مانُش

اقبال انصاری

جاوید نے پوچھا ’’کون جلا؟‘‘ (کون ضلع)

رکشے والے نے جواب دیا: ’’کشن گنج، بہار‘‘ پھر اپنی بنگالی ملی اردو اور عجیب و غریب لہجے اور اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب تلفظ کے ساتھ کہنا شروع کیا جس کا ماحصل یہ تھا کہ کشن گنج شمالی بہار کا سرحدی ضلع ہے؟ اس کے مشرق میں مغربی بنگال ہے، اس کے گاؤں کا نام سونا پور ہے، جو بالکل مغربی بنگال کی سرحد پر ہے، دس منٹ میں وہاں سے ٹہلتے ہوئے مغربی بنگال پہنچا جاسکتا ہے، اس کے گاؤں کے لوگ تمام ضروری سامان کی خریداری کے لیے اسلام پور جاتے ہیں جو مغربی بنگال کا ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، اور جس کافاصلہ اس کے گاؤں سونا پور سے صرف چار کلو میٹر کا ہے۔

اس کا نام غالباً صلاح الدین تھا جسے وہ خود بھی ’’سلادین‘‘ کہتا تھا اور اس کے شناسا اسے ’’سلادین‘‘ ہی جانتے اور پکارتے تھے۔

وہ اتنی جلدی جلدی بولتا تھا کہ اس کی بات بہت دیر میں سمجھ میں آتی تھی، جب تک ایک بات سمجھ میں آتی، وہ چھ باتیں اور کہہ چکا ہوتا تھا۔ کبھی کبھی تو اس کی کہی ہوئی بات سمجھ میں آتی ہی نہیں تھی، بہت بولتا تھا۔ سواری اس سے کچھ پوچھے یا نہ پوچھے، وہ کچھ نہ کچھ بتانے ہی لگتا تھا… کبھی مہنگائی، کبھی بڑھتے ہوئے جرائم، کبھی دنیا کی بگڑتی ہوئی حالت، کبھی لوگوں کی بے ایمانیاں، کبھی پولیس کی زیادتیاں، کبھی کسی نامعقول سواری کی شکایت۔ اسے یہ پروا نہیں ہوتی تھی کہ سواری اس کی بات سن بھی رہی ہے کہ نہیں۔ بس سواری اس کے رکشے میں بیٹھی اور اس نے بولنا شروع کردیا اور پھر اس وقت تک بولتا رہتا جب تک سواری کی منزل نہیں آجاتی تھی۔

ہر تیسرا چوتھا لفظ اپنے کالے کالے ہونٹوں کو گول کرکے بولتا تھا، اور جن لوگوں کو بنگالی زبان یا بنگالی تلفظ کا ذرا سا بھی علم ہوتا انہیں یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ سلادین کے ہر جملے میں ایک آدھ لفظ بنگالی زبان کا ضرور ہوتا تھا۔ اردو اور ہندی کے بیشتر الفاظ کو بھی نادانستگی اور روانی میں بنگالی تلفظ کے ساتھ ادا کرتا تھا۔خبر کو کھوبر، گلاب کو گولاب، جتن کو جوتن، پڑھو کو پوڑھو اور سر کو شیر بولتا تھا۔

ٹھوڑی پر چھوٹی سی چھتری چھتری داڑھی تھی، گالوں کا تقریباً نصف اوپری حصہ بالکل چکنا تھا… روئیدگی ہی نہیں ہوئی تھی۔ رنگت گہری سانولی تھی، تنگ پیشانی، ابرو ایک دوسرے کے ساتھ قریب قریب پیوستہ، قد ساڑھے پانچ فٹ، دبلا پتلا بدن، پاجامہ کرتا پہنتا تھا۔ سر کے گرد مفلر نما ایک سوتی کپڑا باندھے رہتا تھا جس سے اس کے نصف کان ڈھکے رہتے تھے۔ عمر پینتیس اور چالیس کے درمیان رہی ہوگی۔ پانڈے نگر، پشاور گنج، دیشی گارڈن، بنسی نکیتن، موروہار اور تربھون پوری کے علاقوں میں رکشہ چلاتا تھا۔

