ماں

انیس الرحمن انیسؔ

کون ہے وہ جو تمہیں لوریاں سناتی ہے

کون ہے وہ جو تمہیں دودھ بھی پلاتی ہے

کون ہے وہ جو تمہیں نیند سے جگاتی ہے

کون ہے وہ جو تمہیں سینے سے لگاتی ہے

ہاں وہی ہستی ہے جو ماں میری کہلاتی ہے

اور شفقت سے کبھی سر میرا سہلاتی ہے

کون ہے وہ جو تمہیں دھوپ سے بچاتی ہے

تربیت کرتی گناہوں سے بھی بچاتی ہے

کون ہے وہ جو تمہیں سائے میں سلاتی ہے

شرارتوں پے کبھی آنکھ بھی دکھاتی ہے

ہاں وہی ہستی ہے جو ماں میری کہلاتی ہے

اور شفقت سے کبھی سر میرا سہلاتی ہے

جب سزا دیتی ہے وہ خود بھی تو پچھتاتی ہے

جو سدا پیار کے نغمے تمہیں سناتی ہے

لوریاں دیتی ہے اور دیکھ کے مسکاتی ہے

اور محبت میں ہر اک درد سہے جاتی ہے

ہاں وہی ہستی ہے جو ماں میری کہلاتی ہے

اور شفقت سے کبھی سر میرا سہلاتی ہے

خود نہیں کھاتی ہے وہ پر تمہیں کھلاتی ہے

جاگتی خود ہے تمہیں چین سے سلاتی ہے

خود سکڑتی ہے، تمہیں ٹھنڈ سے بچاتی ہے

پالنے میں کبھی بانہوں میں پھر جھلاتی ہے

ہاں وہی ہستی ہے جو ماں میری کہلاتی ہے

اور شفقت سے کبھی سر میرا سہلاتی ہے

آج بھی تو مرے خوابوں میں چلی آتی ہے

ماں مجھے آج تیری یاد بہت آتی ہے

پیار کے بدلے دعائیں مری لے جاتی ہے

ہاں مجھے آج تیری یاد بہت آتی ہے

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں