، یہ بھی حقیقتیں ہیں۔‘‘ راج نے کہا ’’یہ بھی زندگی کی سچائی ہے کہ ہمیں اپنا گھر چھوڑنا پڑتا ہے۔ یہ کیا آسان ہوتا ہے، دوسرے ملک، دوسرے کلچر میں ایڈجسٹ ہونا اور دوسری زبان بولنا؟ مشکل یہ ہے کہ ہمارے بزرگ نہیں ایڈجسٹ ہوپاتے۔ اب میری ماتا جی ہیں وہ پتا جی کی ڈیتھ کے بعد لندن میرے بھائی کے پاس رہیں، پھر میرے پاس آئیں، پھر میری بہن کے پاس گئیں مگر کہیں ان کا دل نہیں لگا اور اب وہ میرٹھ میں اکیلی ہیں۔ کہتی ہیں کہ مجھے اب اپنا کونا اچھا لگتا ہے۔ ہمارے پیرنٹس اس طرح نہیں رہ سکتے جس طرح ہم نے زندگی سے سمجھوتہ کیا ہے ہماری زندگی آسان رہی ہے کیا۔‘‘ وہ لمحہ بھر کو رکا’’ہم نے تو در بدری میں رہنا سیکھ لیا ہے مگر والدین کو شہر ملک اور اپنا گھر بدلنا پڑے تو بکھر جاتے ہیں۔‘‘
’’ڈیڈی، ڈیڈی، دادی اماں سوٹ کیسے لیے ہال میں بیٹھی ہیں… کہ اب نئے گھر جانا ہے۔‘‘ راج اور نعیم نے ایک دوسرے کو دیکھا اور نعیم نے اپنے بیٹے سے کہا ’’جنید تمہیں معلوم ہے کہ وہ بیمار ہیں…‘‘ جنید نے ہنس کر کہا ’’ڈیڈی وہ بیمار کہاں ہیں اچھی خاصی تو ہیں اور راج انکل، دادی اماں خالی سوٹ کیس لے کر دوسرے گھر میں جانے کے لیے تیار ہوئی ہیں۔‘‘ نعیم نے تیز آواز میںکہا ’’جنید بکواس مت کرو۔‘‘ پھر زیر لب بڑبڑانے لگا: ’’یہ کمبخت کیا جانے عزت و احترام۔ ان کی پرورش جس تہذیب میں ہوئی ہے اس کی ڈکشنری میں تو والدین کے حوالے سے یہ لفظ ہے ہی نہیں۔ خدایا یہ ہماری نسل کس راہ پر جائے گی۔‘‘ اس کے دل میں درد کا ایک بگولہ سا اٹھا اور سارے جسم میں پھیل گیا۔ اک دم سے اس کا جی چاہا کہ وہ اٹھ کر اماں کا ہاتھ پکڑے اور چلنا شروع کردے اور اس وقت تک پیدل چلتا رہے جب تک وہ اپنے گاؤں کے اس گھر تک نہ پہنچ جائے جہاں اس کا بچپن اور پھر لڑکپن گزرا ہے۔