پتاور گنج کے پوسٹ آفس کے عقب میں جہاں پندرہ برس قبل ایک بہت بڑا تالاب تھا، اب تقریباً پانچ سو جھگیاں پڑگئی تھیں، جوتالاب کو پاٹ کر غیرقانونی طور سے ڈالی گئی تھیں۔ مغربی کنارے پر پہلی جھگی سلادین کی تھی جس میں وہ اپنی بیوی اور تین بچوں کے ساتھ رہتا تھا۔ تینوں لڑکے پتاور گنج کے سروودے ودیالے میں دوسری، تیسری اور چوتھی جماعت میں زیرِ تعلیم تھے۔ بہت پیار کرتا تھا اپنے بچوں سے اور انہیں اعلیٰ تعلیم دلوانا چاہتا تھا۔

جاوید کو اس کی باتوں میں بڑا مزہ آتا تھا… رکشے پر بیٹھا، کوئی ایک بات چھیڑ دی، اور سلادین شروع ہوگیا۔ ایک دن کہنے لگا: ’’اسلام پور چالیش کلومیٹر پرب (پورب) میں چالو، باش (بس) بنگلہ دیش آگیا۔ ادھر میں بھوت بنگلہ دیشی ہوتا۔ بنگلہ دیش میں بھوت گریبی ہوتا، تب کرکے بنگلہ دیشی ادھر انڈیا میں کو آجاتا۔ باڈر پے بنگلہ دیش پولش کو شوَٹکا (بنگلہ دیشی سکہ) دیا، اور پولش نے باڈر کروس کرنے کو دیا، ادھر کا باڈر والا پولش شو روپیہ لیا، انڈیا میں کو آنے کو دیا باش، شب ٹھیک بروبر… دلی میں کو آگیا۔ ادھر میں کاج (کام) ہائے، مجری (مزدوری) ہائے۔ جھگی ڈالا، پانچ شو روپیہ جمع کیا، بابو کو پاکرا (پکڑا) دیا، باش، ریسن کارٹ بون گیا (راشن کارڈ بن گیا)، بنگلہ دیشی انڈین ہوئی گیا، جھگی پہ کو جھنڈا لگایا، نیتاجی نے اولٹ لسٹ میں نام لکھادیا، پاکاّ انڈین ہولیا بولو۔‘‘

یہ سن کر جاوید کے ذہن میں ایک سوال اٹھا… ’’کیا یہ شخص واقعی بہار ی ہی ہے؟‘‘

اورپھر اس ایک سوال نے مزید سوالوں کو جنم دیا… ’’اگر یہ بہاری ہے تو اس کی زبان بہاریوں جیسی کیوں نہیں ہے؟‘‘ اگر یہ بہاری ہے تو اس کی زبان میں اتنے الفاظ بنگالی زبان کے کیوں ہوتے ہیں؟‘‘ ، ’’یہ صحیح ہے کہ اس کا گاؤں نارتھ بہار کی مشرقی سرحد پرویسٹ بنگال کے بالکل قریب ہے، پھر بھی اس کی زبان میں بنگلہ الفاظ کی اتنی افراط کیوں ہے؟ کیوں یہ پوشاک کے لیے ’’بشن‘‘ ساری کے لیے ’’شاڑی‘‘ کرتے کے لیے، ’’جامہ‘‘ ، ’’پہنو‘‘ کے لیے ’’پرو‘‘ کالا کے لیے ’’کالو‘‘ جام کے لیے ’’جامن‘‘ لذیذ کے لیے ’’شوشاد‘‘ پانی کے لیے ’’جول‘‘ اور اچھا کے لیے ’’بھالو‘‘ بولتا ہے؟ ’’کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کی مادری زبان ہی بنگلہ ہے اور اس نے یہاں آکر ہندی اردو بولنا شروع کیا ہے؟‘‘ کہیں یہ خود ہی بنگلہ دیشی تو نہیں؟‘‘

