مجھے ہمیشہ اپنی امی سے یہ شکایت رہی کہ وہ مجھ سے زیادہ بھائی سے پیار کرتی ہیں۔ امی کے ساتھ سونے کی بات آتی تو دونوں کی ضد میں جیت بھائی کی ہوتی کھاناکھلانے کی باری آتی تو پھر سے وہی ضد اور جیت پھر بھائی کی ہوتی ،تب میںناراض ہوتی تو اماںکہتیں، بیٹیاں ضد کرتی نہیںبات مانتی اچھی لگتی ہیں۔
اماں آپ صحیح کہتی تھیںبس کچھ بھی تو نہیں بدلا آپ کیجانے کے بعدکچھ بھی نہیں…!!
سانس ویسے ہی چلتی ہے کھانا ،پینا ویسا ہے اور تو اور ہنسنا ،بولنا بھی ویسا ہی ہے۔امّاںنے کبھی اپنے حق میں کچھ نہیں بولا، جب میں ان سے کہتی، جواب کیوں نہیں دیتیں آپ لوگوں کو،تووہ بہت تحمل سے کہتیں’’جاہلوں کی باتوں کا بہترین جواب خاموشی ہے‘‘تب بس یہ سوچتی کہ ’’خاموشی میں جواب کہاں ہوتا ہے‘‘اماّںپہلے آپ مجھے پانی ،کھانا دیتیں تھیں، اب میں خود بناتی ہوں،اب آپ کی بیٹی کے ہاتھ بھی خراب نہیں ہوتے،اب سردی میں کپڑے دھو کے نکلنے پر کوئی میرے لیے چائے بنا کے نہیں رکھتا ،کوئی مجھے زبردستی انڈاا ْبال کر نہیں کھلاتا، کوئی نہیں کہتا ’’ٹھنڈ ہے، سن لے ماں کی بات، کھالے ،ورنہ بیمار پڑ جائے گی‘‘ ’’کوئی دودھ کا گلاس میرے پیچھے لیے لیے نہیں پھرتا ،کوئی نہیں کہتا ایسے دودھ نہیں پینا تواس میں کچھ شربت وغیرہ ڈال کے دیدیتی ہوں۔ایک دن میں نے پوچھا کیاہوا ؟تو کہتیں ’’شکر ادا کرہی ہوں رب کا ‘‘کہ بیٹی دی نہ ہوتی تو کون سنبھالتا مجھے‘‘ اْس وقت مجھے لگا، میری ساری بچپن کی شکایتیںختم ہوگئیں ،اماں کو محبت تھی مجھ سے ،یہ محبت ہی تو تھی کہ، رات کو بھائی کیساتھ سوتیں، صبح میرے پاس سے اْٹھتیں۔بھائی کو پہلے کھانا کھلانے کے بعد وہ پلیٹ اْٹھائے میرے پیچھے پھر تیں،نخرے اْٹھاتیں اور پھر ایک دن اماںدنیاسے چلی گئیں ،ہمیشہ کے لیے….
امّاںکوسب سے زیادہ میری فکر تھی، کہتیں ’’تجھے تو نچلا بیٹھنا نہیں آتا،پتہ نہیں کیسے چلے گی لوگوں کے ساتھ ‘‘ وہ صحیح کہتی تھیں، پر اب وہ پارہ ختم۔اب میں ہر کسی کی سن لیتی ہوں،نچلا بیٹھنا سیکھ لیا ہے،میں اب لوگوں کو جواب نہیں دیتی۔سمجھ گئی ہوںکہ، خاموشی بہترین جواب ہے۔آپ کے جانے کے بعد کوئی تبدیلی نہیں آئی مجھ میں ،میں جیسے پہلے ہنستی تھی اب بھی ویسے ہی ہنستی ہوں بس اتنا ہوا ہے۔پہلے میں ہنستی تھی، کیوں کہ میں خوش تھی۔اس وقت میں سوچتی تھی ،کبھی اچھی بیٹی نہیں بنوں گی،بات نہیں مانوں گی،بہت ضد اور بدتمیزی کروں گی ایسا ہی ہوا۔ میں وقت کے ساتھ بہت خود سر،ضدی اور ڈھیٹ ہوگئی ،کسی کی نہیں سنتی تھی، اماں میرے لیے بہت پریشان ہوتیں اور کہتیں:
’’اس لڑکی میں پارہ بھرا ہے، نچلا بیٹھنا اسے آتا ہے ہی نہیں، پتا نہیں زندگی میں کیسے چلے گی۔‘‘
پہلے میں روتی تھی تو آپ مجھے اپنی گود میں لے لیتی تھیں اب میں روتی ہوں تو تکیہ میں منہ چھپالیتی ہوں۔ پہلے جب اسکول سے گھر آتی تھی، آپ مجھے دروازے پہ ملتی تھیں،اب دروازہ بند ملتا ہے۔
آپ کوپتہ ہے ناں مجھے کتنا برا لگتا تھا کوئی مجھ پہ ترس کھائے۔ مجھے اب بھی برا لگتا ہے، اسی لیے کسی کے سامنے نہیں روتی،کسی کی فضول باتوں کاجواب بھی نہیں دیتی۔ آپ نے کہا تھا ’’جاہلوں کی باتوں کا بہترین جواب خاموشی ہے۔‘‘وہ ایسی ہی تھیں کبھی کسی سے شکایت نہیں کی ہر تکلیف خاموشی اور صبر سے برداشت کی اور پھر وہ بیمار ہوگئیں ،معلوم ہوا انھیں کینسر ہے وہ بھی آخری اسٹیج پر۔
اماں بہت کمزور ہوگئیں، ان کوکھلانا،پلانا،پٹی کرنا، کپڑے بدلنا سب کام میںکرتی تھی۔ جب ایک دن کام سے فارغ ہوئی تو ان کو دیکھا ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔
وہ گھر میں لڑکیوں کو قرآن پاک پڑھاتی تھیں میں ان سے کہتی آپ کیوں پڑھاتی ہیں ؟یہ لوگ اپنی اماں سے کیوں نہیں پڑ ھتیں؟تو کہتیں ’’میں ان کو پڑھاتی ہوں یہ میرے لیے صدقہ جاریہ بن جائیں گی‘‘
امّاں،تمہارے جانے کے بعد میں تنہا رہ گئی ہوں، بالکل تنہا۔
کیا کروں؟