جنگ زوروں پر تھی۔ اچانک توپ کا ایک گولہ ان کے ٹینک کے عین اوپر گرا۔ دو سپاہی فوراً ہی ختم ہوگئے۔ دوسرا گولہ آیا اور ٹینک سے شعلے اٹھنے لگے۔ ڈرائیور بڑی پھرتی سے باہر کود گیا اور جلتے ہوئے ٹینک میں سے ایک نوجوان سپاہی کو کھینچ لیا۔ نوجوان کے کپڑوں میں آگ لگ چکی تھی،منہ، ہاتھ اور جسم کے کئی دوسرے حصے بری طرح جھلس گئے تھے۔ ڈرائیور نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اسے زمین پر لٹایا اور مٹھیاں بھر بھر کر ریت اس پر ڈالنے لگا۔ جلد ہی آگ بجھ گئی اور نوجوان تکلیف کی شدت سے کراہنے لگا۔ اتنے میں ایک دھماکا ہوا اور جلتے ہوئے ٹینک کے پرخچے اڑگئے۔
کئی ماہ گزر گئے۔ نوجوان ہسپتال میں زیرِ علاج رہا۔ متعدد آپریشن ہوئے، زخم مندمل ہونے کے بعد اس کی پلاسٹک سرجری ہوئی اور مصنوعی، ناک، کان اور ہونٹ لگا دئے گئے۔جب پٹیاں کھلیں تو نرس نے اسے ایک آئینہ دیا تاکہ اپنی صورت دیکھ سکے اور منہ پھیر کر آنسو بہانے لگی۔ نوجوان نے اپنا چہرہ دیکھا اور کچھ کہے بغیرفوراً ہی آئینہ نرس کو لوٹا دیا۔
ٹھیک تو ہوگیا، لیکن فوج کے طبی بورڈ نے اسے ملازمت کے لیے نااہل قرار دے دیا۔ اسے بہت رنج ہوا۔ سیدھا اپنے جنرل کے پاس گیا اور درخواست کی کہ اب میں صحت یاب ہوگیا ہوں، مجھے دوبارہ رجمنٹ میں جانے کی اجازت دیجیے۔
جنرل بولا: ’’لیکن تمہیں فوجی خدمات کے لیے نا اہل قرار دیا جاچکا ہے۔‘‘
’’وہ کیوں؟ میرا چہرہ خراب ہوگیا ہے، تو کیا ہوا۔ اس سے میری قوت اور تجربے میں تو کوئی فرق نہیں پڑا۔ میں ہر قیمت پر فوج میں واپس جانا چاہتا ہوں۔‘‘
نوجوان کے اصرار پر جنرل نے اجازت دے دی، البتہ رجمنٹ میں جانے سے پیشتر اسے چند دن کی چھٹی دے دی گئی تاکہ اپنے گھر والوں سے ملنے جاسکے۔
گاڑی اسٹیشن پر رکی، تو موسم کی خرابی کے سبب نوجوان کو کوئی سواری نہ ملی۔ وہ پیدل ہی اپنے گاؤں کی طرف چل دیا۔ برف باری کی وجہ سے ساری زمین سفید ہورہی تھی۔ دور دور تک کوئی متنفس نظر نہ آتا تھا۔ ہوا اتنی سرد تھی کہ جسم میں تیر کی طرح گھسی جارہی تھی۔ گاؤں پہنچا تو شام کے سائے پھیل رہے تھے۔ چوک میں پنگھٹ تھا اور کنوئیں کے اوپر چرخی لگی ہوئی تھی۔
دن میں یہاں خاصی بھیڑ رہتی، لیکن اب یہ جگہ خالی تھی۔ اس نے ایک لمحے کے لیے رک کر اپنے گھر کی طرف دیکھا۔ سامنے گلی میں پنگھٹ سے چھٹا مکان اس کا تھا۔ دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ جی چاہا ایک ہی جست میں گھر جاپہنچے، مگر … کچھ سوچ کر قدم رک گئے، پیشانی پر سلوٹیں آگئیں اور وہ آہستہ آہستہ، متفکرانہ انداز میں قدم اٹھاتا ہوا گھر کی طرف چلا۔
