ماں بننے کے خطرات

ادارہ

ہندوستان کے تناظر میں دیکھیں تو لاکھوں عورتوں کے لیے ماں بننا اور بچوں کو جنم دینا آج کے ترقی یافتہ دور میں بھی بڑے خطرات سے گھرا ہوا ہے۔ یونیسیف کی رپورٹ2009 ’’اسٹیٹ آف دی ورلڈ چلڈرن رپورٹ‘‘ سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق حالتِ حمل اور بچہ کی پیدائش کے دوران بہت سی پریشانیوں کی وجہ سے دنیا میں روزانہ ۱۵۰۰ عورتیںموت کے منھ میں چلی جاتی ہیں۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلہ میں کم ترقی یافتہ ملکوں میں بچے کی پیدائش کے وقت خواتین موت کی شرح کا اندازہ ۳۰۰ گنا زیادہ ہے۔ خواتین کی اموات کی یہ شرح سماج کے کسی بھی شعبہ میں سب سے زیادہ اور تشویشناک تو ہے ہی لیکن اس سے زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اس سمت درکار کوششوں کی رفتار ناقابلِ اعتنا حد تک کم اور غیر اطمینان بخش ہے۔
بچے کی پیدائش کے مختلف مراحل میں خواتین کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ جنوبی ایشیا میں ہے۔ اندازہ یہ ہے کہ صرف ہندوستان میں ہر سال اس طرح ۰۰۰،۱۴۱ عورتوں کی موت ہوجاتی ہے۔ اس کی سب سے اہم وجہ خواتین کے لیے خصوصاً دیہی خواتین کے لیے مطلوب طبی امداد اور رہنمائی کا فقدان ہے۔ سرکاری اداروں کی عدم دستیابی یا خراب کارکردگی ایسا مرض ہے جو بہت سی خواتین کو بنیادی طبی سہولیات کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ دوسری طرف نجی شعبہ میں، مہنگی قیمتوں پر دستیاب طبی سہولیات غریب دیہی عوام خریدنے کی صلاحیت نہیں رکھتے جس کی وجہ سے حاملہ خواتین مختلف امراض کا شکار ہوکر خطرات میں گھر جاتی ہیں۔
غربت اور حاملہ خواتین کی صحیح طریقے سے دیکھ بھال نہ ہوپانے کی وجہ سے ہمارے ملک کی اکثر حاملہ عورتوں میں اینمیا یعنی خون کی کمی ہوجاتی ہے، جو اس مرحلے میں کافی پیچیدگیوں کا سبب بنتی ہے۔ یونیسیف کی یہ رپورٹ بتاتی ہے کہ خواتین کی اموات میں کم عمر کی شادی کے علاوہ غیر محفوظ حمل، پیدائش کے وقت کسی ہنر مند دائی یا نرس کا نہ ہونا، پیدائش کے دوران گندگی کے سبب ہونے والی بیماریوں اور پریشانیوں کے علاوہ پیدائش کے بعد ماں اور بچہ کی ٹھیک سے دیکھ بھال نہ ہوپانا ہے۔ ایک حیرت ناک بات یہ ہے کہ عالمی تجارتی و اقتصادی مندی کے باوجود ہندوستان میں معاشی ترقی کی شرح اعداد و شمار اب بھی اونچی بتار ہے ہیں اور پورے ملک کو یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہندوستان کی اقتصادیات محفوظ ہیں۔ لیکن تعجب ہے کہ اقتصادی ترقی کی جدوجہد کے اس دور میں بھی نہ اَب اور نہ پہلے حکومت وقت نے عوام کو اس بات کا یقین دلانے کی کوشش کی اور نہ کوئی اس سلسلے میں ٹھوس منصوبہ بنایا کہ ملک کی ڈیڑھ لاکھ کے قریب سالانہ مرنے والی خواتین کو زندگی کیسے دی جائے اور اس بات کو کیسے یقینی بنایا جائے کہ اس ملک میں ماں بننے کے مرحلے میں پہنچنے والی ہر خاتون محفوظ ہو اور اسے بنیادی طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔
اس پریشانی کا سبب اور اس کا حل بھی سالوں سے معلوم ہے۔ لیکن ہندوستان میں بڑھتی آبادی کے خوف سے پریشان حکومتوں کا رویہ ایسا رہا ہے کہ اس نے اس سمت میں مناسب کوشش کرنے کے بجائے ایک اور ہی سمت میں کام کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس ملک میں مدتوں سے صحت عامہ اور خاندانی بہبود، کی وزارت قائم ہے لیکن اس وزارت کا زیادہ تر زور خاندانی منصوبہ بندی پر رہا ہے اور اس نے عوام کو یہ باور کرانے کی کوششیں خاطر خواہ کی ہیں کہ لوگ بچے کم پیدا کریں اور خاندان مختصر ہوں۔ لیکن جو بچے پیدا ہورہے ہیں اور جو خواتین ماں بننے کی طرف بڑھ رہی ہیں ان کی صحت کی فکر حکومتی نظام نے کم ہی کی ہے۔ اسی طرح اس وزارت کی کوششیں گزشتہ مردم شماری میں لڑکیوں کی گھٹتی تعداد کو دیکھ کر لڑکیوں کی فلاح و بہبود کے پروگرام بنانے اور اس بات کی کوشش کی کہ لڑکیوں کی پرورش کو خاندانوں کے لیے ایک مفید اور منفعت بخش کام بنایا جائے لیکن حاملہ خواتین کی طبی دیکھ ریکھ اور سہولیات کو لوگوں تک پہنچانے میں وہ ناکام ہی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ حاملہ خواتین کی صحت پر جتنی توجہ دینے کی ضرورت تھی، نہیں دی گئی۔ اس کے علاوہ پیدائش کے دوران حاملہ عورتوں کی مدد کے لیے زیادہ سے زیادہ عورتوں کو ٹریننگ دینے کا کام پچھلے پانچ سال میں نہیں کیاگیا اور اب صورتِ حال یہ ہے کہ حالتِ حمل یا پیدائش کے دوران ہندوستان میں چار میں سے ایک عورت کو کسی بھی طرح کی دیکھ بھال نصیب نہیں ہوتی۔ ایسی عورتوں میں بیماری اور دوسری پریشانیاں پیدا ہونے کے اندیشے کس قدر بڑھ جاتے ہیں اس کا اندازہ لگانا دشوار نہیں۔
یو نیسیف کی یہ رپورٹ صرف حالتِ حمل اور پیدائش کے دوران حصول صحت کی ضرورت پر زور نہیں دیتی بلکہ یہ ان دوسرے پہلوؤں کی طر ف بھی متوجہ کرتی ہے جن سے دوسرے لوگوں کو فائدہ ہوگا۔ مثال کے طور پر صاف پانی اور عام صفائی نہ ہونے کا بھی لوگوں کی صحت پر خاص طور سے حاملہ خواتین کی صحت پر سیدھا اثر پڑتا ہے۔ اگرچہ وہ بچے کی پیدائش کے مرحلوں سے تو زندہ گزر جاتی ہیں لیکن گندگی و بدحالی کی جس کیفیت میں وہ رہتی ہیں اور بچوں کو جنم دیتی ہیں اس سے کسی ایک یا دونوں کے خطرناک بیماری کی زد میں آجانے کے بعد موت کا خطرہ مستقل رہتا ہے۔
یونیسیف کی رپورٹ میں ایسی کوئی نئی اور خاص بات نہیں جس کا حکومتوں اور لوگوں کو پہلے سے علم نہ ہو۔ لیکن اس رپورٹ میں جس چیز کو بڑی اہمیت اور زور کے ساتھ کہا گیا ہے وہ یہ ہے کہ حکومتیں ماں اور نوزائدہ بچہ کی صحت کے لیے مناسب ماحول پیدا کرنے کی طرف توجہ دیں۔
ماں اور نوزائیدہ بچہ کی صحت کے لیے مناسب ماحول پیدا کرنے کی خاطر ضروری ہے کہ عوام اور حکومتیں خواتین کے اس اہم مسئلے کی طرف انسانی نقطۂ نظر سے توجہ دیں اور مرد و عورت کے درمیان بھید بھاؤ پیدا کرنے والی معاشرتی، معاشی، ثقافتی اور سیاسی رکاوٹوں کو دور کرنے کی طرف سنجیدگی سے متوجہ ہوں۔ اس کے لیے کم از کم جو قدم اٹھانے ہوں گے۔ ان میں لڑکیوں کو تعلیم یافتہ بنانے،غربت کو کم کرنے اور کرپشن کے خلاف جنگ انتہائی ضروری کام ہیں۔
مساوات مردو زن کے اس دور میں بھی اس بات کو حادثہ ہی کہا جائے گا کہ عورت کو دنیا بھر میں ووٹ کی سیاست کے لیے محض آلۂ کار کے طور پر ہی استعمال کیا جارہا ہے۔ پسماندہ اور ترقی پذیر ملکوں میں اگرچہ خواتین کے امپاورمنٹ کی بات کو زور شور کے ساتھ اٹھایا جارہا ہے اورقانون ساز اداروں میں ان کے لیے رزرویشن کی بات ہر جگہ ہورہی ہے لیکن ان کی صحت، عزت و وقار، سماج میں عملی طور پر برابری کے درجہ کی فراہمی اور سماج میں ایک باعزت فردکا درجہ دینے کے لیے ٹھوس اور عملی جدوجہد کا ابھی تک فقدان نظر آتا ہے۔ تعلیم و ترقی کے باوجود دنیا بھر میں ابھی تک عورت کو وہ زبان میسر نہیں آسکی ہے جس کااستعمال کرتے ہوئے وہ حقیقت میں اپنے حقوق کی جدوجہد کرسکے اور اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ آج کا سماج عملی طور پر اسے وہ درجہ دینے کے لیے تیار نہیں جس کی وہ بہ حیثیت مرد مستحق ہے اور جو اسے ملنا چاہیے۔ اس میں مرد سماج کی اس سوچ کا بڑا دخل ہے جواسے اپنے زبردست رکھنے ہی میں عافیت تصور کرتا ہے۔
چنانچہ یہ رپورٹ اس بات پر بھی زور دیتی ہے کہ پیدائش کے وقت خواتین کی شرح اموات کو کم کرنا صرف تکنیکی مسئلہ نہیں ہے کہ پیدائش کے وقت مناسب دواؤں کی فراہمی یا دوران حمل ان کی ضروری دیکھ بھال کے ذریعے ہی اس مسئلہ سے نمٹا جاسکتا ہو۔ اس سے آگے بڑھ کر ایسے اقدامات ضروری ہیں۔ جس سے پورے سماج اور حکومتوں کا عورت کے سلسلہ میںبنیادی نظریہ انسانیت پر مبنی بنے، تعلیم اور صحت تک ان کی رسائی میں غریبی رکاوٹ نہ ہو، معاشی اور سیاسی معاملوں میں حصہ داری سے عورتوں کو روکا نہ جائے، معاشرے میں عورتوں کوبرابری کا درجہ دیا جائے اور سماج میں انہیں بنیادی انسانی حقوق میسر آئیں اور عزت ووقار حاصل ہوسکے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146