جب اس نے کھانے سے بھری ٹرے کو سامنے پایا، تو موچی کی آنکھوں میں آنسوآ گئے۔ سلیقے سے سجی ٹرے میں گرم گرم روٹیاں تھیں۔ سالن، اچار، سلاد اور پانی بھی تھا۔ اسے سمجھ نہیں آیا کہ اِس خود غرضی کے دور میں کس نے یہ بے غرضی کر ڈالی۔
اس نے ممنونیت سے ٹرے تھام لی۔ اسے شدید بھوک لگی تھی‘ لیکن وہ ایک ہی وقت کا کھانا کھا پاتا تھا۔ ایک موچی کی بھلا کیاآمدنی ہو سکتی ہے؟ بہرحال برسوں بعد اس نے ایسا لذیذ کھایا اور پانی پی کرسستانے لگا۔ ’’ٹرے واپس کر دیں۔‘‘ ایک بارہ تیرہ سال کے لڑکے نے آکر کہا۔
موچی نے آہستہ سے کہا ’’میم صاحب کو شکریہ بولنا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔‘‘ لڑکے نے بے پروائی سے جواب دیا۔
موچی اپنے کام میں لگ گیا۔ کبھی اس کے پاس کام ہوتا تھا اور کبھی نہیں۔ وہ اپنا مستقل ٹھکانا بھی نہیں بنا پایا تھا۔کل ہو سکتا ہے کہ دانہ پانی کہیں اور لکھا ہو۔
٭٭
’’یہ کھانا لے لیں۔‘‘آواز سنتے ہی موچی نے حیرت سے سر اٹھا کر لڑکے کو دیکھا۔ وہ امید نہیں کر رہا تھا کہ آج بھی اسے گھر کی روٹی نصیب ہو گی اور وہ بھی اتنے اہتمام کے ساتھ۔ اس کے ذہن میں چند سوالات نے سر اٹھایا۔ لیکن بھوک کی شدت کے سامنے وہ سوالات دھواں بن کر غائب ہو گئے۔آج بھی کھانا اچھا تھا اور تازہ بھی۔ اس نے سیرہو کر کھایا۔ جب لڑکا برتن اٹھانے آیا، تو اس نے میم صاحب کو سلام بولا۔
اب تو یہ روز کا معمول بن گیا۔ سہ پہر ہوتے ہی لڑکا اس کے لیے کھانا لے آتا۔ اسے امید نہ تھی کہ یہ سلسلہ چل پڑے گا۔ وہ لڑکے سے پوچھنا چاہتا تھا کہ وہ کون ہے جو اسے کھانا بھیجتی تھی؟ اور اس کا مقصد کیا ہے۔ لیکن زبان کی رکاوٹ حائل تھی… وہ ان کی زبان بول نہیں سکتا تھا۔
وہ چند ماہ پہلے ہی اپنے قبائلی علاقے سے شہر روزگار کی تلاش میںآیا تھا۔ وہ سڑک کنارے ایک چھپر تلے جوتے سینے کا کام کرتا تھا۔ پچھلے کچھ عرصے سے اس کے علاقے میں حالات بہت مخدوش ہو گئے تھے۔ افلاس نے لوگوں کی زندگیوں کو تلخ ترین بنا دیا تھا۔ چناںچہ اس کے پاس ہجرت کے سوا کوئی چارہ نہ رہا۔ وہ غریب الدیار تھا اور غریب الذبان بھی! وہ ایک پائپ میں رہتا اور انسانیت کے درجے سے بھی نیچے کی زندگی بسر کرنے پر مجبور تھا۔
آج کھاناآیا، تو وہ فارغ بیٹھا تھا۔ کام بالکل نہ تھا۔ اس نے صبح سے کچھ کھایا بھی نہیں تھا۔ البتہ تسلی تھی کہ اس کے لیے من و سلویٰ اترے گا ضرور! کھانے کی ٹرے تھامنے کے بعدآج اس نے پہلی بار نظریں اٹھا کر سڑک کے پار واقع گھر کی جانب غور سے دیکھا۔ ایک خاتون جو کام والی چادر میں لپٹی تھی اور اس نے چہرہ ڈھانپا ہوا تھا، اسی کی جانب دیکھ رہی تھی۔