قریب پہنچ کر اس نے کھڑکی سے اند رجھانکا۔ صحن میں شمع روشن تھی۔ ماں دھندلی روشنی میں دسترخوان بچھا رہی تھی۔ اس کا جی چاہا دوڑ کر اس سے چمٹ جائے، مگر ضبط کیے کھڑا رہا۔ ’’ماں کچھ زیادہ بوڑھی ہوگئی ہے۔‘‘ اس نے سوچا ’’اب تو اس کے شانوں کی ہڈیاں بھی نظر آنے لگی ہیں۔ ابھی تک وہی پرانی شال اوڑھ رکھی ہے۔ بے چاری ماں!!‘‘
ماں دسترخوان پر چیزیں رکھنے لگی۔ روٹی، دودھ، اپنے اور شوہر کے لیے دو چمچے، نمک وغیرہ۔ نوجوان باہر سے سب کچھ دیکھ رہا تھا، اس نے بڑھ کر دروازے پر ہلکی سی دستک دی۔
’’کون ہے؟‘‘ اندر سے آواز آئی۔
’’میں لیفٹیننٹ ہوں، میدان جنگ سے آیا ہوں۔‘‘
’’کیا بات ہے بیٹا؟‘‘ ماں نے پوچھا۔
نوجوان کے دل پر جیسے آری سی چلی۔ ماں ہوکر بھی وہ اس کی آواز نہ پہچان سکی تھی، وہ اپنے اوپر ضبط کرتے ہوئے بولا: ’’میں آپ کے بیٹے ٹونی کا دوست ہوں۔ اس نے کہا تھا آپ سے مل کر آؤں۔‘‘
دروازہ کھلا اور ماں ہاتھ پکڑ کر اسے اندر لے گئی۔
’’بیٹھو بھائی، یہ تمہارا اپنا گھر ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ میرے بیٹے کی خیریت کا پتا چلا، وہ اچھا تو ہے؟‘‘
نوجوان خاموشی سے اسی پرانی بینچ پر بیٹھ گیا جہاں بچپن میں بیٹھا کرتا تھا۔ جب وہ چھوٹا سا تھا اور اس کے پاؤں زمین سے نہ لگتے تھے، تو ماں اسی بینچ پر بٹھا کر اسے کھانا دیتی تھی۔
’’اچھا، تو بیٹا تم نے ٹونی کے متعلق نہیں بتایا۔‘‘ ماں نے اسے خاموش دیکھ کر سوال کیا۔
وہ فوراً’’اس کے بیٹے‘‘ کی باتیں کرنے لگا۔ ماں کو رہ رہ کر سوال یاد آتے تھے: وہ کیا کھاتا ہے؟ کیا کرتا ہے؟، صحت کیسی ہے؟، خود کیسا ہے؟، زیادہ پریشان تو نہیں … نوجوان نے سب سوالوں کے تسلی بخش جواب دئے اور ’’اس کے بیٹے‘‘ کی بہادری کی داستانیں سناتا رہا۔
دروازہ کھلا اور اس کا باپ اندر آیا۔ وہ پہلے سے زیادہ معمر دکھائی دیتا تھا، داڑھی سفید ہورہی تھی۔ اس نے جوتا پائیدان پر صاف کیا اور گردن کے گرد لپٹا ہوا صافہ اتارا، پھر کوٹ اتار کر نوجوان سے مصافحہ کیا۔
نوجوان حیران تھا کہ باپ نے کوئی سوال نہیں کیا۔ اس نے یہ بھی نہ پوچھا: اجنبی تم کون ہو اور کس لیے آئے ہو؟ شاید وہ سمجھ گیا تھا کہ اس کے بیٹے کا کوئی دوست ہوگا۔ نوجوان کا جی چاہتا تھا کہ پھوٹ پھوٹ کر روئے، ابا سے لپٹ کر فریاد کرے کہ مجھے پہچانتے کیوں نہیں، مگر اس نے اپنے ہونٹ سختی سے بند کرلیے اور اپنے ہی گھر میں مہمان بن کر ’’گھروالوں‘‘ سے باتیں کرتا رہا۔
باپ نے اپنے تھیلے سے سامان نکالا۔ سب جانی پہچانی چیزیں تھیں، مچھلی پکڑنے کی ڈوری، چائے کے برتن اور روٹی اور پیاز کی مانوس خوشبو۔
وہ کھانے پر بیٹھ گئے۔ باپ نے مشروب کی ایک بوتل منگوائی اور دو گلاس بھرے۔ کھانے کے دوران ماں نے ایک دو بار غور سے نوجوان کے ہاتھوں کی طرف دیکھا۔ شاید دیکھ ہی رہی تھی کہ نوجوان بھی اس کے بیٹے کی طرح چمچ پکڑتا ہے۔ وہ ادھر ادھر کی باتیں کرتے رہے۔ نوجوان نے ڈھیر سارے سوالات پوچھے: فصل کیسی رہی؟ کٹائی کے لیے مزدوروں کا بندوبست ہوگیا ہے یا نہیں؟ کام دھندے کا کیا حال ہے؟ اجناس کی قیمتیں کیسی جارہی ہیں؟ وغیرہ وغیرہ۔ جواب میں باپ نے بھی اس سے کئی باتیں پوچھیں: جنگ کب ختم ہوگی؟ دشمن کب تک لڑے گا؟ ماں نے صرف ایک سوال پوچھا:
