مال یا اولاد؟

ڈاکٹر سمیر یونس

ایک شخص ایک چھوٹے سے گائوں میں رہتا تھا۔ گائوں کے جس گھر میں وہ رہتا تھا، اس میں ایک بِل تھا جس میں ایک سانپ رہتا تھا۔لیکن گھر کے اندر اس سانپ کے رہنے سے وہ شخص خوش تھا، کیوں کہ وہ سانپ ہر روز ایک انڈا دیتا تھا جسے وہ بازار میں مہنگے داموں میں بیچ دیا کرتا تھا۔
ایک دن یہی سانپ اپنے بِل میں سے نکلا اور اس شخص کی اکلوتی دودھ دیتی بکری کو ڈَس لیا ۔ سانپ کے ڈسنے کی وجہ سے بکری فوراً مر گئی۔ لیکن اس شخص اور اس کی بیوی نے بکری کے مر جانے کا بہت زیادہ افسوس نہیں کیا بلکہ یہ کہہ کر اس واقعے کو نظر انداز کر دیا کہ ’اس سانپ کی وجہ سے ہمیں جو دولت مل رہی ہے، وہ اس بکری کی قیمت سے کہیں زیادہ ہے۔‘ چنانچہ انھوں نے دولت کے لالچ میں سانپ کو مارنے کے بجائے اس کو اس کے بل میں زندہ ہی رہنے دیا!!
اس واقعے کو کئی روز گزر گئے کہ سانپ ایک بار پھر اپنے بل سے باہر نکل کر آیا اور اس گدھے کو ڈَس لیا جس پر وہ شخص اور اس کی بیوی سواری بھی کیا کرتے تھے اوراپنی دوسری ضروریات بھی پوری کیا کرتے تھے۔سانپ کے ڈستے ہی گدھا بھی مر گیا۔ لیکن اب بھی دولت کے لالچ میں اسے کوئی بڑا واقعہ نہ سمجھ کر نظر انداز کردیاکیوں کہ گدھے کی قیمت کے مقابلے میں سانپ کا انڈا بہت مہنگا بکتا تھا!!
مزید دو سال ایسے ہی گزر گئے ۔ اس دوران سانپ نے گھر کے کسی بھی فرد کو کوئی نقصان نہیں پہنچایا۔چنانچہ دونوں میاں بیوی سانپ سے مطمئن ہوگئے۔ دو سال بعد ایک بار پھر اس کی فطرت واپس آگئی اور وہ رینگتا ہوا اس شخص کے نوکر کے پاس گیا جو کہ سویا ہوا تھا اور اسے ڈس لیا اور نوکر نیند کے عالم میں ہی دنیا سے رخصت ہو گیا۔ دونوں کو کچھ روز تک تو خادم کے مرنے کا ملال رہا لیکن جلد ہی انھوں نے سانپ سے حاصل ہونے والی دولت کے لالچ میں اس کی اس زیادتی کو بھی بھلا دیا !
تھوڑ ے ہی عرصے کے بعد ایک بار پھر سانپ اپنی فطرت سے مجبور ہوگیا اور اس شخص کے لڑکے کو ڈس لیا۔ لڑکا سانپ کے ڈستے ہی فوراً مر گیا۔اب دونوں میاں بیوی کی آنکھیں کھلیں اور انھوں نے کہا کہ اس سانپ کو اپنا دوست اور ساتھی بنا کر رکھنے میں بھلائی نہیں ہے۔اس لیے اسے مار دینا ضروری ہے۔یہ بات سانپ نے سنی تو وہ بھاگ گیا اور کئی روز تک غائب رہا۔لیکن کچھ دنوں کے بعد ہی اس مال کی چکا چوند انھیں پھر اپنی طرف کھینچنے لگی جو انھیں سانپ کے انڈے سے حاصل ہوتی تھی۔اس لیے وہ سانپ کے بل کے پاس گئے اور اسے آواز لگائی: اے سانپ، تو ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچائے تو ہم بھی تجھے کوئی نقصان نہ پہنچائیں گے۔سانپ نے یہ سنا توہ واپس آگیا ۔اسی طرح دو سال مزید صحیح سالم گزر گئے ، اس دوران اس نے کسی کوکوئی نقصان نہیں پہنچایا۔
