کچھ عرصہ پہلے تک مجھے اس راز کا پتہ ہی نہ چل سکا کہ ماں کو میرے آنے کی خبر کیسے ہوجاتی ہے۔ میں اسکول سے آتا تو دستک دینے سے پہلے دروازہ کھل جاتا۔ کالج سے آتا تو دروازے کے قریب پہنچتے ہی ماں کا خوشی سے دمکتا چہرہ نظر آجاتا۔ وہ پیار بھری مسکراہٹ سے میرا استقبال کرتی، دعائیں دیتی اور پھر میں صحن میں اینٹوں سے بنے چولھے کے قریب بیٹھ جاتا۔ ماں گرما گرم روٹی بناتی اور میں مزے سے کھاتا۔ جب میرا پسندیدہ کھانا پکا ہوتا تو ماں کہتی چلو مقابلہ کریں۔ یہ مقابلہ بہت دلچسپ ہوتا تھا۔ ماں روٹی چنگیری میں رکھتی اور کہتی اب دیکھتے ہیں کہ پہلے میں دوسری روٹی پکاتی ہوں یا تم اسے ختم کرتے ہو۔ ماں کچھ اس طرح روٹی پکاتی، ادھر آخری نوالہ میرے منہ میں جاتا اور ادھر تازہ تازہ اور گرما گرم روٹی توے سے اتر کر میری پلیٹ میں آجاتی۔ یوں میں تین چار روٹیاں کھا جاتا لیکن مجھے کبھی سمجھ نہ آئی کہ فتح کس کی ہوئی۔
ہمارے گھر کے کچھ اصول تھے۔ سب ان پر عمل کرتے تھے۔ ہمیں سورج غروب ہونے کے بعد گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی۔ لیکن تعلیم مکمل کرنے کے بعد مجھے ایک اخبار میں ملازمت ایسی ملی کہ میں رات گئے گھر آتا تھا۔ ماں کا مگر وہی معمول رہا۔ میں فجر کے وقت بھی اگر گھر آیا تو دروازہ خود کھولنے کی ضرورت کبھی نہ پڑی۔ لیٹ ہوجانے پر کوشش ہوتی تھی کہ میں خاموشی سے دروازہ کھول لوں گا تاکہ ماں کی نیند خراب نہ ہو لیکن میں ادھر چابی جیب سے نکالتا، ادھر دروازہ کھل جاتا۔ میں ماں سے پوچھتا تھا… آپ کو کیسے پتہ چل جاتا ہے کہ میں آگیا ہوں؟
وہ ہنس کے کہتی ’’مجھے تیرے خوشبو آجاتی ہے بیٹا!‘‘
پھر ایک دن ماں دنیا سے چلی گئی!
ماں کی وفات کے بعد ایک دفعہ میں گھر لیٹ پہنچا، بہت دیر تک دروازے کے پاس کھڑا رہا، پھر ہمت کرکے آہستہ سے دروازہ کھٹکھٹایا۔ کچھ دیر انتظار کیا اور جواب نہ ملنے پر دوبارہ دستک دی۔ پھر گلی میں دروازے کے قریب اینٹوں سے بنی دہلیز پر بیٹھ گیا۔ سوچوں میں گم نہ ہوجانے میں کب تک روازے کے ساتھ ٹیک لگائے بیٹھا رہا اور پتہ نہیں میری آنکھ کب لگی۔ بس اتنا یاد ہے کہ مسجد سے اذان سنائی دی، کچھ دیر بعد سامنے والے گھر سے آدمی کی سہیلی نے دروازہ کھولا۔ وہ تڑپ کر باہر آئیں۔ انہوں نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور بولیں، بیٹا! تیری ماں گلی کی جانب کھلنے والی تمہارے کمرے کی کھڑکی سے گھنٹوں جھانکتی رہتی تھی۔ ادھر تو گلی میں قدم رکھتا تھا اور ادھر وہ بھاگم بھاگ نیچے آجاتی تھی۔ وہ بولی بیٹے تیرے لیٹ آنے، رات گئے کچن میں برتنوں کی آوازوں اور شور کی وجہ سے تیری بھابی بڑی بڑبڑ کیا کرتی تھیں کیوں کہ ان کی نیند خراب ہوتی تھی۔ پھر انہوں نے آبدیدہ نظروں سے کھڑکی کی طرف دیکھا اور بولیں: بیٹا! اب یہ کھڑکی کبھی نہیں کھلے گی۔‘‘
کچھ عرصہ بعد میرا تبادلہ دوسرے شہر ہوگیا جہاں میں گیارہ سال سے مقیم ہوں۔ سال میں ایک دو دفعہ میں وطن ضرور جاتا ہوں۔ میرے کمرے کی وہ کھڑکی اب بھی وہاں موجود ہے۔ لیکن وہاں میری آمد کا پتہ لگانے والا کوئی بھی بے لوث اور محبت کرنے والا انسان نہیں۔ میں جب بھی اپنے گھر کی کی اس گلی میں قدم رکھتا ہوں ماں کا مسکراہٹ بھرا چہرہ نظروں میں گھوم جاتا ہے اور بے اختیار آنکھیں چھلک جاتی ہیں۔