’’میرے بیٹے کو چھٹی کب ملے گی اور وہ ہم سے ملنے کب آئے گا؟ گھر سے گیا تھا، تو بہت نرم طبیعت کا تھا، مگر جنگ میں جوان پتھر دل ہوجاتے ہیں۔ اب تو میرا بیٹا بدل گیا ہوگا؟‘‘
نوجوان نے جھٹ سے جواب دیا: ’’ہاں اماں، تم اسے دیکھو، تو شاید پہچان نہ سکو۔‘‘
کھانے کی میز سے اٹھے تو ماں نے فوراً اس کے لیے بستر تیار کیا۔ وہ گھر میں ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ ہر چیز اس کی دیکھی بھالی تھی۔ دروازوں کے پٹ، ان پر کھنچی ہوئی لکیریں، کواڑوں کی گرہیں، ہر شے سے بخوبی واقف تھا۔ وہ بستر پر اوندھے منہ لیٹ گیا۔ نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔
وہ دیر تک سوچتا رہا، کیا یہ ممکن ہے کہ ایک ماں اپنے بیٹے کو نہ پہچان سکے۔ دنیا کے رشتوں سے اس کا اعتبار اٹھنے لگا۔ مڑ کر ماں کی چارپائی کی طرف دیکھا، وہ بھی کروٹیں بدل رہی تھی۔ نہ جانے کیوں؟
صبح جب اس کی آنکھ کھلی، تو ماں چولہے میں آگ جلا چکی تھی۔ اس کی چارپائی پر کمر سے باندھنے والی پیٹی دھلی دھلائی رکھی تھی، جوتے پالش کیے ہوئے تھے۔ شاید ماں نے اس کے سوتے میں یہ سارا کام کیا تھا۔ اس نے آنسو پیتے ہوئے ماں کی طرف دیکھا، وہ اسے دیکھ کر بولی: ’’میٹھی روٹی کھاؤ گے تو پکاؤں؟‘‘
اس نے جوتے پہنے اور پیٹی کستے ہوئے بولا: ’’ہاں، ضرور کھاؤں گا۔‘‘
تھوڑی دیر بعد اس نے پوچھا: ’’اماں، اس گاؤں میں ایک لڑکی رہتی تھی، اس کا نام کیٹو تھا شاید۔‘‘
’’ہاں، ہاں، کیٹو یہیں رہتی ہے۔ اب تو پڑھ لکھ کر استانی بن گئی ہے، یہیں گاؤں کے اسکول میں پڑھاتی ہے۔ تمہیں میرے ٹونی نے سب کچھ بتادیا ہوگا۔‘‘
’’تم نے ٹھیک پہچانا اماں۔ کیا وہ یہاں آسکتی ہے؟ میں اسے ٹونی کا پیغام دینا چاہتا ہوں۔‘‘
’’وہ ضرور آئے گی، آخر ٹونی اس کا شوہر بننے والا ہے۔‘‘
یہ کہہ کر اس نے ایک چھوٹی لڑکی کو بھیجا اور تھوڑی دیر میں کیٹودوڑتی ہوئی آئی۔ وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت نظر آرہی تھی۔ آنکھوں سے خوشی چھلک رہی تھی۔ شال بار بار سر سے ڈھلک جاتی اور نرم ملائم اور گھنے سیاہ بال دکھائی دینے لگتے، کسی تعارف کے بغیر نوجوان سے مخاطب ہوکر بولی:
’’تم ضرور ٹونی کا پیغام لائے ہوگے۔ اسے کہنا میں تمہیں بہت یاد کرتی ہوں۔‘‘
یہ کہہ کر وہ قریب آگئی تاکہ رازداری سے کچھ باتیں کہہ سکے۔ اچانک اس کی نظر نوجوان کے چہرے پر پڑی۔ وہ ڈر کر پیچھے ہٹ گئی، اسے ٹونی کے نام پیغام دینا بھی یاد نہ رہا۔
نوجوان کو ایک دھچکا سا لگا۔ چند چھٹیاں باقی تھیں، پھر بھی اس نے فیصلہ کرلیا کہ آج ہی واپس چلا جائے گا۔
