جنوری کی تین تاریخ تھی صبح سے شام تک کی مسلسل بارش نے یخ کردینے والی سردی پیدا کردی تھی۔ اگرچہ سرِ شام ہی سے بادل چھٹ گئے تھے، مگر تیزہوا نے سردی کو اور بھی چمکا دیا تھا۔ چھ بجے شام ہی سے سارا بازار سنسان ہوگیا تھا۔ مگر میرے چائے خانہ میں کافی گہما گہمی تھی۔ دسمبر، جنوری کے مہینوں ہی میں تو ہمارا سیزن لگتا ہے، اس سال دسمبر بھی ستمبر کے مہینے کے طرح جلوہ فگن رہا۔ شاید خطِ جدی اور خطِ سرطان نے اپنی جگہ بدل لی تھی یا پھر زمین کاپہیہ چلتے چلتے جام ہوگیا تھا۔ جب میں مکھیوں کی بھنبھناہٹ سے اکتا جاتا تو باہر آکر سورج کو گھورتا اور اسے ۹۰؍درجے کی بجائے ۴۵ درجے پر دیکھ کر ناقابلِ شکست مایوسی کے ساتھ پھر مکھیوں کے ہجوم میں کھوجاتا۔ اس وقت جمعدار فضلو اپنے مخصوص مفکرانہ انداز میں مجھے اس گرمی کی وجہ سمجھاتا اور کہتا: ’’چین نے کوئی ایٹمی تجربہ کیا ہوگا۔‘‘ جمعدار فضلو بالکل ان پڑھ تھا۔ البتہ انگوٹھا لگانے کی بجائے کیڑے مکوڑوں کی سی شکل کے دستخط کرلیا کرتا تھا۔ یا پھر اخبار کی سرخیاں بھی حروف تہجی جوڑ کر پڑھ لیتا تھا۔ اخبار بینی کا شوق اسے ہندوستان اور چین کی سرحدی جنگ سے لگا تھا۔ خاص طور پر اُس دن تو وہ ایک اخبار کی بجائے چاراخبار لے آیا، جس دن ڈپٹی کمشنر تیز پور کی دو سو میل فی گھنٹہ کی رفتار سے بھاگنے کی خبر چھپی تھی۔ مجھ سے یہ خبر اس نے کئی بار پڑھوائی۔ ایک مرتبہ اس کے خون کا دورہ اتنا تیز ہوگیا کہ اس نے اپنا گھونسا ہوا میں لہرایا اور کاؤنٹر پر لگے ہوئے شیشہ پر پیوست کردیا۔ ردِ عمل میں شیشے کے ٹکڑے ہوا میں اڑے۔ ایک آدھ میرے ماتھے پر جالگا اور مجھے یوں محسوس ہوا کہ ہندوستانی سورماؤں نے اپنی بندوقوں کا رخ چین کی بجائے میری طرف کردیا ہے۔
جمعدار فضلو پچاس کے لگ بھگ تھا، لیکن اس بڑی عمر میں بھی اس کے ارادے بڑے تھے۔ اُسے ہمیشہ زلف پہ شبِ دیجور کی پھبتی سوجھا کرتی تھی۔ کئی مکمل اور نامکمل رومان اس کے ذہن کی گہرائیوں میں ہر وقت کلبلاتے رہتے تھے۔ وہ بات عموماً یوں شروع کرتا ’’جب ہم جوان تھے…‘‘ اس کے بعد مجھے اپنی بے کیف جوانی سے تیزابی بُو آنے لگتی۔ جس پر والد صاحب کی ناگہانی موت نے برق گرادی تھی۔ بہرکیف اُس کی جوانی کی اِن جوان باتوں سے میرا دل کاروبار کے اُس مندے میں بھی لگا ہوا تھا، ورنہ میں کب کا چائے خانہ چھوڑ اس کی طرح ایک دو رسیاں سر پر اور دوچار کندھوں پرلٹکا کر مزدوروں میں شامل ہوچکا ہوتا۔
