ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی محبت کو ماں کی محبت سے تشبیہ دی ہے اور فرمایا ہے کہ میں اپنے بندوں سے ماں کی محبت سے بھی ستر گنا زیادہ محبت کرتا ہوں۔ اسی طرح حضور اکرم ﷺ کی حدیث پاک سے ہمیں ماں کے مرتبے کا علم ہوتا ہے کہ ایک آدمی نے حضور اکرم ﷺ سے دریافت کیا کہ’’ اے اللہ کے رسول! میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟‘‘آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تیری ماں۔‘‘ اس نے کہا: ’’پھر کون؟‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تیری ماں۔‘‘اس نے پھر پوچھا: ’’پھر کون؟‘‘ آپ ﷺنے فرمایا: ’’تیری ماں۔‘‘ اس نے کہا : ’’پھر کون؟‘‘ آپﷺ نے فرمایا: ’’تیرا باپ، پھر درجہ بہ درجہ تیرے قریبی لوگ۔‘‘ (بخاری و مسلم)
اس حدیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ماں کا درجہ باپ سے پہلے آیا ہے۔ علماء نے لکھا ہے کہ جہاں تک ادب و تعظیم کا سوال ہے تو باپ زیادہ مستحق ہے اور خدمت کے لحاظ سے ماں کا درجہ بڑھا ہوا ہے۔
ماں جو نو مہینے تک بچے کو اپنے وجود میں پناہ دیتی ہے، ایک ایک سانس میں اسے محسوس کرتی ہے، بچہ پریشان ہو یا بیمار ماں ساری رات جاگ کر گزار دیتی ہے۔
ایک مدت سے میری ماں نہیں سوئی تابشؔ
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
بچے کی چھوٹی چھوٹی پریشانیوں کو محسوس کرکے خود پریشان ہوجاتی ہے۔ ماں اپنا سب کچھ بچے کا مستقبل سنوارنے میں لگا دیتی ہے۔حضرت عائشہؓ کے قولِ مبارک کے مطابق: ’’ایک عورت کی جنت اس کا شوہر ہے اور ایک مرد کی جنت اس کی ماں ہے۔‘‘
ہر بیوی کے لیے اس کے شوہر کی ماں اس کی جنت کی جنت ہے۔ یعنی اس کی خدمت کرکے اس کی خوشیوں کا خیال کرکے اس شوہر کی جنت سنوارے، جس سے وہ محبت کرتی ہے، جس کے ساتھ وہ سکون محسوس کرتی ہے، جس کے وجود سے اسے اپنے وجود کی حفاظت کا احساس ہوتا ہے، وہ شوہر جو اسے دنیا کی ہر خوشی اور آرام دینا چاہتا ہے، اس کے ناز نخرے اٹھاتا ہے، اس کی فرمائشیں پوری کرتا ہے، ہر نئی آنے والی ماں بھی ماں کے اس محبت بھرے کردار کو پہچانتی ہے کیونکہ اس نے بھی تو ماں کی گود میں ہی سکون حاصل کیا تھا۔ ماں نے ہی تو اسے بھی انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا تھا۔
دولہا اور دلہن اپنی خوشیوں، آرام اور اپنی دنیا میں اتنے مگن ہوجاتے ہیں کہ وہ ان ساری پریشانیوں اور خوابوں کو بھول جاتے ہیں، جو ان کی ماں نے دیکھے تھے۔ ان تمام دعاؤں کی جو ان کی ماں نے کی تھیں۔ وہ سایہ جس کی ٹھنڈک نے کبھی زندگی کی تپش کا احساس نہ ہونے دیا تھا۔ اس ماں کو جس نے راستے کے سارے کانٹے اپنی جھولی میں بھر کر اپنے حصے کے پھول بھی اس کے راستے میں بچھا دیے تھے۔ اپنا سب کچھ قربان کرتے دیکھ کر جس ماں سے بچپن میں ہم نے توتلی زبان سے ہزاروں وعدے کیے تھے، کیا وہ ٹھنڈک، وہ دعائیں، وہ وعدے سب سچ مچ ہم بھول چکے ہیں؟
وہ وجود جس نے اسے اپنے خون سے سینچا تھا، جس کو کبھی اس کے لیے تھکن کا احساس بھی نہ ہوا تھا، وہ ہستی اب تھکنے لگتی ہے وہ زبان جو دن رات اس کو دعائیں دیتی تھی، اب لڑکھڑانے لگی ہے وہ ہاتھ جب بھی اللہ تعالیٰ کے سامنے پھیلتے تو اس کے لیے ہی کچھ مانگنے کے لیے اٹھتے تھے ، وہ اب کانپنے لگے ہیں۔ وہ آنکھیں جنھوں نے اس کے لیے سنہرے خواب دیکھے تھے اب تھک کر دھندلانے لگی ہیں، وہ درخت جس نے اسے سایہ دیکھنے کے لیے کبھی، اپنی ساری شاخیں پھیلائی تھیں اب سوکھنے لگا ہے۔ اب اسے خود سہارے اور سائے کی ضرورت ہے۔
لیکن وہ جسے اولاد کہتے ہیں وہ تو اپنے ’’ہمسفر‘‘ کے ساتھ ہے۔ وہ اسے خوش رکھنے، اپنے گھر کو سجانے، سنوارنے اور اس پوری دنیا کو خوش رکھنے کی خواہش لیے بھیڑ میں کہیں کھو گیا ہے اور وہ بیٹا جو جانے انجانے میں سب کچھ بھول گیا ہے یا اسے بھلا دیا گیا ہے، اگر چپکے سے پیچھے مڑ کر دیکھے تو گھر کے تنہا گوشے میں کمزور جسم کے ساتھ دو کانپتے ہاتھ دعا کے لیے اٹھے۔ وہ ہستی اپنی لرزتی زبان سے اولاد کے لیے ہی خوشیوں کی دعا مانگتی نظر آئے گی، اس کی آنکھیں کسی کے انتظار میں بار بار دروازے کی جانب اٹھتی ہوئی دکھائی دیں گی اور اگر وہ غور سے دعا سننے کی کوشش کرے تو دعا کے یہ الفاظ کانوں سے ٹکرائیں گے۔ یا اللہ میرے گھر کی نئی ماں وہ سنہرے خواب دیکھ رہی ہے جو کبھی میں نے دیکھے تھے۔ اس کے وہ خواب پورے کردینا۔ اے مالک! اس نئی ماں کے بچے اپنی ماں سے جو بھی وعدے کریں وہ انہیں یاد رہیں۔ یا اللہ! بڑھاپے میں جب اسے سہارے کی ضرورت ہو تو کوئی نئی ماں اس کے سہارے کو اس سے نہ چھینے اور اس کے بچے اس دنیا میں اس طرح نہ کھوجائیں کہ اپنی جنت کو بھی بھلا دیں یا اللہ جب بھی وہ اسے بھلائیں تو انہیں تو یہ بات یاد دلا دینا کہ ان کی ماں ان کے لیے آج بھی دعائیں کررہی ہے۔ یا اللہ آج جو پودے ہیں، جب یہ سایہ دار درخت بن جائیں وہ اپنی ماں کو نہ بھولیں۔
——