اندھیرے سے نکلنے اورروشنی کی طرف جانے اور اُسے حاصل کرنے کی اُس نے فطری کوشش کی تھی لیکن یہ بھی ایک حقیقت تھی کہ اندھیرے سے روشنی کی طرف جانے کا راستہ قطعی دشوار گزار تھا اور یہ بھی آسان نہیں تھا کہ اندھیرے میں مسلسل گھرا رہے کیونکہ ایسا کرنے سے اندھیرے کا جزو بن جانے کا خوف ہر وقت کچے دھاگے سے بندھی تلوار کی طرح سر پر لٹکتا رہتا تھا اور جب اس نے اپنے اطراف اندھیرے کو جسم کی جلد کی طرح محسوس کیا اور روشنی بھرے لوگوں کو دیکھا تو اُس نے سوچا کہ اندھیرا اگر بڑھ جائے تو خود کو اپنا پن بھی دکھائی نہ دے گا…
کچھ ایسا ہی سوچ کر اُس نے سفر کا ارادہ کیا… اندھیرے سے روشنی کی طرف جانے کا ارادہ بھی فطری ہے۔ مگر جب اس نے قدم اٹھایا تو اسے محسوس ہوا کہ وہ ایک اندھی کالی کوٹھڑی میں بند ہے ۔ کوٹھڑی کی دیواروں پر موٹی موٹی نوکدار سلاخیں ہیں، جن سے اب تک وہ لا علم رہا تھا۔ اس نے چیخ کر روشنی بھرے لوگوں کو متوجہ کرنا چاہا کہ وہ اسے اِس اندھی کوٹھڑی سے نکالیں۔ مگر شاید اُس کی آواز روشنی بھرے لوگوں تک نہیںپہنچی تھی۔ کیونکہ روشنی بھرے لوگوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔ توجہ اُس پر دی جاتی ہے جو توجہ دینے کے قابل ہو اور توجہ دینے کے قابل وہ ہوتا ہے جو خود دوسروں کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کروالے اور یہ روشنی حاصل کیے بغیر ممکن نہیں تھا۔ تو اس نے سوچا کہ روشنی حاصل کرنے اور زندگی کو نشٹ ہونے سے بچانے کے لیے اسے اس اندھی کوٹھڑی سے نکلنا چاہیے۔ اس نے اپنا پورا زور جمع کرکے کوٹھڑی کی دیوار پر ٹکّر ماری۔ کئی سلاخیں جسم میں بیک وقت داخل ہوگئیں۔ اس نے اور کوشش کی۔ اس کے ہاتھ پاؤں لہو لہو ہوگئے اور وہ تھک کر چور چور ہوگیا۔ کچھ نہ ہونا تھا، کچھ نہ ہوا۔ پس منظر میں اندھیرا بڑھنے لگا۔ اس نے پھر ہمت سے اپنے زخموں سے چور چور جسم پر چھائیوں کو جسم دیا اور اُن سے توانائی حاصل کرکے اپنے پورے زور سے ٹکّر لگائی۔ ایک سلاخ اس کے سینے میں گھس گئی۔ ایک کربناک چیخ اُس کے منھ سے نکلی۔ روشنی بھرے لوگوں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور پھر اپنے کاموں میں اس طرح مشغول ہوگئے جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ اُسے روشنی بھرے لوگوں کا رویہ بہت برا لگا۔ اس نے غصے میں آکر اپنا پورا زور یکجا کرکے دیوار پر زور زور سے ٹکریں ماریں۔ ایک دھماکے سے دیوار ٹوٹ گئی اور وہ باہر نکل کر گرگیا۔ اس نے باہر نکل کر دیکھا مگر اسے باہر بھی اندھیرا ہی اندھیرا نظر آیا۔ لوگوں نے ہنس کر اس سے کہا ’’اندھے ہوکر کہتے ہو کہ اندھیرا ہے۔‘‘
اُس نے اپنے آپ کو ٹٹولا تو اسے محسوس ہوا کہ اس کے آنکھیں ہوکر بھی آنکھیں نہیں ہیں۔ اُس نے لوگوں سے التجا کی کہ وہ اُسے آنکھیں دیں۔ لوگوں نے اسے بتایا کہ آنکھیں مانگنے سے نہیں ملتیں بلکہ دکانوں سے خریدنی ہوتی ہیں۔