جاوید کو وہ اکثر ہی مل جاتا تھا، کبھی مور وہار جاتے ہوئے پتاور گنج کے اسٹینڈ پر، کبھی واپسی میں مور وہار کے اسٹینڈ پر۔ ہمیشہ دیکھ کر مسکرا دیتا تھا اور دونوں ہاتھ ایک ساتھ کنپٹیوں تک اٹھا کر ’’سلاما لیکم‘‘ کہتا، جاوید اس کے رکشے میں بیٹھ جاتا، سلادین رکشہ چلاتا اور بولنا شروع کردیتا، مور وہار میں جاوید کو اس آفس کے سامنے اتاردیتا، پانچ روپے لیتا، ’’سلاما لیکم‘‘ کہتا اور چلا جاتا۔ کبھی اگر واپسی میں ملتا تو جاوید کو پانڈے نگر اس کے گھر کے گیٹ پر اتارتا، چھ روپیے لیتا، اور مسکرا کر اپنے مخصوص انداز میں ’’سلاما لیکم‘‘ کہہ کر چلا جاتا۔

ایک دن جاوید کو آفس سے تربھون پوری جانا پڑا۔ سر میں شدید درد تھا۔ اس نے اپنے ڈی ڈی سے کہا کہ کسی اور کو بھیج دیا جائے، اس کے سر میں درد ہے، پتہ نہیں ڈی ڈی صاحب کا موڈ کیوں خراب تھا؟ ہتھے سے اکھڑ گئے… ’’جھوٹ بولتے ہو، کام ٹالتے ہو، جانا پڑے گا، تم ہی جاؤگے، ابھی جاؤ… گٹ اٹ ڈن‘‘ دہاڑنے لگے۔ جاوید خاموشی سے کمرے سے نکل آیا۔

جتنی گالیاں یاد تھیں دل ہی دل میں ڈی ڈی کو دیتا ہوا دفتر سے باہر آیا، ایک رکشہ پکڑا اور تربھون پوری سپلائی آفس چلاگیا۔ وہاں تقریباً پون گھنٹہ انتظار کرنا پڑا تب سیکشن آفیسر سے ملاقات ہوسکی، اور کام پھر بھی نہیں بنا۔ سخت کوفت ہوئی۔ گھڑی دیکھی، پونے چھ بج رہے تھے۔اب دفتر جانا بیکار تھا، چنانچہ گھر جانے کی ٹھہری، نظر پڑی سلادین پر سلادین نے بھی اسے دیکھ لیا۔

’’سلاما لیکم‘‘ حسبِ عادت مسکرا کر دونوں ہاتھ کنپٹیوں تک اٹھائے اور رکشہ قریب لے آیا۔

جاوید رکشے میں بیٹھ گیا اور بولا ’’گھر‘‘۔

سلادین نے پیڈل چلانا اور بولنا شروع کردیا۔

جاوید بے حد جھنجھلایا ہوا تھا۔ سر درد میں اضافہ ہوگیا تھا اور سلادین کی بکواس بالکل بھی اچھی نہیں لگ رہی تھی۔ مگر سلادین اپنی دھن میں بولتا ہی چلا جارہا تھا۔

جاوید سوچ رہا تھا کہ کل جب وہ ڈی ڈی کو بتائے گا کہ کام نہیں ہوا تو ان کا پارہ اور چڑھے گا؟ ’’انہیں شاید یقین ہی نہ آئے کہ میں گیا بھی تھا! ضدی آدمی ہیں اور بدتمیز بھی، کل بھی مجھے ہی بھیجیں گے، ادھر سپلائی آفس کا وہ سیکشن آفیسر نہایت ہی بددماغ ہے۔ خاصی توتو میں میں ہوئی ہے، کل بھی ٹرخانے کی کوشش کرے گا۔‘‘ یہی سب سوچتے سوچتے وہ گھر پہنچ گیا۔ جھنجھلاہٹ بری طرح ذہن پر سوار تھی۔

رکشے سے اتر کر اس نے جیب سے آٹھ روپے نکال کر سلادین کے ہاتھ پر رکھ دیے۔

’’دوئی روپیہ اور‘‘ سلادین نے کہا۔

’’کیوں؟ دو روپیہ اور کیوں؟‘‘ جاوید غصے سے بولا ’’تربھون پوری سے یہاں تک کے آٹھ روپے بنتے ہیں۔‘‘

’’نائین بابو، تربھون پوری سے ای ہاں تک کا داش روپیہ بونتا ہائے۔‘‘ سلادین سمجھانے والے انداز میں بولا۔

’’نہیں بنتے ہیں دس روپئے، آٹھ بنتے ہیں۔ ‘‘ جاوید کی آواز مزید مشتعل ہوگئی۔

’’امی روجینا شواری لاتا ہائے داش روپیہ ما۔ دوئی روپیہ اور دو۔‘‘ سلادین کی آواز بھی اونچی ہوگئی۔

’’اب تو چلا جا یہا ںسے چپ چاپ۔‘‘ جاوید نے اسے گھور کر دیکھا اورگیٹ کی طرف بڑھا۔

سلادین نے جاوید کا بازو پکڑ لیا۔ اور قطعی غیر ارادی طور سے جاوید نے اس کے گال پر ایک زوردار تھپڑ مارا، اور پھر جیسے پتھرا گیا، کیونکہ اس سے قبل کہ وہ کچھ سمجھ سکتا، سلادین کا جوابی تھپڑ اتنی قوت سے اس کے بائیں گال پر پڑا تھا۔

سکتے کی سی حالت سے نکل کر جاوید نے سلادین کا گریبان پکڑنے کی کوشش کی تھی مگر تبھی سلادین ہاتھ اٹھا کر بولا : ’’شونو بابو، تمی مارے گا تو امی بی بروبر مارے گا… امی مجور(مزدور) گوریب (غریب) رکسا والا، تمی امیر، حاکم، اپھسر (افسر) … ابی تم کا پروسی دیکھے گا … ایک رکسا والا تمی کو مارتا ہائے … تمی کا عجّت کھوتم … (تمہاری عزت ختم) بولو!‘‘

جاوید نے اپنا بڑھا ہوا ہاتھ روک لیا۔ کنکھیوں سے ادھر ادھر دیکھا۔ اتفاق سے کوئی بھی آس پاس نہیںتھا… کسی نے بھی نہیں دیکھا تھا کہ ایک گھٹیا سے رکشے والے نے پلٹ کر مسٹر جاوید انجم اویس کو تھپڑ مارا تھا۔

جاوید نے چپ چاپ دو روپئے جیب سے اور نکالے، سلادین کے ہاتھ پر رکھے، اورگیٹ کھول کر گھر میں چلا آیا۔

رات بھر وہ کھولتا رہا۔

ایک رکشے والے کی یہ مجال! ہتک نے رات بھر اسے سونے نہ دیا۔

دو دن بعد اتوارتھا۔ صبح اٹھ کر جاوید پتاور گنج تھانے گیا۔ سب انسپکٹر کرتار سنگھ اس زمانے میں پتاور گنج میں تعینات تھا۔ گریجویشن میں تین سال تک جاوید کا کلاس فیلو رہا تھا؟ گہری دوستی تھی جاوید سے۔ میرٹھ کا لمبا چوڑا جاٹ تھا، اور بہت ظالم تھا۔ خوش قسمتی سے تھانے میں ہی مل گیا۔ آدھے گھنٹے کے بعد جاوید تھانے سے باہر آیا۔ کرتار سنگھ اسے گیٹ تک چھوڑنے آیا تھا۔

گیٹ پر آتے ہی جاوید کی نظر سلادین پر پڑی، رکشہ لیے پتاور گنج کے رکشہ اسٹینڈ کی طرف جارہا تھا۔ اس پر نگاہ پڑتے ہی جاوید نے اس کی طرف اشارہ کرکے کرتار سنگھ سے کہا : ’’یہی ہے۔‘‘

’’ادھر آبے‘‘ کرتار نے اپنی خون خشک کردینے والی آواز میں سلادین کو للکارا۔سلادین کی نظر پہلے کرتار سنگھ پر پڑی پھر جاوید پر۔

