ماں کا فرض

عبدالغفار صدیقی

کیا آج آپ نے اپنے بچے کو کوئی آیت یاد کرائی؟کیا اسے کوئی دعا سکھائی؟ کیا کسی نیک انسان کی کہانی سنائی؟کیا اس کی کسی غلطی کی اصلاح کی؟ نہیں ! ان میں سے تو کچھ نہ کرسکی۔
اور
کیا اسکول سے واپسی کے بعد ہوم ورک کرنے میں اس کی مدد کی؟ کیا آج کا سبق سنا آپ نے؟کیا کل کے لیے کوئی تیاری کرائی؟ نہیں! یہ بھی نہیں۔
اگر ایسا ہے تو آپ نے نہ تو اس کی تعلیم کی کوئی فکر کی ہے اور نہ ہی اس کی تربیت کے لیے آپ کے اندر کوئی آمادگی نظر آتی ہے پھر بھی آپ یہ شکایت کرتی ہیں کہ:
میرا بچہ پڑھنے میں کمزور ہے۔ اس کا ہینڈ رائٹنگ خراب ہے۔ نہ وہ نماز پڑھتاہے نہ قرآن۔ بڑا بے سلیقہ اور بد تمیز ہے وہ۔
ذرا سوچئے آپ ’’ماں‘‘ ہیں۔ اپنے بچہ کی پہلی درسگاہ۔ وہ یہیں زندگی کا شعور حاصل کرتا ہے اور یہیں آداب و سلوک سیکھتا ہے۔ اور آپ کا حال یہ ہے کہ اپنے فرائض ادا نہیں کررہی ہیں۔ آپ ماں ہونے کے باوجود اپنے بچہ کا خیال نہیں رکھتیں۔ پھر کیا ہوگا؟ وہی ہوگا جو عام بچوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ گلی میں گھومنے والے بچوں کی طرح۔ آپ اس کی ذمہ داری اسکول پر نہیں ڈال سکتیں۔ کیونکہ اس کی ٹیچر ماں نہیں۔ وہ آپ سے زیادہ خیال کیسے رکھ سکتی ہیں اور پھر چوبیس گھنٹے میں آپ کا بچہ اسکول میں چار پانچ گھنٹہ ہی تو رہتا ہے۔ ہفتہ میں چھ دن اور اوپر سے چھٹیاں سال کے ۳۶۵ دنوں میں صرف ۲۰۰ دن ہی اسکول میں تعلیم ہوتی ہے۔ آپ کے پاس آپ کا بچہ زیادہ رہتا ہے۔ اور پھر آپ ’’ماں‘‘ ہیں۔ ماں ہونے کی حیثیت سے اپنے فرائض ادا کیجیے۔ اس کی شخصیت کی تعمیر کی فکر کیجیے۔ آپ کا بچہ سب سے بڑی دولت ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کی غفلت اس سرمایہ کو برباد کردے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں