ماں وہ عظیم ہستی ہے جس کے قدموں میں جنت ہے۔ جس کی جانب محبت بھری نگاہ سے دیکھنا حجِ مقبول کے برابر ہے۔ جس کی خوشی میں اللہ کی خوشی اور جس کی ناراضگی میں اللہ کی ناراضگی ہے۔
جس کو سخت الفاظ کہنا تو درکنار اُف کہنا بھی گناہ ہے۔ جس کی دعائیں کبھی رد نہیں جاتیں اور جس
کی بددعا سے دنیا اور آخرت دونوں برباد ہوسکتی ہیں۔ کتنے بدنصیب ہیں وہ لوگ جو ماں کو پاکر بھی اس کی برکتوں سے محروم رہتے ہیں۔ انہیں کیا کہا جائے جو ماں کو چھوڑ کر پیروں اور فقیروں سے دعائیں کرواتے ہیں۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
رفتہ رفتہ میری منزل میری جانب آگئی
چپکے چپکے میرے حق میں کوئی دعائیں کرتا ہے
کسی کے لیے چپکے چپکے دعائیں کرنے والی ہستی ماں کے علاوہ اور کون ہوسکتی ہے اور کس کی دعاؤں میں اتنا اثر ہوسکتا ہے جو اس کو اتنا عظیم بنادیں کہ منزلیں خود ان کو پکاریں اور ان کے قدم چومیں۔
عالیشان گھر، خوبصورت باغیچے، سجے سنورے اور تمام آسائشوں سے پُر کمرے، عہدے و مناصب اور دنیا کی ساری دل فریبیاں اپنی جگہ ہیں لیکن ماں کا پیار اپنی جگہ بے بدل ہے۔ جو راحت ماں کی آغوش میں ہے وہ دیگر آرام گاہوں میں کہاں۔ سب سے بڑا خوش نصیب وہ ہے جس کے پاس ’ماں‘ ہے۔ سب سے بڑا دولت مند وہ ہے جس کے پاس ماں ہے۔ ماں مٹھاس میں ڈوبا ہوا لفظ ہے۔ پھولوں کی خوشبو سے رچا بسا لفظ آبِ زم زم کی طرح پاک اور شبنم کے قطروں سے دھلا ہوا ہے۔
علامہ اقبالؒ نے اپنی ماں کے انتقال پر ایک بہت ہی درد انگیز نظم لکھی تھی:
کس کو ہوگا اب وطن میں آہ میرا انتظار
کون میرا خط نہ آنے سے رہے گا بیقرار
خاکِ مرقد پر تیری فریاد لے کے آؤں گا
اب دعائیں نیم شب میں کس کو یاد آؤں گا
آخر ایک ماں ہی تو ہے جو ہر دم اور ہمیشہ ہماری پکار سننے کو تیار رہتی ہے۔
ماں کی محبت میں جو اخلاص ہے، وہ دوسری جگہ کہاں؟ جو لوگ ماں کا دل دکھاتے ہیں وہ زندگی بھر سکون و چین کو ترستے رہتے ہیں۔ خواہ وہ عالیشان کوٹھیوں میں رہ لیں اور بلند ترین عہدوں پر فائز ہوجائیں۔ مگر ماں کا دل دکھانے کی ٹیس ہمیشہ ان کے دل کو تڑپاتی رہتی ہے۔ اور یہ بہت بڑی بدنصیبی ہے۔
——