’’شاہب، جوناب…‘‘ رکشہ روک کر سلادین نے کچھ کہنا چاہا مگر کرتار سنگھ کی گھورتی ہوئی بڑی بڑی سرخ آنکھوں نے باقی الفاظ کو گویا بے آواز کردیا۔ ہونٹ ہلاکر رہ گیا۔

کرتار سنگھ نے جاوید سے کہا: ’’اوکے اولڈ بوائے… تم جاؤ، میں اسے بنگلہ دیش پہنچادوں گا۔‘‘

جاوید نے حقارت بھری ایک فاتحانہ نظر سلادین پر ڈالی اور چلا آیا۔ کرتار سنگھ سلادین کو مع اس کے رکشے کے تھانے میں لے گیا۔

ایک ہفتے تک کرتار سنگھ سلادین کو ٹھونکتا بجاتا رہا، اسے مجبو رکرتا رہا کہ وہ اپنا بنگلہ دیشی ہونا قبول کرلے۔ سلادین تمام زیادتیاں جھیل گیا۔ چوبیس چوبیس گھنٹے کرتار سنگھ نے اسے تھانے میں بٹھائے رکھا، ٹھوکریں اور تھپڑ برساتا رہا، سونے نہیں دیا، اس کے پلک جھپکتے ہی ٹھوکر مارتا، لیکن سلادین نے قبول نہیں کیا کہ وہ بنگلہ دیشی ہے، برابر یہی کہتا رہا کہ بہاری ہے، بہار میں اس کے گاؤں سونا پور سے اس کے بارے میں معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔‘‘

ایک ہفتہ کے بعد کرتار کا تبادلہ نجف گڑھ تھانے میں ہوگیا۔ وہ چلا گیا، سلادین کی جان چھوٹی۔ جانے سے قبل کرتار سنگھ نے جاوید کو فون کرکے کہا: ’’یار جاوید بھائی یہ شخص بنگلہ دیشی نہیں ہے ورنہ اتنی تگڑی پٹائی اور منٹل ٹارچر کے بعد تو اچھے اچھے ٹوٹ جاتے ہیں اور سچ اگل دیتے ہیں۔ میرا کھیال ہی نہیں، مجھے یکین ہے کہ تمہارا کھیال گلت ہے۔ یہ آدمی بنگلہ دیشی نہیں ہے۔‘‘

قریب پندرہ دن کے بعد ایک شام سلادین جاوید کے گھر پہنچا۔ اتفاق سے جاوید گیٹ پر ہی تھا۔ سلادین نے رکشہ روکا، نیچے اترا اور بولا: ’’تمی دوئی روپیہ کا کھوتر امی کو بنگلہ دیشی بونا دیا! تمی شالا مانس ہائے کہ کوشائی؟‘‘ (تم نے دو روپیہ کی خاطر مجھے بنگلہ دیشی بنادیا، تم سالا انسان ہے کہ قصائی؟)

قبل اس کے جاوید کچھ کہتا اس نے فرّاٹے سے بنگلہ میں کچھ کہنا شروع کیا۔

اُس نے کیا کہا، یہ تو جاوید کی سمجھ میں نہیں آیا، البتہ کچھ الفاظ اور چند فقرے ضرور اس کی سمجھ میں آئے، یہ الفاظ اور فقرے تھے ’’امی چومکے اٹھلو‘‘ (میں بھونچکا رہ گیا) ’’اجتھا‘‘ (جھوٹ موٹ) ’’پرتھا‘‘ (فضول)، ’’بُھل‘‘ (غلطی)، ’’مچھے‘‘ (پکار)، ’’ایکے بارے‘‘ (پوری طرح سے)’’شدھبو‘‘ (چکاؤں گا)، ’’شت بار‘‘ (سو مرتبہ) ’’بھادو‘‘ (سوچو) ’’کے نو‘‘ (کیوں) ’’بھالو بیوبہار‘‘(اچھا برتاؤ) ’’شرپ (سانپ) ’’ش شاش کرے نا‘‘ (اعتبار نہیں کرتا) ’’ہنگ شوٹے‘‘ (کینہ پرور)۔ جاوید ایک ٹک اسے گھورتا رہا۔