موچی نے ممنونیت سے میم صاحب کو دیکھا اور ہاتھ اٹھا کر ماتھے پر رکھ لیا۔ میم صاحب اس کا سلام دیکھ کر سرعت سے اندر چلی گئی۔ لڑکے نے واپسی پر ٹرے اٹھاتے ہوئے اسے ایک لفافہ دیا اور کہا ’’امی نے کہا ہے، رات کو کھا لینا۔‘‘ موچی کا دل بھرآیا۔ میم صاحب دیالو ہی نہیں بلکہ انتریامی بھی تھی۔ اسے کیسے معلوم ہوا کہ آج کل اس کے پاس کام نہ ہونے کے برابر ہے؟ اس کا دل چاہا کہ وہ اسے ماں کہہ کر بلائے، لیکن وہ ماں کی محبت سے بھی صحیح معنوںمیںآشنا نہ تھا۔
اس کی ماں کے ساتبچے تھے اور وہ بھی ۵۳سال کی عمر میں۔ جس عورت نے کبھی اچھا نہیں کھایا اور نہ کبھی اچھا پہنا۔ وہ بھلا اتنے بڑے کنبے میںاپنی محبت کیسے تقسیم کر سکتی تھی؟ محبت سے محرومی تو نسل در نسل چلی آ رہی تھی۔ اس کی ماں کے ۱۸بہن بھائی تھے۔ اگرچہ ۱۰بچپن میں فوت ہو گئے۔ لڑکی ہونے کے ناتے اسے کبھی محبت کا حقدار سمجھا ہی نہیں گیا۔ پھر لگاتار بچوں کی پیدائش نے اسے مستقل روگی بنا دیا۔
ماں کی زندگی محض جبری مشقت تھی۔ ان کے علاقے میں خوشیاں ویسے بھی نایاب تھیں۔ البتہ سردی اور اندھیرے کی نعمت بے بہا ہے۔ بہرحال اس کی ماں بچوں کو کسی نہ کسی طور پالتی رہی، لیکن انھیں مادرانہ محبت نہ دے سکی۔ اسی لیے موچی کو معلوم نہ تھا کہ کیا میم صاحب کی مہربانی ماں کی آغوش جیسی نرم گرم ہے؟ بہرحال اس کے لیے تو میم صاحب کا احسان مادرانہ محبت سے بھی بڑھ کر تھا کیونکہ ماں کبھی اسے پیٹ بھر کر کھانا نہیں کھلا سکی تھی۔
٭٭
آج بہت رونق تھی۔ میم صاحب کے گھر مہمان آ جا رہے تھے۔ موچی کبھی کبھی نگاہ اٹھا کر ادھر دیکھ لیتا۔ مگر اسے ان سے کیا لینا دینا؟ اس کی چھوٹی سی دنیا تھی۔ وہ کبھی اسکول نہیں گیا تھا۔ نماز پڑھنا بھی بہ مشکل سیکھ سکا۔ اس کی مختصر دنیا نے ذہن کو کھلنے ہی نہیں دیا۔ افلاس نے ذہن کو روٹی سے آگے سوچنے سے مفلوج کر دیا تھا۔
وہ بہت سارے معاملات پہ تدبر کرنے کی صلاحیت سے پیدائشی و خاندانی طور پر معذور تھا۔ وہ صرف اگلی روٹی کے متعلق سوچ سکتا تھا۔ اسی لیے اسے اپنی کم مائیگی کا زیادہ احساس نہیں تھا۔ یہ نعمت تھی کیونکہ سوچ کا دروازہ وا ہوتے ہی دکھوںکی پھوار اس کی کمزور ہستی کو بھگو دیتی۔ اس کے لیے نہ سوچنے کا عمل ہی زندہ رہنے کا محرک تھا ورنہ آگاہی کی شدت شاید اْسے مار ڈالتی۔
البتہ اسے یہ احساس ضرور ہوا کہ میم صاحب اسے مہمانوں کے جھمیلے میں بھی نہیں بھولیں۔آج تو ٹرے قسم قسم کے لوازمات سے پْر تھی۔ اس نے ایسے کھانے خان کی شادی پر بھی نہیں کھائے تھے۔ علاقے کے رئیس نے بھی اپنی شادی پر بریانی، گوشت کا سالن اور روٹیاں بنوائی تھیں۔ اب تو وہ ہر روز اتنا سیر ہو کر کھاتا تھا جتنا خان کی شادی پر کھایا تھا اور بدلے میں دو دن تک شادی کے انتظامات بیگار کے طور پر نبھائے تھے۔آج پھر موچی کے دل سے میم صاحب کے لیے دعائیں نکلیں۔لڑکا ٹرے اٹھانے آیا، تو اس نے پوچھا ’’تم نے کیا کھایا؟‘‘
لڑکے نے جواب دیا ’’جو تم نے کھایا۔‘‘