آج بارش کے پہلے چھینٹوں کے ساتھ چائے خانہ گاہکوں سے بھر گیا اور جمعدار اپنی دوستی کا حق ادا کررہا تھا۔ وہ اپنے موٹے جسم کے باوجود لٹو کی مانند گھوم رہا تھا۔ کبھی برتن دھونے میں مصروف اور کبھی آگ جلانے میں مشغول۔ کبھی گاہکوں کے آگے چائے کی بھری ہوئی پیالیاں رکھ رہا تھا تو کبھی اُن سے پیسے وصول کررہا تھا ۔ برفانی پہاڑوں سے آتی ہوئی برفانی ہوا کے تند وتیز جھونکے سائیں سائیں کررہے تھے۔ پھٹے پرانے کپڑوں میں اپنے نحیف و نزار جسم ڈھانپنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے مدقوق چہروں والے لوگ سی سی کرتے ہوئے آتے رہے اور گندے تالاب کے پانی کی رنگت والی چائے پیتے رہے اور میں اُن سے دو روپئے پیالی کی بجائے تین روپئے کے حساب سے پیسے وصول کرتا رہا۔ وہ بھی مجبور تھے اور میں بھی۔ انھیں گرم کپڑے میسر نہ تھے اور مجھے چائے خانہ کی اس کال کوٹھڑی کے چھ سو روپئے ماہوار کے ساتھ ساتھ بوڑھی والدہ، جو وقت پر کھانا نہ ملنے پر اپنا منہ نوچ لیتی تھی، بیوہ بہن اور اس کے دو بچوں کا پیٹ پالنا تھا۔
آخر رات کے ایک بجے دودھ ختم ہوگیا اور مجھے چائے خانے کا اکلوتا دروازہ جو انسانوں، چڑیوں، ابابیلوں اور چمگادڑوں کے ساتھ ساتھ ہوا کے آنے جانے کا واحد ذریعہ تھا، بند کرنا پڑا۔ اس وقت تند و تیز ہوا کی شدت میں اور بھی اضافہ ہوگیا تھا، ہاتھ اور پاؤں سن ہورہے تھے۔ دانت چائے کی خالی پیالیوں کی طرح کھنک رہے تھے، میں نے اوور کوٹ کے کالر کھڑے کیے اور ہاتھ جیبوں میں ٹھونس لیے۔ جمعدار نے بھی اپنی رضائی جسے وہ رات کو بطورِ رضائی اور دن کو بطور کمبلی استعمال کرتا تھا، سر سے پاؤں تک اوڑھ لی اور کہا:
’’ہویار! غضب کی سردی ہورہی ہے۔ گھر کیسے جائیں گے؟‘‘
جب ہوا کے ایک تیز جھونکے نے اس کی رضائی، اس کے جسم سے جدا کردی تو وہ سی سی کرتا ہوا اللہ خیر کا وظیفہ پڑھنے لگا۔
’’تیرے پاس تو رضائی ہے، میرے پاس تو خاک بھی نہیں۔‘‘ میں نے کہا۔
اور ہم دونوں خاموش چل دیے۔
شہر سے کچھ دور ایک کم آباد محلے میں ہم نے ایک چھوٹا سا مکان کرایہ پر لے رکھا تھا۔ اس میں ایک چھوٹا سا کمرہ تھا، جس میں دو چارپائیوں کے علاوہ ہم نے ایک ٹرنک کی جگہ بھی بنالی تھی۔ ایک چھوٹا سا صحن تھا جس کو میں بطورِ مرغی خانہ استعمال کرتا تھا۔ ہمارا راستہ تنگ و تاریک گلیوں سے گزرتا تھا۔ جن کی نالیوں پر دن کو بچے اور رات کو بڑے رفع حاجت کیا کرتے تھے اور جن کی بدبو بقول جمعدار اہلِ محلہ کی غذا کا جزو بن چکی تھی۔
جب ہم منزلِ مقصود پر پہنچے تو حسبِ معمول ہمارا استقبال کتیا نے کیا، جسے جمعدار فضلو’’بی ہم سائی‘‘ کے نام سے پکارا کرتا تھا۔ اس ’’بی ہمسائی‘‘ سے بھی اس کا ایک نامکمل رومان وابستہ تھا۔ بات دراصل یہ تھی ہمارے ہمسائے میں ایک بابو صاحب رہا کرتے تھے۔ کہیں محکمۂ تعلیم میں کلرک تھے۔ یہی کوئی چالیں کے لگ بھگ تھے۔ مگر اُن کی بیگم صاحبہ بڑی ہٹی کٹی تھیں۔ بڑی کائیاں، ادھر جمعدار بھی بڑے حضرت یعنی نہلے پر دہلے۔ جھٹ اس کے خاوند سے دوستانہ گانٹھ لیا اور لگے اُن کے گھر آنے جانے۔ اس ڈرامہ میں جمعدار نے مجھے بھی ایک اضافی کردار دے رکھا تھا۔ وہ اس طرح کہ بابو صاحب کی لڑکی جو غالباً ساتویں جماعت میں پڑھتی تھی، میرے لیے بیوی منتخب کی گئی، جب میں جمعدار کو اس ڈرامہ کے انجام سے ڈراتا اور باز رہنے کی تلقین کرتا تو وہ بڑے مشفقانہ انداز میں کہتا:
’’خان! تم ماشاء اللہ جوان ہو… غریبوں کو کون لڑکیاں دیتا ہے … میں تمہاری بات کررہا ہوں … اللہ نے چاہا تو کامیاب ہوکے رہوں گا… ورنہ مجھے کیا … میں اب بوڑھا ہوگیا ہوں…‘‘ ان خوش آئند الفاظ سے میرے بدن میں ایک جھرجھری سی پیدا ہوجاتی۔ کچھ عرصے بعد جب بابو صاحب کا تبادلہ ہوگیا تو وہ یہ کتیا جمعدار کو دے گئے جمعدار کو بھی دوستی کا پاس تھا۔ وہ اس کی خوب دیکھ بھال کرتے اور آٹا جبکہ افیون کے بھاؤ بک رہا تھا، دو تین روٹیاں اُس کے لیے ضرور پکاتے۔ کتیا بھی دن رات ہمارے دروازہ کے آگے پڑی رہتی۔ جاتے وقت دم ہلا کر اور آتے وقت ہمارے پاؤں چوم کر اور قلابازیاں کھا کر ہمارا استقبال کرتی۔ لیکن کتیا کی حالت آج کچھ غیر تھی، وہ پاگلو ںکی طرح بھاگ رہی تھی۔ ہم اس کا نوٹس لیے بغیر اندر چلے گئے اور بمشکل اندر والے کمرے میں پہنچے ہی تھے کہ دروازہ زور سے بجا جیسے کنڈی کھٹکھٹانے کی بجائے کوئی ہاتھوں سے دروازے کو پیٹ رہا ہو۔ میں نے جمعدار سے کہا:
’’جمعدار ذرا دیکھو، کون گدھا آیا ہے…؟‘‘ جمعدار چلا گیا۔
’’ہو یار! بی ہمسائی (کتیا) ہے۔‘‘ جمعدار وہیں سے پکارا۔
’’بی ہمسائی ہے؟… نکال دو اسے۔‘‘ میں نے کوٹ اتارتے ہوئے کہا۔ اتنے میں مرغیوں کی بے تحاشا کاں کاں شروع ہوئی۔ میں تیزی کے ساتھ صحن میں گیا۔ کتیا باہر کی طرف بھاگی اور جمعدار سے جاٹکرائی وہ ڈر سے یا کسی اور وجہ سے دھڑام سے گیلے فرش پر گرا۔
’’ہویار!اس کے منہ میں بچہ تھا۔‘‘ اُس نے اٹھتے ہوئے کہا۔
’’کس کا…؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا
’’اُس کا اپنا …‘‘
’’اب کہاں ہے؟‘‘
پلّے کی ٹاؤں ٹاؤں نے جمعدار کے جواب سے پہلے بتادیا کہ وہ مرغیوں کے ڈربے کے نیچے ہے، مرغیاں اب بھی شور مچا رہی تھیں۔ مگر میری موجودگی سے اُن کا شور کم ہوتا جارہا تھا۔ تیز ہوا سے کھلا ہوا دروازہ تڑاخ سے بند ہوگیا، جوں ہی دروازہ بند ہوا پھر مکہ بازی شروع ہوئی۔ جمعدار نے جاکر دروازہ کھول دیا۔ کتیا بھاگتی ہوئی آئی۔ منہ کھول کر دوسرے پلّے کے ساتھ رکھ دیا۔ مرغیوں کا شور پھر بلند ہوا۔ جو فضائے بسیط کو چیرتا ہوا دور درختوںسے جاٹکرایا۔
’’جمعدار ادھر آؤ۔‘‘ میں نے جمعدار کو اپنی طرف بلایا جو اپنے کپڑوں سے کیچڑ کھرچ رہا تھا۔
