حال ہی میں ہندوستان کی ریاست کرناٹک میں حجاب مخالفت مہم شروع ہوئی اور اس تنازعہ نے ہندوستان کیا بلکہ ساری دنیا کے مسلمانوں کو دعوت غوروفکر دی۔
پردے کی مخالفت کن وجوہات کی بناء سے کی جاتی ہے اور اس کے پیچھے کیا نظریہ کار فرما ہے، پہلے اس پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے ۔
پردےیاحجاب کی مخالفت صرف خواتین کی ہمدردی کی وجہ سے نہیں اور نہ ہی خواتین کی حفاظت کے لیے ہے ، بلکہ اس کے پیچھے کچھ اور ہی وجہ ہے۔
حقیقت میں معاشرہ اس طرح اپنی دلی خواہش کی تکمیل چاہتا ہے۔ جہاں مردوں کو عورتوں سے دوستی کرنے میں کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔ کوئی اخلاقی دیوار باقی نہ رہے۔ اور مرد و عورت آزادانہ تعلقات پیدا کرتے رہیں۔
معاشرہ ان تمام پابندیوں سے آزادی چاہتا ہے جس میں مرد و عورت کے لیے اخلاقی جائز حدود بتائی گئیں ہیں۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ حال میں جو تنازعہ پیش آیا اس کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے اور کیا مسائل درپیش آ سکتے ہیں ۔ جب بھی اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں ۔ دو قسم کے رویے سامنے آتے ہیں:ایک مثبت اور دوسرا منفی۔
اس طرح کے حادثات سے جذبات و احساسات میں تبدیلی آتی ہے اس لیے یہ امکان ہے کہ وہ مسلمان جو حجاب کو سنجیدگی سے نہیں لیتے تھے وہ کم از کم الرٹ ہو جائیں گے اور ان کے دل میں بھی غیرت جاگ اٹھے گی یا جن کا غیر جانب دارانہ رویہ تھا، اب وہ چیزوں کو صحیح تناظر میں دیکھ سکیں گے۔
دوسرا مثبت پہلو یہ ہے کہ اس تحریک سے ہم وطن مرد وخواتین میں اس کے فائدے اور نقصانات پر غور و فکر ہو رہا ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگ بہت حد تک مربوط ہیں جس کی وجہ سے سیکولر دماغ حجاب کو اپنانے کے فائدے اور ترک کرنے سے جو نقصانات ہو رہے ہیں، اس سے ذہنوں کو جھنجھوڑ نے کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ دعوتی نقطہ نظر سے یہ بہت اہم ہے۔
اس واقعہ کو لے کر بہت سے مسلمان جو ابھی تک غفلت اور لا پرواہی کی زندگی گذار رہے تھے، ان کے اندرکسی تبدیلی کا امکان پیدا ہوا ہے۔
دوسری طرف مخالفین ان پابندیوںمیں جو کہ ابھی کالج کی حد تک ہے ، آگے چل کر اسے اور وسیعکر سکتے ہیں۔ یہ بھی امکان ہے کہ مختلف ریاستوں میں اور اداروں میں بھی ایسا کرنے کی کوشش ہو۔
اب مسلمان خواتین اور لڑکیوں کے لیے ایک چیلنج ہے اور چیلنجز کا مقابلہ ہم کیسے کر سکتے ہیں؟ آیا ہم اینٹ کا جواب پتھر سے دیں یا ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہیں اور کسی معجزے کا انتظار کریں؟ یا مخالفتوں کی وجہ سے حجاب ہی چھوڑ دیں۔ یہاں ہمارے ایمان کی بھی آزمائش ہیں ۔ وہ ایمان ہی کیا جو چیلنجز کو مقابلہ نہ کرسکے۔
قدیم روایات اور ہماری تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مسلم امہ پر اس سے بھی زیادہ سخت حالات اور آزمائشیں آئیں جہاں مردوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا ، خواتین بھی پیچھے نہ رہیں۔
چلنجز تو زندگی کا حصہ ہیں اور اسی سے زندگی میں ، آگے بڑھنے کے لیے عزم اور حوصلہ ملتا ہے۔ یہ مخالفتیں مہمیز کا کام دیتیں ہیں ۔
صحابہ و صحابیات ہمیشہ مخالفتوں کے سامنے ڈٹے رہےاور حالات کے آگے سپر نہیں ڈالیں۔
دین اور شریعت کے تعلق سے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور کسی ملامت کرنے والے ملامت کی پرواہ نہیں کی۔
ہندوستان میں ہم جن حالات سے گذر رہے ہیں اور جن چیلنجز کا سامنا ہے، یہی وہ حالات ہیں جن میں اپنے ایمان کو مضبوط کرنا ہے، ثابت قدمی دیکھانی ہے اور ہماری کوئی کمزوری ہمیں کمپرومائز پر مجبور نہ کرسکے۔
