حمل کے دوران صحت مند غذا (ڈائٹ) ماں اور جنین دونوں پر اثر کرتی ہے کیوں کہ ماں جنین کو اپنے جسم کے ذریعے غذائیت فراہم کرتی ہے۔
حمل کے ابتدائی تین مہینوں کے دوران جنین کی یومیہ غذائی ضروریات بے حد کم ہوتی ہیں۔ لیکن اس کے بعد غذائیت سے بھرپور تمام لازمی اشیاء کی یومیہ مقدار بڑھانے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ نہ صرف پرورش پانے والے بچے کے ٹشوز تعمیر ہونے لگیں بلکہ ماں کو بھی کسی قسم کی غذائیت کی کمی سے تحفظ مل جائے۔مجموعی طور پر ایک حاملہ ماں کو اضافی کیلوریز یومیہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کیلشیم، آئرن اور فولک ایسڈ کی ضرورت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
حمل کے دوران جسم کی توانائی جذب کرنے اور استعمال میں لانے کی کارکردگی کی قوت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جس کے سبب جسم پر موٹاپا طاری ہو جاتا ہے۔ اس لیے اس دوران اہمیت غذا کے معیار کی ہوتی ہے، نہ کہ غذا کی مقدار کی۔ اس لیے ضروری ہے کہ غذاؤں میں سے صحت مند غذاؤں کا انتخاب کریں اور انہی کو استعمال میں لائیں۔
کاربوہائیڈریٹس، فیٹس، پروٹینز، منرل اور وٹامنز غذا کے مختلف گروپوں سے حاصل کیے جاتے ہیں۔
اناج اور ان کی مصنوعات
دالیں، پھلیاں اور مغزیات، دودھ، گوشت کی اشیاء، پھل اور سبزیاں مطلوبہ وٹامن کے حصول کا بہترین ذریعہ ہیں۔ جب کہ چکنائی اور چینی کو اعتدال کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے۔
دالیں اور بینز پروٹین کے اچھے ذرائع ہیں۔ چپاتیاں اور آلو، چاول اور دیگر نشاستہ دار غذائیں، ریشے کے اہم ذرائع ہیں۔ انہیں سبزیوں کے ساتھ متوازن رکھیں۔
بہت سے لوگ غلطی سے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دیسی گھی بے بی اور ہونے والی ماں کے لیے فائدہ مند ہے۔ بہتر یہی ہے کہ جہاں تک ممکن ہو اسے کم سے کم استعمال کیا جائے۔
مندرجہ ذیل فوڈ گروپس میں سے روزانہ کسی نہ کسی کو ضرور چنا کریں۔
پروٹینز
پروٹینز کا براہ راست تعلق بے بی کی نشو و نما سے ہے۔ جوں جوں بے بی کی نشو و نما ہوتی ہے، پروٹین کی ضرورت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ ابتدائی سہ ماہی میں بہ ذات خود جسم کو لگ بھگ ۶۰ گرام اضافی پروٹین کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک خاتون اپنے جسم کی پروٹین کی ضرورت کو ان چیزوں سے پورا کرسکتی ہے جو عام طور پر اس کے کچن میں پائی جاتی ہیں جیسے کہ مشروم، اناج اور پھلیاں۔ عملی طور پر کہا جاتا ہے کہ ثابت دالوں کے ساتھ دودھ کا ایک اضافی گلاس پروٹین اور کیلوری کی ضرورت کو پورا کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔ کاڈلیور آئل کے علاوہ مچھلی پروٹین کا عمدہ ذریعہ ہوتی ہے۔
آئرن
حمل کے دوران آئرن کی ضرورت میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔ آئرن خون کے صحت مند سرخ خلیات کی تشکیل کے لیے درکار ہوتا ہے۔ بچہ ماں کے ہی جسم سے آئرن کا ذخیرہ حاصل کرتا ہے جو کہ پیدائش کے بعد چار سے چھ ماہ تک اسے صحیح سالم رکھتا ہے۔
آئرن کی کمی والی ماں کو آکسیجن کی قلت کی بناء پر بار بار تھکان اور کسل مندی سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ اس لیے یہ انتہائی لازم ہے کہ حاملہ ماں کو آئرن کی ضروری سپلائی مل جائے کیوں کہ اس نازک دور میں اسے اپنی تمام تر قوت درکار ہوتی ہے۔ آئرن کی بڑھی ہوئی ضرورت ماں کو خون کی کمی (اینیمیا) سے بچاتی ہے۔
چوں کہ ہمارے برصغیر کے کھانوں میں عام طور پر آئرن کم ہوتا ہے، اس لیے آئرن سے بھرپور غذا اور کھانوں کو ابتدا ہی سے کھانا چاہیے۔ دال، گڑ، پفڈ رائس (چاول)، کلیجی اور انڈے یہ سب آئرن سے بھرپور ہوتے ہیں۔
