جواب نمبر۱: بچوں کی اچھی تربیت کے موثر عوامل تیزی سے زوال کا شکار ہو رہے ہیں۔ دینی تعلیم کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے یا دین اور دینی تربیت کا محدود تصور رائج ہو گیا ہے۔کارپوریٹ ورلڈ کے زیر اثر والدین مصروف سے مصروف تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ان کے پاس گھر اور بچوں کے لیے وقت کم سے کم رہ گیا ہے جس کی وجہ سے بچوں کی ذہنی، جسمانی اور اخلاقی تربیت انتہائی حد تک متاثر ہو رہی ہے۔ بچے اس کا متبادل تلاش کر رہے ہیں۔ موبائل فون اس میں سر فہرست ہے۔
سماج والدین اور ٹیچرس کی طرف سے اچھا رزلٹ لانے کے لیے دباؤ ڈالنا بھی بچوں اور ان کے سامنے لمیٹڈ کیریئر آپشن رکھ دیتا ہے جو بچے کو زندگی کی ریس کے گھوڑے طور پر تیار کرتا ہے اور اچھے انسان کی تیاری کا مقصد نظام تعلیم سے ختم ہوگیا ہے۔
بچے کی پیدائش سے قبل ہی زوجین کے انتخاب میں ہی اس کی دینی تربیت کا سامان فراہم کیا جائے۔ پیدائش کے بعد گھر کا ماحول پرسکون، خیر خواہی اور محبت کی فضا سے پر ہو۔ والدین اور بزرگ سبھی اس کی تربیت کے لیے حساس ہوں۔نیز اسے دنیا کی سب سے قیمتی دولت کے طورپر پروان چڑھایا جائے۔والدین اور اہل خانہ کا فرض ہے کہ بچے کے اندر بچپن سے سوچنے اور غور و فکر کرنے کی صلاحیت کو فروغ دیں۔ جب وہ کوئی سوال کرے تو اسے ایسا اطمینان بخش جواب دیا جائے جو اسے اس موضوع پر آگے بھی غور و فکر کے لیے راستے فراہم کرے۔ وہ کیریئر oriented ہو لیکن اس زیادہ توجہ اس بات پر ہو کہ بچہ جو کل کا ذمہ دار شہری ہے وہ کارپوریٹ کا پرزہ بننے کے بجائے اپنے تمام علم وفن کے ساتھ ساتھ ایک اچھا اور اعلیٰ قدروں کا پاسبان انسان بھی ہو۔ اس کام میں آج کا نظام تعلیم بہت زیادہ معاونت نہیں کرتا سوائے ان چند اسکولوں کے جو اس طرف متوجہ رہتے ہیں۔ اس لیے یہ کام والدین اور اہل خانہ کا زیادہ ہے کہ وہ اپنی آنے والی نسل کی ہمہ جہت تربیت کریں اس طرح کہ ان کا بچہ ایک طرف تو زندگی کی دوڑ میں دوڑنے والا کامیاب فرد ہوجائے دوسری سماج و معاشرے کا اچھا فرد اور ملک و ملت کی تعمیر کا جذبہ رکھنے والا انسان بھی۔ اگر ہم اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں ان باتوں کو اپنائیں گے تو ہمارے مسائل بھی ختم ہوں گے اور سماج اور ملک کے بھی۔
جواب نمبر2: ایمان کی کمزوری، دین سے ناواقفیت یا محدود تصور، اخلاقی خرابیاں اور دن بہ دن بڑھتی مصروفیات نے قریبی رشتوں کی اہمیت کو کم سے کم تر کر دیا ہے حالاں کہ موجودہ زمانے میں بہت سی سہولیات بھی میسر ہیں۔ تیز رفتار سفر کی سہولت، ایک دوسرے سے رابطہ اور خبر خیریت جاننے کے لیے موبائل، مگر پھر بھی رشتے ناطے بھلادیے گئے ہیں یا پیچھے چھوڑ دیے گئے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنی ذات اور اپنے مفاد کے خول میں سمٹ گئے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ دین میں اور سماجی معاشرتی زندگی میں رشتوں کی کس قدر اہمیت ہے۔ ہمارا دین ہمیں رشتوں کو جوڑنے اور بھلائی کا معاملہ کرنے کی ہدایت دیتا ہے لیکن ہم نے دین کو بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ تھوڑی بہت فکر بس سماج و معاشرے کی بچی ہے، جہاں یہ بھی نہیں وہاں رشتے اور خاندان بکھر گئے ہیں۔