اس راہ میں استقامت سے کھڑے رہ کر، حالات کا مقابلہ کرنا ہے تاکہ کوئی ہمارے قدم اکھاڑ نہ سکے۔
تاریخ بھری پڑی ہے ایسی مثالوں سے کہ امت مسلمہ نے کبھی بھی وقت و حالات اور حکمرانوں کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے۔ حالات کے آگے کبھی اپنےآپ کو سرینڈر نہیں کیا۔
ابھی تک کرناٹک ہائی کورٹ کا فیصلہ محفوظ ہے اور سامنے نہیں آیاہے۔(15مارچ کو فیصلہ آیا اور اسنے سابق حکم کو قائم رکھا) اس فیصلے سے زیادہ توقعات وابستہ کرنا دھوکہ کے مانند ہوسکتا ہے۔ اگر فیصلہ حجاب کے خلاف آتا ہے تو معاملہ اعلیٰ عدالت میں جائے گا اور پھر ایک طویل عرصہ اس فیصلے میں لگ سکتا ہے۔ اس کے باوجود اس بات کا امکان ہے کہ فیصلہ حجاب کے حق میں آنے کے بجائے کچھ اور ہو۔ ایسے میں ہمارے لیے مشکل اور بڑھ سکتی ہے اور ایک بڑا چیلنج سامنے آسکتا ہے۔
ایسی صورت میں کیا ہم اپنے حق حجاب سے دستبردار ہوجائیں گے یا متبادل شکلیں تلاش کریں گے۔ یہ اہم بات ہے۔
ہمارے خیال میں یہ مسئلہ ڈریس کوڈ کو بنیاد بناکر اٹھایا گیا ہے۔ اس لیے اسی کے ذریعہ ہم حل کرسکتے ہیں۔ اس کا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ ہم اپنی بچیوں کو ڈریس کلر کا اسکارف اور ڈریس کلر کا بڑا دوپٹہ بنواکر اسکول بھیجیں۔ اس طرح حجاب کے مقاصد بھی حاصل ہوجائیں گے اور ڈریس کوڈ کی تکمیل بھی ہوجائے گی۔ اس طرح ہم حجاب کے اس مسئلے کو ڈریس کوڈ کی شکل میں حل کرکے ایک بڑے چیلنج سے نبرد آزمائی کامیابی کے ساتھ کرسکتے ہیں۔ اب رہی یہ بات کہ مستقبل میںآنے والے ان چیلنجز کا مقابلہ کیسے کرنا چاہیے ؟ بہ حیثیت مسلمان ہمار ا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے۔تو اس بات کو درج ذیل پوائنٹس میں بیان کرتے ہیں:
۱۔ اللہ سے مدد اور کثرت سے دعائیں کی جائیں کیوں کہ دعاء مومن کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔
۲۔ اپنے آس پاس کے ماحول کو اپنے فیور میں کرنے کی کوشش کی جائے۔ ہم مزاج لوگوں کو ڈھونڈھا جائے چاہے وہ غیر مسلم ہی کیوں نہ ہوں۔
۳۔ مخالف کیمپ میں ہی اپنے ہم نوا پیدا کرنا اور اپنے مزاج کے لوگوں سے ربط ہمارا دعوتی مشن ہے اور حکمت کا تقاضہ بھی۔
۴۔ حکمتِ عملی سے کام لیں ۔ قانونی کاروائی کریں کیوں کہ مشتعل ہونے سے کام نہیں ہو سکتا۔ بلکہ مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔
۵۔ایسے مسلم کالجز اور اسکولز کھولے جائیں جہاں مسلمان لڑکیاں آرام سے اپنے دین پر عمل پیرا ہو سکیں۔ انہیں اللہ کے حکم پر عمل کرنے میں مشکل پیش نہ آئے
۶۔اپنی صلاحیتوں کو مزید بڑھائیں اپنے اندر ایسے اسکل پیدا کریں جو آپ کے لیے مدد گار ثابت ہوں۔
7- مسلمانوںکی اکثریت دین اور شریعت سے ناواقف ہے ان تک دین کے احکامات اور صحیح بات پہنچائی جائے۔ ان میں بیداری پیدا کرنا، ان کو اپنا مددگار بنانا اور ان کے اندر فہم و شعور بیدار کرنا ہمارا مشن بن جانا چاہیے۔
۸۔ دعوتی نقطہ نظر سے ایسا لٹریچر تیار کیا جائے کہ غیر مسلم ہم وطن خواتین و مرد حجاب کے فائدے اوراس کی حکمت سمجھیں سکیں۔
ہمارے ذہن میں یہ بات پختہ رہنی چاہیے کہ اسلام کا عائلی اور خاندانی نظام بہت خوبصورت، عملی ، فلاحی اور ناقابلِ چیلنج ہے۔ مغربی تہذیب کے تناظر میں اس کی فوقیت، ضرورت او راہمیت روز بہ روز آگے بڑھتی جارہی ہے اور یہ دنیا کے سامنے ایک متبادل کے طور پر ابھر رہا ہے۔
ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم معاشرہ اسلام اور اسلام کے دعویدار خود ان تعلیمات کا مظہر بن کر ایک مثالی معاشرہ تشکیل دیں تاکہ دنیا اس کے فیوض و برکات کو دیکھ کر سمجھ سکے کہ ہماری فلاح بھی اسی طریقۂ زندگی کو اپنانے میں ہے