میری ماں کی ایک ہی آنکھ تھی۔ مجھے اپنی ماں کی ایک آنکھ کے سبب کئی دفعہ شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ میری ماں کو میرے ساتھ دیکھ کر جب کوئی پوچھ لیتا کہ یہ تیری ماں ہے؟… تو مجھے اس قدر شرمندگی ہوتی کہ میں اسے الفاظ میں بیان نہیں کرسکتا۔
میری ماں گھر کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ایک پرائمری اسکول میں باورچی کا کام کیا کرتی تھی۔ اتفاق سے میں بھی اسی پرائمری اسکول میں پڑھ رہا تھا۔ ایک دن میری ماں دورانِ تعلیم میرے کلاس روم میں آئی تاکہ وہ میرے بارے میں معلومات حاصل کرسکے کہ میں پڑھنے لکھنے میں دلچسپی لیتا ہوں یا میری ساری توجہ کھیل کود میں ہے۔ انہوں نے میری پڑھائی لکھائی کے بارے میں میرے اساتذہ سے پوچھا۔ مجھے اپنی ماں کو کلام روس میں دیکھ کر بڑی شرمندگی کا احساس ہو رہا تھا۔ میں اندر ہی اندر اپنی ماں کو کوس رہا تھا۔
دوسرے دن میں اسکول آیا۔ کلاس روم میں بیٹھا ہی تھا کہ میرا ایک کلاس فیلو میرے پاس آیا اور کہنے لگا: کل جو باورچن آئی تھی، جس کی ایک ہی آنکھ تھی، کیا وہی تیری ماں ہے؟ اوہ!… میں نے جب اپنے کلاس فیلو سے یہ بات سنی تو شرم کے مارے پانی پانی ہوگیا۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ آج کا دن دیکھنے سے پہلے ہی میں مر چکا ہوتا، نہ یہ ذلت برداشت کرنی پڑتی۔ اور سچ مچ دوسرے دن میں میں نے اپنی والدہ سے کہا: تم نے مجھے دوستوں کے سامنے ایک تماشا بنا ڈالا ہے، تم مرکیوں نہیں جاتیں تاکہ میں اس عار سے نجات پا جاؤں۔ ایک آنکھ والی ماں سے بہتر تھا کہ میری کوئی ماں ہی نہ ہوتی۔
میں نے اپنی ماں کے سامنے بہت کچھ اول فول بکا، مگر اس نے میری کسی بات کا جواب نہیں دیا۔ چپ چاپ کھڑی رہی۔ پھر میرے پاس سے اٹھ کر چلی گئی۔ مجھے اپنی سخت کلامی پر کوئی افسوس نہیں تھا۔ کیوں کہ فی الواقع میں اپنی ماں کی وجہ سے ایک قسم کی گھٹن محسوس کرتا تھا۔ مجھے اس کے جذبات کی کوئی پروا نہیں تھی۔ بلکہ میں نے اندر ہی اندر پلان بنا لیا تھا کہ میں پڑھ لکھ کر جب بڑا آدمی بن جاؤں گا تو اپنی ماں سے کہیں دور جاکر رہنے لگوں گا تاکہ مجھے کسی شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
میری ماں مسلسل میرے بارے میں فکر مند رہتی۔ وہ میری پڑھائی لکھائی پر دھیان دیا کرتی تھی مگر میں اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا تھا۔ میں نے محنت سے تعلیم حاصل کی۔ میرا داخلہ سنگاپور کی ایک یونیورسٹی میں ہوگیا۔ ایک دن آیا کہ میں سنگا پور پہنچ کر یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہا تھا۔ اعلیٰ ڈگری لے کر جب وطن پہنچا تو مجھے معقول ملازمت مل گئی۔ میں نے شادی کی اور اپنے لیے ایک الگ عالی شان مکان خرید کر اس میں رہنے لگا۔ میں اپنی زندگی سے بڑا مطمئن اور خوش تھا۔ مجھے اس دوران اپنی ماں کی یاد بھی نہیں آئی، نہ اس سے ملنے کی مجھے کبھی خواہش ہوئی بلکہ میں نے اسے ملنے کے لیے بلایا بھی نہیں۔ میں کئی بچوں کا باپ بن چکا تھا۔ انہیں یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ ان کی کوئی دادی بھی ہے۔