اچانک اُسے محسوس ہوا جیسے اس کی راہ میں کہیں سے چاندی کا پہاڑ اُگ آیا ہے اور اس کے پیٹ سے کالی ٹانگیں نکل آئیں۔ جو اسے اندھیرے کی طرف کھینچنے لگیں۔ اب اُسے دوہری محنت کرنی پڑ رہی تھی۔ ایک تو کالی ٹانگوں کے خلاف جدوجہد اور دوسری چاندی کے پہاڑ کو سر کرنے کی محنت۔ یہ دوہری محنت اس کے لیے کافی جان لیوا ثابت ہوئی۔ شب و روز نے اُس کے جسم سے اپنا خراج وصول کرنا شروع کیا۔ اس نے جیسے تیسے ان دونوں مصیبتوں کو سر کیا اور ایک دوکان پر جاپہنچا۔
’’مجھے آنکھیں چاہئیں‘‘ اس نے دکاندار سے کہا۔ دکاندار نے اسے کئی قسم اور رنگوں کی آنکھیں دکھائیں۔ اسے تعجب ہوا کہ آنکھیں بھی کئی قسم کی ہوتی ہیں۔ کالی آنکھوں کو اس نے فوراً ایک طرف ہٹادیا کیونکہ اسے کالی چیزوں سے نفرت تھی۔ اس نے سرخ آنکھیں پسندکیں، کیونکہ اس خطے میں سرخ آنکھوں کا فیشن عام تھا اور ایسے لوگ ’’سرخ آنکھوں والے‘‘ کہلاتے تھے۔ اسے اس کا تصور ہی اچھا لگا کہ وہ ’’سرخ آنکھوں والا‘‘ کہلائے گا۔
دکاندار نے سرخ آنکھیں اس کے ہاتھ میں تھماتے ہوئے کہا۔ ’’سامنے کی بلڈنگ میں جاکر انھیں اپنے چہرے پر فٹ کروالو۔‘‘
سامنے بلڈنگ میں داخل ہوا تو پتہ چلا کہ کئی قطاریں ہیں جہاں اُس جیسے کئی اندھے اپنی اپنی آنکھیں ہاتھوں میں لیے کھڑے ہیں۔ وہ بھی سرخ آنکھوں والوں کی قطار میں جاکھڑا ہوا۔ یہاں ہر اندھے کی پیشانی میں سوراخ کیے جارہے تھے۔ اس کی بھی پیشانی کو چھیدا گیا۔ کئی دن اور راتوں کی مسلسل کوشش کے بعد اس کے چہرے پر آنکھیں فٹ ہوگئیں۔ اُسے ایسا لگا جیسے روشنی اُس میں بھرگئی ہو۔ سرخ آنکھوں والے اسے دیکھ کر مسکرائے اور کالی آنکھوںوالوں کی پیشانی پر بل پڑگئے۔ اس نے روشنی کو دیکھا۔ روشنی اسے سرخ دکھائی دی۔ ایک کالی آنکھوں والے سے اُس نے پوچھا’’بھائی روشنی کیسی ہے؟‘‘
اس نے جواب دیا: ’’دیکھتے نہیں روشنی کالی ہے۔‘‘
اُسے بعد میں پتہ چلا کہ روشنی کے کئی رنگ ہوتے ہیں۔ اُس نے چند سفید آنکھوں والوں سے روشنی کا رنگ دریافت کیا، اُن لوگوں سے اُسے اطلاع ملی کہ روشنی کا کوئی رنگ ہی نہیں ہے۔ نہ وہ سرخ ہے، نہ کالی ہے اور نہ ہی نیلی۔ اُسے غصہ آگیا۔
’’آپ غلط کہتے ہیں، روشنی سرخ ہے۔‘‘
کالی آنکھوں والا زور سے چیخا۔’’غلط، روشنی صرف کالی ہے۔‘‘
وہ اندھیرا جو وہ پیچھے چھوڑ آیا تھا، دور ہونے کے بجائے اس میں پھر سے سماگیا۔ رنگ اس کی نظر میں گڈ مڈ ہونے لگے۔ ایسا لگا جیسے اسے کسی نے گلشن کا دھوکا دے کر ریت کے تپتے ہوئے صحرا میں پھینک دیا ہو۔ اچانک دور پس منظر سے بوڑھا سمندر ابھرا جو بہت ہی قدیم تھا اور وہ مختلف رنگوں میں نظرآتے ہوئے بھی ایک ہی تھا۔ اس نے اپنے پیاسے ہونٹوں پر زبان پھیری اور جلتے پانوں اس کی طرف دوڑ پڑا۔ جیسے جیسے وہ سمندر کی طرف بڑھنے لگا ویسے ویسے سمندر دور ہونے لگا۔ اس کے پیر تھک گئے۔ پیٹ کی کالی ٹانگوں نے پھر اسے ستانا شروع کیا۔ پیٹ پیٹھ سے جاچپکا اور زبان باہر نکل پڑی اور وہ چکرا کر گرپڑا تو سمندر اُس سے بہت ہی تھوڑے فاصلے پر تھا اور سورج اس کے سر پر کھڑا مسکرا رہا تھا… تب اُسے پہلی بار معلوم ہوا کہ روشنی کا دراصل کوئی رنگ ہی نہیں ہے۔
——