اسلامی نیا سال محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے اس کے بعد صفر کا مہینہ آتا ہے۔ ہر نئے مہینے کے آنے پر ہم سوچنے لگتے ہیں کہ اس ماہ کی کیا اہمیت ہے؟ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا؟
صفر کے مہینے کے بارے میں عام طور پر خرافات بہت مشہور ہیں جن کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ نہ قرآن سے اس کی دلیل ملتی ہے اور نہ ہی آپؐ کی حدیث سے۔
کچھ لوگ اس مہینے میں شادی نہیں کرتے ان کے نزدیک یہ مہینہ منحوس ہے۔ ایسے لوگوں کے خیال میں یہ مہینہ مُردوں پر بھاری ہوتا ہے اس لیے چنے ابال کر دوسروں کو کھلائے جاتے ہیں۔ آٹے کی گولیاں سال کے دنوں کی مقدار میں یعنی 365 گولیاں بنا کر تالابوں میں مچھلیوں کو ڈالی جاتی ہے تاکہ بلائیں ٹل جائیں اور رزق میں ترقی ہو۔
۱۳؍ تاریخ تصور کی جاتی منحوس ہے کہ اس ماہ میں بہت سی بلائیں آسمان سے اترتی ہیں۔ اس ماہ میں ۳۱۳ دفعہ سورہ مزمل پڑھنی چاہیے۔ پہلے ۱۳ دن زیادہ سخت ہیں اگر کسی نے ان دنوں میں کوئی غلط کام کرلیا تو سارا سال غلط ہوتا رہے گا۔ یہ مہینہ خیر و برکت سے خالی ہے۔
اللہ کے رسولﷺ نے زمانے، دن اور وقت کو منحوس سمجھنے کے تصور کو باطل قرار دیا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ زمانے کو برا نہ کہو زمانہ میں خود ہوں۔
یعنی وقت کا بنانے والا اللہ تعالیٰ ہے، اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی مصیبت نہیں آسکتی۔
حضرت عبد اللہ ابن مسعودؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’بدشگونی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے، بدشگونی شرک ہے۔‘‘
اگر کوئی ان توہمات کو سچ سمجھتا ہے تو وہ شرک کرتا ہے، یعنی اپنے نفع و نقصان کا اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو مالک سمجھتا ہے۔
یہ سب شیطانی حربے ہیں۔ شیطان توہمات اور بدشگونی کے ذریعے انسان کو اندر سے کمزور کر دیتا ہے پھر انسان کچھ اچھا کرنے کے قابل نہیں ہوتا۔ شرک میں مبتلا کروا کر نیک اعمال ضائع کروا دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ پر ایمان اور توکل انسان کو جرأت، بہادری اور اعتماد دیتا ہے۔ جب کہ اس کی ہدایات اور احکامات ہمیں جینے کا ڈھنگ سکھاتے ہیں، اچھے اور برے کی تمیز کرا کر اچھائی کو اختیا رکرنے اور برائی سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں اور ہمیں یہ بھی بتاتے ہیں انسان کے نفع اور نقصان پر قادر صرف اور صرف اسی اللہ کی ذات ہے جس نے ہمیں اور اس کائنات کو پیدا کیا۔
آج امت مسلمہ کے افراد بھی اس ماہ کے بارے میں کئی توہمات کا شکار ہیں۔ ہمیں حقیقت کا پتہ کرنا چاہیے۔ اس ماہ میں لوگ سفر نہیں کرتے، شادی نہیں کرتے اور اگر یہ کام کرلیے جائیں اور بعد میں کچھ حادثہ ہوجائے تو پھر اس مہینہ کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ حالاں کہ سب کچھ حکم اللہ تعالیٰ کا ہوتا ہے۔ پوری کائنات اسی کے ہاتھوں میں، اس کے سوا ہمیںکوئی نفع و نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ جو لوگ اس ماہ کو منحوس تصور کرتے ہیں اور اس ماہ آنے والی پریشانیوں کو اس مہینے کی نحوست تصور کرتے ہیں کیا وہ لوگ اس بات کی ضمانت لے سکتے ہیں کہ سال کے بارہ مہینوں میں وہ خود اور دیگر افراد مصیبتوں اور پریشانیوں کی شکار نہیں ہوں گے۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سال کے بارہوں مہینے انسان مصائب و مشکلات میں مبتلا ہوتا اور نکلتا رہتا ہے۔ جو لوگ اس مہینہ میں شادی کو غیر مناسب تصور کرتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ حضرت علی اور فاطمہؓ کی شادی اسی مہینے میں ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ ہم کیا نہیں دیکھتے کہ سال کے دیگر مہینوں میں ہونے والی شادیاں بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوسکتی ہیں۔ ہمارا سماج اس پر دلیل ہے۔
اس سب جہالت کی وجہ لا علمی، قرآن اور سنت سے دوری ہے۔ ہمیں قرآن سے جڑ جانا ہے، تب ہی ہم ان توہمات سے باہر آسکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’کوئی بھلائی جو تمہیں پہنچے تو وہ اللہ کی طرف سے ہے جو کوئی برائی تمہیں پہنچے وہ تمہارے نفس کی طرف سے ہے۔‘‘ (النساء:۷۹)
ہمیں خود بھی ان توہمات سے بچنا ہے اور دوسروں کو بھی بچانا ہے۔ ہر وقت کی بدشگونی توہمات کی وجہ سے انسان کوئی کام نہیں کرتا اور عمر یونہی ضائع کر دیتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کوئی مرض متعدی نہیں ہوتا اور نہ الومین نحوست ہے اور نہ ستارے کی کوئی اصل ہے اور نہ صفر کی نحوست کی کوئی بنیاد ہے۔‘‘ (مسلم)lll