’’ان کم بخت پلوں کو اٹھا کر باہر گلی میں پھنک دو…!‘‘
’’مگر یار … مرجائیں گے… سردی میں …‘‘ اس نے میری بات کاٹ کر کہا۔
’’مرنے دو ان بدبختوں کو۔‘‘ میں نے غصہ میں کہا۔
’’لیکن مامتا … ‘‘ کتیا اپنے تیسرے بچے کو اٹھائے بھاگتی ہوئی آئی۔
’’معلوم ہوتا ہے۔ اس کی کھولی بارش کے پانی سے بھرگئی ہے۔ … جبھی تو وہ انھیں محفوظ جگہ پر منتقل کررہی ہے… ماں ہے آخر … مامتا ہے…‘‘ جمعدار نے کہا۔
ماں اور مامتا کے الفاظ نے مجھے سن کردیا۔ مجھے کتیا کے ساتھ بے پایاں ہمدردی ہوگئی۔
’’جمعدار! ذرا خود جاکر باقی ماندہ بچے اٹھا لاؤ اور دروازہ بند کردو… دیر ہوجائے گی… نیند آئی ہے…‘‘ جمعدار تیزی کے ساتھ باہر نکل گیا میں واپس کمرے میں آکربستر میں پڑگیا۔ دروازہ ہوا کے زور سے کھلتا اور بند ہوتا رہا۔ آدھا گھنٹہ گزر گیا۔ نہ تو جمعدار واپس آیا اور نہ کتیا۔ مجھے کچھ وسوسہ سا ہوا میں نے ایک جھٹکے کے ساتھ رضائی الگ کی اور اٹھ کھڑا ہوا۔ کھونٹی پر لٹکا ہوا کوٹ اوڑھ سا لیا اور باہر گلی میں آکر زور سے پکارا۔
’’جمعدار… ہو جمعدار…‘‘
’’ہو یار…‘‘ لکڑی کی ٹال کے پیچھے سے آواز آئی اور میں اس طرف چل دیا۔
’’کیا ہے؟‘‘ میں نے جمعدار کو کسی چیز پر جھکے ہوئے دیکھ کر پوچھا۔ اس کے ہاتھ میں دو پلّے تھے جو ٹوں ٹوں کررہے تھے۔ پاس ہی ان کی ماں کھڑی مامتا بھری نظروں سے انھیں تک رہی تھی اور دم ہلا رہی تھی۔
’’بچہ ہے۔‘‘ جمعدار نے جواب دیا۔
’’کس کا؟‘‘
’’انسان کا‘‘
’’انسان کا…؟‘‘ میری زبان نے الفاظ دہرائے۔
’’زندہ ہے یا …؟‘‘ موت کے خوف سے میرے ہونٹ سی دیے اور ’’مردہ‘‘ کا لفظ میرے حلق میں اٹک کر رہ گیا۔
’’مردہ۔‘‘ جمعدار نے کہا۔
’’میں آگے بڑھ کر جمعدار کے پاس پہنچا اور پاؤں کے بل بیٹھ گیا۔ ایک پتلے سے کپڑے میں لپٹا ہوا ایک نوزائیدہ بچہ پڑا تھا۔ موٹا موٹا سا جسم، نازک نازک سے ہاتھ۔ چھوٹی چھوٹی سی انگلیاں، دل کشا سا مکھڑا،سنہری بال، دو گول گول سی آنکھیں۔ جنھیں قدرت نے انسان اور حیوان کی تمیز کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے کھول دیا تھا۔ کتنا خوبصورت تھا بچہ۔ دل چومنے کو چاہتا تھا۔
’’اس کی ماں…؟‘‘ میری زبان سے بے ساختہ نکل گیا۔
’’تم سمجھتے نہیں نادان ہو کیا؟‘‘جمعدار نے جیسے ایک طمانچہ میرے منھ پر رسید کردیا۔
ہماری نگاہیں چاروں طرف گھوم گئیں۔ کتیا اپنے بچوں کو پیار بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ دور کہیں الو کی چیخ سنائی دی۔ ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا، بچے پر پڑا ہوا کپڑا اڑ کر دور جاپڑا۔اور میری زبان سے نکلا: ’’یا اللہ کیا زمانہ آگیا ہے؟ تو ہمیں اپنے عذاب سے محفوظ رکھ۔‘‘
——