بالآخر شاید سلادین کی بھڑاس نکل گئی۔ اس نے بڑی نفرت سے جاوید کو دیکھا ’’کوکر‘‘ (کتا) کہا، زمین پر تھوکا اور اپنا رکشہ لے کر چلا گیا۔

جاوید گیٹ بند کرکے اندر چلا آیا۔

جاوید کا چھوٹا بھائی نوید اوپر ٹیرس پر کھڑا دیکھ رہا تھا۔ اس نے جاوید سے پوچھا:’’بھیا یہ رکشے والا کیا بکواس کررہا تھا؟‘‘

جاوید نے شانے جھٹک کر کہا: ’’پتہ نہیں کیا بکواس کررہا تھا، میں بہت کم عرصہ بنگال میں رہا ہوں، اس لیے بہت کم بنگالی میری سمجھ میں آتی ہے اور اس رکشے والے کی بنگالی تو بے حد عجیب و غریب تھی۔ دوسرے بول اتنے فراٹے سے رہا تھا کہ کچھ بھی سمجھ میں نہیںآیا۔‘‘ جاوید ٹال گیا۔

اس واقعہ کے بعد جاوید اور سلادین کا سامنا کئی بار ہوا، سلادین اسے دیکھ کر مسکرایا نہیں، کبھی اس کے ہاتھ سلام میں نہیں اٹھے، کبھی اس کے منہ سے ’’سلامالیکم‘‘ نہیں نکلا، کبھی وہ رکشہ لے کر جاوید کی طرف نہیں بڑھا۔ جاوید پر نگاہ پڑتے ہی بڑی نفرت سے منھ پھیرلیتا۔ جاوید ایک بار اس کے رکشے پر بیٹھ گیا۔ سلادین نے بڑی بے رخی سے کہا ’’کھولی نائیں ہائے‘‘ (خالی نہیں ہے)۔

جاوید نے بڑے نرم لہجے میں کہا ’’چلو، غصہ تھوک دو۔‘‘

’’ناجابو‘‘ (نہیں جاؤں گا) سلادین کی آواز اونچی تھی اور لہجے میں جارحیت۔ دوسرے رکشے والے اور دو ایک راہگیر چونک کر ان کی طرف دیکھنے لگے۔ جاوید جلدی سے ایک دوسرے رکشے پر بیٹھ گیا اور مور وہار کی طرف اشارہ کیا۔ رکشہ چل پڑا۔

جاوید سمجھ گیا کہ سلادین کی ناراضگی کبھی ختم نہیںہوگی،اس لیے پھر کبھی اس نے سلادین کو مخاطب نہیں کیا، کبھی اس کے رکشے کی طرف نہیں بڑھا ، کبھی اس کے رکشے پر نہیں بیٹھا۔ کئی مہینے بیت گئے۔

وہ گھنی برسات کی ایک بے حد تاریک و طوفانی رات تھی۔ بادل امنڈ امنڈ کر آرہے تھے اور ٹوٹ ٹوٹ کر برس رہے تھے۔ سڑکیں سب زیرِ آب تھیں۔ پوری کالونی اور ارد گرد کا پانچ چھ کلومیٹر کا علاقہ مکمل تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ دوپہر سے ہی بجلی غائب تھی۔ اور اس وقت رات کے دوبجے تھے۔ جاوید کی اہلیہ رات ایک بجے سے ہی پیٹ درد سے تڑپ رہی تھی، فرسٹ ایڈ جو بھی ممکن تھی جاوید اسے دے چکا تھا، مگر کوئی افاقہ نہیں ہوا۔ صرف جاوید کا ہی نہیں، ساری کالونی کے فون ڈیڈ پڑے تھے۔ اس لیے نہ کسی اسپتال کو فون کرکے ایمبولینس منگواسکتا تھا، نہ کسی ٹیکسی اسٹینڈ فون کرکے ٹیکسی۔ ادھر بارش تھی کہ دم نہیں لے رہی تھی ادھر رضیہ کے پیٹ کا درد دم نہیں لینے دے رہا تھا۔ نہ اسے نہ جاوید کو، نہ نوید کو۔ اس وقت اس اندھیری رات اور طوفانی بارش میں کسی تھری وہیلر کے امکانات بھی صفر تھے، اور رضیہ کو اسپتال لے جانا ضروری تھا۔

