نئے گھر میں داخل ہوتے وقت دلہن عموماً نئے خاندان اور ان کے طور طریقوں کے متعلق بہت خائف اور تشویش میں مبتلا ہوتی ہے۔ نئے ماحول سے اپنے آپ کو ہم آہنگ کرنے کے لیے وہ اپنے شوہر کے خاندان کے افراد کو خوش کرنے کی ہر ممکن تدبیر کرتی ہے۔ وہ سسر کو اپنے باپ اور ساس کو اپنی ماں جیسی عزت دیتی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بہت سی دلہنیں یہ چاہتی ہیں کہ سسرال والے اس کے طور طریقوں کو اپنالیں اور یہیں سے مسائل کی ابتدا ہوتی ہے۔ اس مضمون کے ذریعہ ہم نئی نویلی دلہنوں کو چند مشورے دے رہے ہیں کہ وہ کس طرح ایک فرض شناس بہو اور پورے خاندان کے لیے خوشیوں کا گہوارہ بن سکتی ہیں۔
٭ شادی تک لڑکی والدین کی بیٹی ہوتی ہے اور وہ اس کی غلطیوں کو نظر انداز اور اس کی تمام خواہشات پوری کرسکتے ہیں لیکن ایسی بات نہیں کہ سسرال والے ایسا نہیں کرسکتے۔ ان کی خواہش ہوتی ہے کہ بہو زیادہ شعور اور زیادہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرے اس لیے نہیں کہ وہ اسے چاہتے نہیں بلکہ یہ نئی نویلی دلہن کے مفاد میں ہے کہ وہ ان کے نقطہ نظر کو سمجھے اور اس کے مطابق اپنا رویہ تبدیل کرے
٭ شعیب ڈپٹی کمشنر پولس تھا جب اس نے اپنے بیٹے اسلم کی شادی کی تو اس کی اپنی ایک عزت تھی اور اپنی ایمانداری اور دیانتداری کے باعث لوگوں میں عزت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ اس کے برعکس اس کی بہو رشیدہ کسی کو خاطر میںنہ لاتی اور آئے دن جھگڑا کرتی جس کی وجہ سے گھر کا ماحول کشیدہ رہنے لگا تھا۔ خوش قسمتی سے مسز شعیب بہت ذہین اور سمجھدار عورت تھیں انھوں نے اپنی بہو سے صاف صاف گفتگو کی اور بتایا کہ اس گھر میں اس کا شوہر ہی گھر کا سربراہ ہے اس لیے اس کی رائے کو سب پر فوقیت حاصل ہے اور یہ رشیدہ کے مفاد میں ہے کہ وہ اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلے۔ رشیدہ کو اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اس نے اپنے آپ کو تبدیل کرلیا اور اس طرح گھر کی خوشیوں کو تباہ ہونے سے بچالیا۔
سسرال میں ساس سسر گھر کے سربراہ ہوتے ہیں وہ اس بات کے عادی ہوتے ہیں کہ خاندان کے افراد ان کی بات سنیں اور مانیں۔ یہ بات آپ اچھی طرح سمجھ لیں اور ان کے لیے خطرہ ہرگز نہ بنیں بلکہ محبت اور عزت سے ان کے دلوں کو جیت لیں یہ طریقہ سست رفتار ضرور ہے لیکن نتائج بہت خوشگوار ہوتے ہیں۔
٭ اتفاق نہ کرنے کے باوجود ان کی بات غور سے سنیں، ایک آئیڈیل بہو بننے کی کوشش کریں، اگر آپ کے خیالات ان سے مختلف ہوں تب بھی انہیں جواب نہ دیں۔
٭ ان کی دوست بن کر رہیں جب بھی کسی شک و شبہ میں پڑیں تو ان سے مشورہ لینے میں جھجک سے کام ہرگز نہ لیں کسی بھی مسئلہ کا بہترین حل تلاش کرنے میں ان سے اچھا کوئی اور نہیں ہوسکتا۔ ساس آپ کی حریف نہیں ایک کہاوت ہے کہ عورت کسی دوسری عورت کو پسند کر ہی نہیں سکتی لیکن آپ اسے غلط ثابت کرسکتی ہیں رنجشیں عموماً ساس اور بہو کے درمیان ہی ہوتی ہیں۔
شادی سے قبل تک ماں اپنے بیٹے کی آئیڈیل ہوتی ہے۔ لیکن شادی کے فوراً بعد اسے بہو کی شکل میں اپنا حریف نظر آنے لگتا ہے۔ اسی طرح اگر ماں اپنے بیٹے کے لیے کچھ کرے تو بہو اسے اپنے لیے ایک مداخلت سمجھنے لگتی ہے۔ جب بھی گھر میں اس قسم کے جھگڑے پیدا ہوتے ہیں تو ہر فرد کو اس سے نقصان پہنچتا ہے۔
حالات کو بہتر بنانے کی خاطر دونوں میں سے ایک کو جھکنا پڑتا ہے تو پھر آپ ہی کیوں نہیں جھک جاتیں؟ آپ اپنی ساس کے مقابلے میں کم عمر بھی ہیں اور ناتجربہ کار بھی۔
یہ بات ہر وقت ذہن میں رکھیں کہ ساس آپ کی حریف نہیںہے۔ یہ محض اتفاق ہے کہ وہ آپ کے شوہر کی ماں ہے اور آپ کے مقابلے میں وہ اس کی پسند اور ناپسند سے زیادہ واقف ہے وہ جو کچھ بھی کرتی ہے محض اپنے بیٹے کو خوش کرنے کے لیے کرتی ہے۔
٭ اپنی دلچسپ سرگرمیوں میں ان کو بھی شریک کریں بوڑھے ہوجانے کے بعد آپ کے ساس سسر کو آپ لوگوں کی اور بھی زیادہ ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے یہ ایسا دور ہوتا ہے جب ان کے پاس وقت تو بہت ہوتا ہے لیکن کرنے کو کچھ بھی نہیں۔ اس لیے روز مرہ کی سرگرمیوں میں ان کو بھی شامل کریں ان کو گھر کے کاموں میں مصروف رکھنے کی کوشش کریں جیسے گھر کے لیے شاپنگ، تہوہاروں، تقریبات اور اس قسم کے دیگر مواقع کے انتظام ذمہ داری ان کے سپرد کرکے ان کا تعاون کیا جائے تو وہ بہت خوش ہوں گے۔
آپ کے مستقبل کی خوشیاں آپ کی اپنی پہنچ کے اندر ہیں۔ انہیں دونوں ہاتھوں سے مضبوطی کے ساتھ تھام لیں اس کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ایک اچھی بہو بن جائیں، اس طرح آپ اپنے ساس سسر کی ایک اچھی بیٹی بن جائیں گی۔