رشتوں کے حقوق کی ادائیگی اور ان کو مستحکم کرنے اور رکھنے کی فکر، ایمان کی مضبوطی کی بنیاد پر ہی انجام دی جاسکتی ہے۔ اس معاملے میں اور اللہ کے رسول ہمیں تقوی اور احسان کی تعلیم دیتے ہیں۔ یہ تعلیم ہی مضبوط رشتوں اور مضبوط خاندان کی بنیاد ہوسکتی ہے۔ مفاد اور منفعت کی بنیاد پر رشتوں کو اس طرح قائم اور دائم نہیں رکھا جاسکتا جس طرح دین کا حکم ہے۔
قرآن نے حقوق و فرائض کا جو تعین کیا ہے اس سے بہ خوبی واقفیت اور ان پر عمل کر کے رشتوں کو مضبوط بنایا جاسکتا ہے۔رشتہ داروں سے ملاقاتیں، دعوتیں، تحفے تحائف، فیملی اجتماع اور تفریحی پروگرامس بھی اس میں معاون ہوسکتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ خاندان کا ہر فرد اپنے آپ کو اخلاقی خرابیوں سے بجائے اور دوسروں کے ساتھ ’’معاف کرو اور درگزر کرو‘‘ کا طرز عمل اختیار کرے۔ اس طرح کی کوششیں کر کے ہم رشتوں کو مستحکم کرسکتے ہیں۔
جواب نمبر 3:مرد و عورت سے مل کر ہی خاندان تشکیل پاتا ہے۔ آج میاں بیوی کے تعلقات دن بہ دن کمزور ہوتے جا رہے ہیں۔ کارپوریٹ سسٹم نے دونوں کو مصروف کر رکھا ہے، جس کے نتیجے میں بچوں کی پرورش اور ان کی تربیت کا مسئلہ پیدا ہوگیا ہے۔ نیو کلیئر فیملی کے تصور نے انسان کی توجہ والدین اور رشتہ داروں سے ہٹا دی ہے۔ والدین اولڈ ایج ہوم میں ڈال دیے جاتے ہیں۔ طلاق کی شرح دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہیں۔ اولاد کی ذمے داری سے راہ فرار اختیار کی جا رہی ہیں۔ ایسی بے شمار خرابیاں ہیں جوہمارے ملک میں تیزی سے بڑھ رہی ہیں اور نت نئے قوانین کے ذریعے اس کے تدارک کی کوشش لاحاصل نظر آرہی ہے۔
مسلم و غیر مسلم معاشرے میں تیزی کے ساتھ اسلام کی عائلی تعلیمات کو پھیلایا جائے، جس سے متاثر ہوکر غیر مسلم خواتین اسلام قبول کر رہی ہیں۔ مغربی ممالک میں اس کا اثر بہت زیادہ ہے۔
عملی طور پر اسلامی خاندان کی عملی تصویریں پیش کی جائیں کہ لوگ دیکھ کر اسلام کے خاندانی نظام سے متاثر ہوں اور لوگوں پر اسلامی نظام کی برکتیں اور خوبیاں واضح ہوں۔ اس عنوان پر مسلم خواتین بحث و مباحثہ میں حصہ لیں۔ اسلامی خاندان کی تشکیل ہمارے یہاں ایک سماجی موضوع بن جائے۔ اس طرح ہم خود بھی اس سے واقف ہوکر عمل پیرا ہوسکیں گے اور دوسروں کو بھی اس کے بارے میں بتا کر سماجی و دینی بیداری کا ذریعہ بن سکیں گے۔ ہمیں خود بھی جاننا ہوگا اور لوگوں کو بھی بتانا ہوگا کہ اسلام کی تعلیمات بزرگوں کی ضعیفی کے مرحلے میں قوت دیتی ہیں اور وہ اپنی اولاد کی جنت بن جاتے ہیں۔
خاندانی نظام میں اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ یہاں ایک دوسرے کے لیے تعاون اور مدد کی فضا ہوتی ہے۔ مال خرچ کرنے میں اور حسن سلوک میں سب سے پہلے قریبی رشتہ کا اصول قائم ہے۔ جو رشتہ میں سب سے زیادہ قریبی ہے وہ حسن سلوک اور مالی مدد کا اتنا ہی زیادہ حق دار ہے۔ اگر ہم اس اصول کو اپنی زندگی میں نافذ کرلیں تو رشتے بھی مضبوط ہوں گے اور غربت اور مالی تنگ دستی میں بھی ایک دوسرے کے سپورٹ سے غربت و افلاس کا خاتمہ کیا جاسکے گا۔lll