ماں نے اسے میٹھی روٹی کھلائی اور ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگی۔ کیٹو ابھی تک خاموش بیٹھی تھی۔ نوجوان نے دانستہ اپنا چہرہ دوسری طرف کرلیا تاکہ اسے دیکھ کر وہ خوفزدہ نہ ہو۔ کچھ دیر بعد کیٹو اٹھ کر چلی گئی۔ نوجوان بھی سفر کی تیاری کرنے لگا۔ ماں نے اسے تاکید کی کہ جاتے ہی بیٹے سے کہنا ماں کو خط لکھے۔
باپ کا خیال تھا کہ اس کے لیے گھوڑا گاڑی کا بندوبست کرے،مگر نوجوان نے کہا کہ اس کی ضرورت نہیں اور پیدل ہی ریلوے اسٹیشن کی طرف چل دیا۔ وہ بہت مایوس اور افسردہ تھا اور اس کا دل ڈوب رہا تھا۔
جب وہ اپنی رجمنٹ میں پہنچا، تو دوسرے سپاہیوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ سب نے خوشیاں منائیں کہ وہ لوٹ آیا ہے۔ نوجوان بھی کوشش کرنے لگا کہ گھر کی یاد نہ آئے … اس نے ماں کو خط بھی نہ لکھا اور لکھتا بھی کیا؟ رہے ابا اور کیٹو، تو انہیں بھی کیا لکھا جاسکتا تھا۔ کیٹو کو تو وہ بھلانا چاہتا تھا۔ ہاں، وہ ضرور کیٹو کو بھلا دے گا، وہ تو اسے دیکھ کر ڈر ہی گئی تھی۔
شب و روز گزرتے گئے۔ نوجوان نے رجمنٹ میں اپنی سپاہیانہ دلچسپیاں پیدا کرلیں اور گھر کو قریب قریب بھول گیا۔ پھر اسے ایک خط ملا۔ یہ اس کی ماں کی طرف سے آیا تھا۔ لکھا تھا:
’’بیٹا، خیریت سے تو ہو نا، مجھے یہ لکھتے ہوئے ندامت سی محسوس ہورہی ہے، مگر کیا کروں، لکھے بغیر چارہ بھی نہیں۔ یہاں ایک آدمی تمہاری خیریت کی خبر دینے آیا تھا۔ بڑا اچھا آدمی تھا وہ، مگر اس کا چہرہ انتہائی خوفناک تھا۔ شروع میں اس نے بتایا تھا کہ میں کچھ دن ٹھہروں گا، مگر نہ جانے کیا بات ہوئی کہ یک بیک اپنا ارادہ تبدیل کرکے یہاں سے چلا گیا۔‘‘
’’میرے بیٹے! برا نہ ماننا، اس روز سے مجھے رات کو نیند نہیں آتی۔ رہ رہ کر خیال آتا ہے کہ وہ آدمی تم تھے۔ شک تو مجھے اس وقت بھی پڑا تھا۔ مگر تمہارے ابا کے خوف سے چپ رہی۔ وہ تو پہلے ہی مجھے سنکی سمجھتے ہیں۔ بعد میں ان سے ذکر کیا، تو بولے:
’’تم تو بالکل سٹھیا گئی ہو۔ بھلا وہ ہمارا لڑکا کیونکر ہوسکتا ہے؟ اگر اس کا چہرہ واقعی مسخ ہوگیا ہوتا، تو بھی ہم سے چھپانے کی کیا ضرورت تھی۔ ایک سپاہی کے لیے تو یہ بات فخر کا باعث ہوتی ہے کہ اس نے اپنا چہرہ بھی جنگ کی نذر کردیا، سپاہی تو ایسے چہروں پر فخر کرتے ہیں۔‘‘
’’مگر بیٹا! میرا دل ان کی باتوں کو تسلیم نہیں کرتا، تم ہی بتاؤ میں کیا کروں۔ وہ آدمی سویا، تو میں بے اختیار اس کا کوٹ اٹھا کر باہر لے گئے اور اسے چومنے لگی۔ اگر وہ تم نہیں تھے، تو ماں کا دل کیوں تڑپتا تھا، میں نے کوٹ کیوں چوما تھا اور مجھے راتوں کو نیند کیوںنہیں آتی؟ میرے بچے، جلدی اپنا پتا دو، ورنہ سمجھوں گی کہ واقعی میں پاگل ہوں۔‘‘
(ترجمہ: ادارہ)