گھر سے سب سے نزدیکی اسپتال جیون رکشا اسپتال تھا۔ جو آریہ ورت کالونی میں تھا، جاوید کے گھر سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر۔ جاوید نے رضیہ کو نوید کی نگہداشت میں چھوڑا اور چھتری اور ٹارچ لے کر اس امید کے ساتھ گھر سے نکلا کہ شاید … شاید کوئی تھری وہیلر یا ٹیکسی مل جائے۔

پتاور گنج روڈ سنسان پڑی تھی۔ جاوید کافی دیر برستے پانی میں کھڑا رہا… ’’کاش کوئی رکشہ ہی …‘‘ رکشے کا خیال آتے ہی سلادین یاد آیا اور جاوید تیزی سے پوسٹ آفس کی طرف چل دیا، جس کے عقب میں سلادین کی جھگی تھی۔

جاوید جھگی کے سامنے پہنچ گیا۔

سلادین کا رکشہ باہر ہی کھڑا تھا۔ اگلے پہیے میں ایک موٹی سی زنجیر پڑی تھی، جس کے دونوں سرے جھگی کے دروازے کے نیچے کی دراز سے ہوکر اندر جھگی میں کہیں غائب ہوگئے تھے۔

جاوید نے جھگی کے دروازے پر دستک دی… پھر کچھ اور تیزی سے دستک دی، پھر کچھ اور زور سے۔

بالآخر اندر سے سلادین کی کڑکتی ہوئی آواز آئی، ’’کؤن ہائے؟‘‘

اور چند لمحوں کے بعد دروازہ کھلا؟ ایک روشن لالٹین سلادین کے ہاتھ میں تھی۔ جتنی منت سماجت ممکن تھی، جاوید نے کرلی، لیکن سلادین رکشہ لے کر چلنے کو راضی نہ ہوا۔ جاوید نے تقریباً رو کر کہا کہ اس کی بیوی کو اگر فوراً اسپتال نہ پہنچایا گیا تو وہ مرجائے گی۔ سلادین ٹس سے مس نہ ہوا۔ بار بار ایک ہی فقرہ دوہراتا رہا ’’ناجابو۔‘‘

آخر میں بولا ’’مانش کو مانش کا جورت (ضرورت) پرتا ہائے۔ پرامی مانش نا ہائے… امی بنگلہ دیشی ہے۔‘‘ اور پھر اندر جاکر جھٹکے سے دروازہ بند کرلیا۔ مجبور ہوکر جاوید چلا آیا۔

واپس آرہا تھا کہ خیال آیا کہ روپ کالونی چلا جائے، وہاں ایک تھری وہیلر اسٹینڈ ہے، امید تو نہیں کہ اس طوفانی کالی رات میں کوئی تھری وہیلر اسٹینڈ پر ہوگا، پھر بھی دیکھ لیتے ہیں۔

روپ کالونی وہاں سے آدھا کلومیٹر کے فاصلے پر تھی۔

پانی میں لت پت وہ روپ کالونی پہنچا۔

اسٹینڈ پر پانی تھا، سناٹا تھا، تاریکی تھی، تھری وہیلر ایک بھی نہیں تھا۔ لوٹ آیا۔ جب اپنی کالونی پہنچا تو رات کے تین بج چکے تھے۔

بارش اب بھی اسی رفتار سے ہورہی تھی، جاوید تھکے ہارے قدموں سے اپنے گھر پہنچا، گیٹ پر سلادین رکشہ لیے کھڑا تھا، اور نوید سہارا دے کر رضیہ کو رکشے پر بٹھا رہا تھا۔

(بشکریہ پیش رفت، نئی دہلی)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146