وہ لڑکے کو اکثر اندر باہر جاتے دیکھتا تھا، لیکن احساس کہتری کے باعث کبھی نہیں پوچھ سکا کہ وہ کون ہے۔ البتہ روزانہ یہ پوچھ لیتا ’’تم نے کیا کھایا؟‘‘
لڑکا ایک ہی جواب دیتا ’’جو تم نے کھایا۔‘‘
کئی دن گزر گئے۔ موچی کا من و سلویٰ قوم یہود کی طرح لازم تھا۔ وہ پردیس میں دکھی توہوتا، لیکن پیٹ کا بھرنا اسے بہت زیادہ غمگین نہ ہونے دیتا۔ اسے میم صاحب سے عقیدت ہو گئی جو کسی لالچ کے بغیر اس کے لیے غیبی امداد کا کردار ادا کررہی تھیں۔
٭٭
گھر کے سامنے آج بہت رونق تھی۔ کئی گاڑیاں اس گھر کے سامنے سے آجا رہی تھیں۔ موچی آج دس دن بعد کام پر واپس آیا۔ وہ گائوں چلا گیا تھا۔ اسے جانا ہی پڑا، اس کی ماں کا انتقال ہو گیا تھا۔ وہ پْرملال تو تھا، لیکن بہرحال ماں سے وابستگی روایتی تھی۔ اس بے چاری کے پاس بیٹے کے لیے وقت ہوتا ہی نہیں تھا۔ بچپن ہی میں وہ کھیتوںمیں کام کرنے لگا تھا۔ ادھر ماں کو گھر کے کئی کام کرنے ہوتے تھے۔
وہ چپ چاپ رونق دیکھتا اور کھانے کا انتظار کرتا رہا۔ اس کی اشتہا بہت بڑی ہوئی تھی۔ ماں کے انتقال پر بھی اسے پیٹ بھر کھانا نہ مل سکا تھا۔ میم صاحب تو روز طرح طرح کے کھانے بھیجتیں… کباب، چٹنی، گوشت کا سالن، بگھار لگی دال، تری میں تیرتی سبزی، زردہ، پلائو، روٹی، کھیر ہر روز الگ سالن۔ لگتا تھا کہ آج تو بہت اچھا سالن ملنے والا ہے۔ دعوت جو تھی۔ تھوڑی دیر میں شامیانوں میں دیگیں کھڑکھنے لگیں۔ برتن بولنے لگے۔ وہ سوچنے لگا کہ میم صاحب تو کھانا لگنے سے پہلے ہی ٹرے بھجوا دیا کرتی تھیں۔آج کیا ہوا؟ وہ دیر تک کھانے کا انتظار کرتا رہا، بہت دیر تک!!
دھیرے دھیرے گاڑیاں رخصت ہونے لگیں۔ یہاںتک کہ شامیانے اتر گئے اور دیگیں چلی گئیں۔ وہ سڑک کے پار اس خوبصورت سفید بنگلے کو دیکھتا رہا جو زیادہ بڑا تو نہیں‘ لیکن اجلا ضرور تھا۔ کمروں میں جلتی بتیاں نظرآ رہی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد شام اترنے لگی۔ بھوک سے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے۔ وہ مایوس ہو کر اٹھنے لگا! پہلی دفعہ اس در سے نامراد ہوا تھا۔
اچانک وہی لڑکا بازار کی جانب جاتا دکھائی دیا۔ اس کے ہاتھوں میں ٹرے نہ تھی۔ چہرہ ستا ہوا تھا۔ موچی نے اس کی جانب سوالیہ نظروں سے دیکھا، تو وہ گڑبڑا گیا۔ اس نے موچی کو حزن بھری نظروں سے دیکھا اور کہا ’’امی پرسوں اچانک گزر گئیں۔‘‘
موچی کو سمجھ نہیںآیا۔ اس نے کہا ’’کیا بولا تم نے؟‘‘
وہ لڑکا روتے ہوئے بولا ’’میری ماں مر گئی۔‘‘
موچی کا سر جھک گیا۔ اس کے دل پر بوند بوند غم کی بارش ہونے لگی اورآنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ اسے احساس ہوا کہ اس کا رشتہ انجانی عورت کی ممتا سے بھوک کے ناتے جڑ گیا تھا۔ موچی کو تکلیف کا شدید احساس ہوا اور اسے لگا،آج پھر اس کی ماں مر گئی۔