تیزابی چیزوں کے ساتھ آئرن بہتر طور پر جذب ہوتا ہے اس لیے غذا ترش فوڈ آئٹم کے ساتھ لینی چاہیے۔ اینیمیا (خون کی کمی) کی تکلیف کی صورت میں لائم جوس کا گلاس اگر چند کھجوروں کے ساتھ روزانہ لیا جائے تو یقینی طور پر اس مسئلہ پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔
فولک ایسڈ
یہ بھی ایک انتہائی لازمی غذا ہے جو کہ بے بی کے نروس سسٹم کی نشو و نما کے لیے ضروری ہے۔ اگر ماں میں فولک ایسڈ کی کمی ہوگی تو یہ ان خلیات کو متاثر کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ فولک ایسڈ کی کمی کا انتہائی عام اثر اعصابی ٹیوب کی خرابی ہے۔ اس لیے پہلی بار ماں بننے والی خواتین کے لیے یہ بات حقیقت میں انتہائی اہمیت رکھتی ہے اور انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ اگر وہ فولک ایسڈ سے بھرپور ڈائٹ نہیں لیں گی تو ان کے بچے اعصابی ٹیوب کی خرابی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اس کے عمدہ ذرائع میں ہرے پتوں والی سبزیاں شامل ہیں جیسے کہ پالک اور اسپراگس۔
کیلشیم
ماں کو کیلشیم کی اچھی سپلائی درکار ہوتی ہے، خاص طور پر آخری تین مہینوں کے دوران۔ اس دور میں ڈھانچے (پنجر) کی بڑھت تیزی سے ہوتی ہے اور ہڈیاں تشکیل پا رہی ہوتی ہیں۔ اس لیے جنین کو مضبوط دانت اور ہڈیاں تشکیل دینے کے لیے کیلشیم کی اضافی مقدار درکار ہوتی ہے۔ دودھ اور اس کی مصنوعات اس کا بہترین ذریعہ ہے۔ البتہ ان کے علاوہ فاسفورس، کاپر اور وٹامنز اے، بی کمپلیکس، سی، ڈی، ای اور کے تمام کے تمام نارمل جنین کی نشو ونما کے لیے درکار ہوتے ہیں اور حمل کے دوران خون میں زہر سرایت کرنے سے تحفظ فراہم کرتے ہیں۔
تمام غذائیت کے حصوں کا سنہری اصول یہ ہے کہ جہاں تک ممکن ہوسکے مختلف فوڈ گروپس سے جتنی زیادہ غذائیں کھائی جاسکیں، کھائی جائیں۔
بعض مسائل
٭ قبض کی شکایت عام طور پر ہو جاتی ہے اور اس کا سبب بڑھتے ہوئے رحم کا دباؤ، ہار مونل تبدیلیاں اور آئرن کی اضافی مقدار لینا ہوتی ہے۔ مائع پینے کی مقدار میں اضافہ اور زیادہ ریشے والی غذاؤں کے کھانے سے قبض سے بچاؤ ہوسکتا ہے۔
اس سے نہ صرف آنتوں کی نارمل حرکت کو برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے بلکہ اس سے وٹامن اور منرل کی اضافی ضروریات بھی پوری ہوجاتی ہیں۔
روزانہ ڈھیروںمائع پئیں بہ شمول ۸ سے ۱۲ گلاس پانی یومیہ کے۔
٭ حمل کے ابتدائی ہفتوں میں بیشتر خواتین کو معمولی متلی کی شکایت ہوتی ہے، خاص طور پر صبح کے اوقات میں۔ البتہ سر پرائز اٹیک دن کے دوران کسی بھی وقت ہوسکتا ہے۔
صبح بیدار ہونے کے بعد اٹھنے سے عین پہلے کاربوہائیڈ ریٹ سے بھرپور اسنیک جیسے کہ خشک توس یا بسکٹ کھالینے سے اکثر متلی آنے سے بچاؤ میں مدد ملتی ہے۔
عام طور پر تھوڑی تھوڑی مقدار میں کھانے تجویز کیے جاتے ہیں۔ فیڈنگ کا یہی طریقہ کار حمل کے بعد کے حصے کے دوران بھی مددگار ثابت ہوتا ہے جب کہ ایک بڑا کھانا کھانے کے بعد بے اطمینانی محسوس ہوتی ہے جس کی وجہ پیٹ کے خلاء میں جنین کی اوور کراؤڈنگ ہوتی ہے۔
٭ حمل کے پہلی سہ ماہی میں حاملہ عورت اگر مارننگ سکنیس میں مبتلا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اس کے وزن میں کوئی اضافہ نہ ہو۔ حاملہ عورت کا وزن عام طور پر تیسرے مہینے سے بڑھنا شروع ہوتا ہے اور وزن میں زیادہ سے زیادہ اضافہ پانچویں اور ساتویں مہینے کے دوران ہوتا ہے۔ وزن میں مجموعی اضافہ ۱۰ سے ۲۱ کلو گرام تک ہوتا ہے۔
ماں کی کوکھ میں پروش پانے والا بچہ مکمل طور پر ماں دست نگر ہوتا ہے۔ بہ الفاظ دیگر اس کا تمام تر انحصار اسی کی ذات پر ہوتا ہے۔ اگر خاتون اپنا خیال رکھنے میں ناکام رہتی ہے اور غذائی ضروریات کا دھیان نہیں رکھتی تو وہ بچے کو نقصان اور ایذا پہنچا رہی ہے۔ اسی لیے حمل کے دوران خاندان کا سہارا بھی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔
اس کے علاوہ وہ کوئی بھی وٹامن سپلی مینٹس لیتے وقت یاد رکھیں کہ وہ ڈاکٹر کا تجویز کردہ ہو۔ اسی طرح وقفوں وقفوں سے گائنا کو لوجیکل چیک اپ بھی کراتی رہا کریں۔