میری والدہ نے بھی مجھ سے ملنے کی کوشش نہیں کی۔ شاید اسے میری اداؤں سے محسوس ہوچکا تھا کہ میں اندر ہی اندر اس سے نفرت کرتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ میری بیوی اور بچے اسے دیکھنے پائیں۔ آخر وہ ماں تھی، کب تک بیٹے کی جدائی برداشت کرتی۔ ایک دن وہ میرے گھر کا پتہ پوچھ کر میرے پاس آہی گئی۔ ابھی وہ دروازے ہی پر تھی کہ میرے بچے گھر سے باہر نکلے اور اس کی ایک آنکھ دیکھ کر ہنسنے لگے۔
میں نے گھر سے نکلتے ہی اپنی ماں کو ڈانٹنا شروع کر دیا۔ میں نے اس سے یہاں تک کہہ دیا کہ آخر تم نے میرے گھر آنے کی جرأت کیسے کی۔ کیا اس لیے آئی ہو کہ میرے بچوں کو اپنے ڈراؤنے چہرے سے خوف زدہ کردو۔ تم ابھی یہاں سے چلی جاؤ۔ اس نے بڑے پرسکون لہجے میں جواب دیا: معاف کرنا، شاید میں راستہ بھول گئی، پھر وہ واپس چلی گئی۔
ایک دن مجھے اسی پرائمری اسکول کی جانب سے افرادِ خانہ کے ساتھ میٹنگ کی دعوت ملی، جس میں میری ماں باورچی کا کام کرتی تھی۔ میری ابتدائی تعلیم اسی اسکول میں ہوئی تھی۔ میں نے بیوی سے بہانہ بنا دیا کہ میں ایک میٹنگ میں جا رہا ہوں۔ مین اسکول پہنچا اور میٹنگ ختم ہونے کے بعد اپنے پرانے گھر کی طرف چلا۔ میں بے ارادہ یونہی اپنے گھر جا رہا تھا۔ والدہ کی زیارت مقصود نہ تھی۔ گھر پہنچ کر پڑوسیوں سے معلوم ہوا کہ میری ماں کا انتقال ہوچکا ہے۔ مجھے یہ خبر سن کر کوئی صدمہ نہیں ہوا۔ میری آنکھوں نے ایک آنسو بھی نہیں ٹپکایا۔ پڑوسیوں نے مجھے ایک خط دیا اور بتلایا کہ تمہاری ماں مرتے وقت یہ خط دے گئی تھی۔
میں نے خط کھولا تو اس میں لکھا تھا:
’’بیٹا! میں نے کئی دفعہ تم سے ملنے کی خواہش کی۔ میری بہت تمنا تھی کہ تم پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بن جاؤ اور دنیا جہاں میں تمہارا نام روشن ہو۔ تم پڑھ لکھ کر بڑے بھی بن گئے۔ اس روز مجھے بہت افسوس ہوا جب میں تمہارے گھر بِن بلائے چلی گئی اور تمہارے لاڈلے بچے مجھ سے ڈر گئے۔ بعد ازاں میں اپنے آپ کو کوس رہی تھی کہ آخر میں تمہارے گھر کیوں گئی۔ اور ہاں، مجھے جب خبر ملی کہ تم اسکول کی میٹنگ میں افرادِ خانہ کے ساتھ شرکت کرنے والے ہو تو مجھے بہت خوشی ہوئی۔ میں تمہیں دیکھنا چاہتی تھی۔ لیکن میرے دل میں فوراً یہ بات آئی کہ مجھے اسکول نہیں جانا چاہیے۔ ویسے بھی تم پہلے کئی دفعہ میری وجہ سے سبکی محسوس کرچکے ہو۔ یوں بھی میں بستر سے اٹھنا بھی چاہتی تو نہیں اٹھ سکتی تھی۔ اور ہاں آج میں تمہیں یہ بات بھی بتلائے دیتی ہوں جسے میں نے تم سے اب تک چھپائے رکھا کہ بچپن میں تمہارا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا جس کے سبب تمہاری ایک آنکھ ضائع ہوگئی تھی۔ مجھے تمہارے بارے میں اور تمہاری آنکھ کے بارے میں بے حد صدمہ تھا۔ مجھ میں اتنی سکت بھی نہیں تھی کہ میں تمہارے لیے آنکھ خرید سکتی۔ چناں چہ میں نے ڈاکٹروں سے کہہ کر اپنی ایک آنکھ تمہیں دے دی تاکہ جب تم بڑے ہوجاؤ تو تمہیں آنکھ کی کمی محسوس نہ ہونے پائے۔ تمہارا آپریشن کامیاب ہوگیا اور میری آنکھ تمہارے کام آگئی تو میں بے حد خوش ہوئی۔ مجھے فخر محسوس ہو رہا تھا کہ چلو میری ایک آنکھ نہیں رہی تو کیا ہوا، میرا بیٹا تو میری آنکھ سے دنیا دیکھنے کے قابل ہوگیا ہے۔‘‘lll