عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ قَالَ: جَائَ رَجُلٌ فَقَالَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ مَنْ اَحَقُّ بِحُسْنِ صَحَابَتِیْ؟ قَالَ اُمُّکَ قَالَ ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ اُمُّکَ قَالَ ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ اُمُّکَ قَالَ ثُمَّ مَنْ؟ قَالَ اَبُوْکَ۔
(متفق علیہ)
’’حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! میرے حسن سلوک کا سب سے زیادہ حق دار کون ہے؟ آپ نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا: پھر کون؟ ارشاد فرمایا: تمہاری ماں۔ پوچھا پھر کون؟ فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے عرض کیا پھر کون؟ آپ نے فرمایا: تمہارا باپ۔‘‘
اس حدیث میں حضور اکرم ﷺ نے تین مرتبہ ماں کے ساتھ حسنِ سلوک کی ہدایت فرمائی اور ایک مرتبہ باپ کی خدمت گزاری کی۔ اس فرمان رسول سے واضح ہوتا ہے کہ باپ کے مقابلے میں ماں تین درجے زیادہ حسنِ سلوک کی مستحق ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ حمل، ولادت اور رضاعت کے تین کڑے، جاں فرسا اور صبر آزما مراحل سے صرف ماں گزرتی ہے اور باپ سے تین گنا زیادہ جانفشانیاں اٹھاتی اور مصیبتیں جھیلتی ہے۔ بے پایاں شفقت اور مامتا کے ساتھ بچے کی پرورش اور نگہداشت کرتی ہے۔ اس لیے خدمت گزاری کی بھی تین گنا زیادہ حقدار ہے۔
علماء نے لکھا ہے کہ باپ خاندان کا سرپرست و سربراہ ہوتا ہے، اس لیے ادب و احترام اور تنظیم و توقیر کے اعتبار سے اس کا درجہ ماں سے بڑھا ہوا ہے، لیکن حسنِ سلوک اور حق خدمت گزاری کے لحاظ سے ماں، باپ پر فوقیت رکھتی ہے۔
ہمیں چاہیے کہ والدین کے ساتھ اپنے سلوک میں اللہ کے رسول ﷺ کی اس حدیث کو رہنما بنائیں تاکہ جنت کا حصول ممکن ہوسکے۔