ایک روز سانپ نے دیکھا کہ اس شخص کی بیوی سو رہی ہے۔اسے سوتا دیکھ کر اس کی اسی ظالمانہ فطرت نے اسے ایک بار پھراکسایا تو وہ تیزی سے اس کی بیوی کی طرف بڑھا اور اسے بھی ڈس لیا۔ بیوی کے مرنے کا اسے بہت زیادہ غم ہوا۔اب وہ اکیلا رہ گیا ۔ زندگی سے اسے وحشت ہونے لگی، اورغم کے مارے سوکھتا چلا گیا۔اب اس نے اس سانپ کا کام تمام کرنے کا تہیہ کر لیا۔گائوں کے بزرگوں سے اس نے مشورہ کیا تو انھوں نے بھی متفقہ طور پر یہی فیصلہ سنایا کہ اسے مارنا اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔وہ گھر کی طرف چل دیا کہ آج اسے بہر حال ختم کرکے ہی رہے گا۔وہ اس موقع کی تلاش میں تھا کہ اسے مار سکے ، اس کے لیے وہ اس کی حرکتوں پر نگاہ رکھے ہوا تھا۔ اسی دوران اسے سانپ کے بل میں ایک چمکتا ہوا قیمتی موتی نظر آیا۔قیمتی موتی کو دیکھ کر مال کی محبت ایک بار پھر اس پر غالب آگئی۔ اس نے اسے مارنے کا ارادہ ترک کر کے یہ فیصلہ کیا کہ اسے زندہ رکھے گا، اسے کوئی نقصان نہیں پہنچنے دے گا۔بلکہ اس کا خاص طور سے خیال رکھنے لگا۔ اور اس دن سے پابندی کے ساتھ اس کے بل کی صفائی ستھرائی کرنے لگا ۔
ایک روز رات کے وقت یہ شخص سو رہا تھا۔ سانپ کی فطرت اور عادت نے اسے ایک بار پھر اس بات پر اکسایا کہ اس شخص کو بھی مار کر ختم کردے۔چناچہ رینگتا ہوا اس کے پاس گیا اور اسے بھی ڈس کر ختم کر دیا۔
یہ ایک علامتی قصہ ہے، لیکن ہم میں سے بہت سے والدین اولاد اور مال کے سلسلے میں یہی رویہ اپنائے ہوئے ہیں۔ اولاد کو بھول کر مال دولت حاصل کرنے ، دنیا کی زینتوں اور لذتوں کی طرف بھاگنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اور ان ساری سرگرمیوں کے پیچھے اولاد کے حقوق کو نظر انداز کر رہے ہیں لیکن دلیل یہی دیتے ہیں کہ یہ سب اولاد کے مستقبل کے لیے ہی تو کر رہے ہیں۔ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اس رویے کے نتیجے میں بچے ہماری تربیت سے محروم ہورہے ہیں، والدین اور اولاد کے درمیان تعلقات میں دوری واقع ہورہی ہے۔اپنی اولاد کے تعلق سے ہماری غفلت ان کے دل میں ہمارے لیے نفرت کے بیج بو رہی ہے۔ بلکہ ہم خود ہی ان کے ذہنوں میں اپنی نافرمانی کے بیج بو رہے ہیں۔ہم نے ان کے لیے وقت نکالنے میں بخل سے کام لے کردر اصل ان کو نافرمانی کا زہر پلا دیا ہے۔چنانچہ وہ بڑے ہوئے تو انھوں نے بھی ہمارے ساتھ وہی سلوک کیا جو سانپ نے اس شخص اور اس کے گھر والوں کے ساتھ کیا تھا۔یہ حقیقت ہے کہ جو شخص بچپن میں اولاد کا خیال نہیں رکھے گا اور ان سے غفلت برتے گا بڑھاپے میں اس کی اولاد بھی اس کی نافرمانی کرے گی اور اس سے غفلت برتے گی۔

——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146