اسلام میاں بیوی کے تعلق کو بڑی اہمیت دیتا ہے اور اسے نہایت مضبوط اور پائیدار بنانے کا خواہش مند ہے کیوں کہ خاندان کی یک جہتی اور اتحاد کا انحصار اسی تعلق کی مضبوطی پر ہے اور خاندان کے باہمی اتحاد و اتفاق ہی سے عزت و احترام کے لائق نسل پیدا ہوتی ہے۔
میں پورے وثوق سے کہتا ہوں کہ جو عورت نبی کریمؐ کے بیان کردہ اسباب کو مضبوطی سے تھام لے گی وہ اپنے گھر کو خوش بختی اور مسرتوں کا سرچشمہ بنا دے گی اور اپنے خاوند کے ساتھ نہایت خوش و خرم زندگی بسر کرے گی۔
یہاں ہر عورت کو یہ بھی جان لینا چاہیے کہ ان اسباب کو اختیار نہ کرنے کے نتیجے میں عورت کو غم اور تکالیف کی تلخی جھیلنا پڑے گی اور اس کا گھر دکھوں اور غموں کی آماج گاہ بن جائے گا، لہٰذا ان اسباب پر اچھی طرح غور و فکر کرو اور ان کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرو، پھر اپنا جائزہ لو۔ اگر تم نے ان اسباب کو مضبوطی سے تھام لیا ہے تو یہ تم پر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم ہے اور اگر تم نے ایسا نہیں کیا تو یہ تمہارے لیے نصیحت ہے اور نصیحت مومنات کو نفع دیتی ہے۔
پہلی بات جو رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمائی ہے، اس کا مقصد یہ ہے کہ تم اپنے خاوند کی محبت پالو اور وہ تمہارے ساتھ ہم آہنگ ہوجائے۔ یقینا ہر عقل مند انسان کا مقصد اور خواہش اخلاقی کمال کا حصول ہے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت۔ اسلام انسان کو روحانی، عقلی، بدنی اور اخلاقی کمال کے حصول کی تعلیم دیتا ہے۔
اسی کے پیش نظر میں کہتا ہو کہ تمہیں اپنے ظاہری حسن و جمال کے اہتمام کے لیے اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ اور جائز اشیاء، مہندی اور اثمد سرمہ لگانا چاہیے اور زیورات پہننے چاہئیں کیوں کہ بہترین عورت وہ ہے جس کی طرف اس کے خاوند کی ایک نظر پڑتے ہی اس کی آنکھوں سے خوش بختی جھلکنے لگے۔
آدمی حصول معاش کے لیے گھر سے نکلتا ہے تو وہ محنت کے باعث جسمانی طور پر تھک جاتا ہے اور بعض اوقات اپنے کام کی مشقت کی وجہ سے دماغی تھکاوٹ کا شکار بھی ہو جاتا ہے اور بڑی شدت سے گھر لوٹنے کا انتظار کرتا ہے تاکہ تھکاوٹ سے چور جسم کو آرام و سکون مل سکے، لہٰذا جب وہ دن بھر کی مشقت کے بعد گھر میں داخل ہوتا ہے اور اپنی بیوی کے برتاؤ میں کوئی خوش کن پہلو نہیں دیکھتا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے خاوند سے تعلقات کے پہلے ہی مرحلے میں ناکام ہوگئی ہے۔ ایسے میں تو وہ یقینا گھٹن اور تنگی محسوس کرے گا اور اس کے اظہا رکے لیے طرح طرح کے بہانے تلاش کرے گا۔ کبھی کسی بات پر خفا ہوگا تو کبھی کسی کام پر ناراضی کا اظہا رکرے گا۔
اس کے برعکس جب وہ گھر واپس آنے پر اپنی بیوی کو ایسی حالت میں دیکھے جس سے وہ خوش ہوجائے اور اس کا دل جھوم اٹھے تو وہ بہت جلد ذہنی پریشانیوں اور جسمانی تھکاوٹ کو بھول جائے گا، لہٰذا بیوی سے خاوند کی محبت بڑھنے کے اسباب میں سے یہ بھی ہے کہ خاوند جب بیوی کی طرف دیکھے تو وہ اسے مسرور کردے۔ واقعہ یہ ہے کہ محبوب کو دلکش حالت اور حسن و جمال کے عالم میں دیکھنا، دل میں محبت راسخ کرنے کا بڑا موثر وسیلہ ہے۔
اس لیے ہر عورت کو چاہیے کہ وہ خاوند کے گھر آنے سے پہلے پہلے اپنی حالت کا جائز لے۔ اپنے لباس کو بغور دیکھے اور اپنے دل سے پوچھے: ’’کیا میرا خاوند مجھے اس حالت میں دیکھ کر خوش ہوگا؟‘‘
ہر عورت اس سوال کا جواب خوب جانتی ہے۔ بلاشبہ ہر آدمی خوب صورت چیزوں سے فطری طور پر محبت کرتا ہے، سوائے اس شخص کے جس نے اپنی فطرت کو مسخ کر ڈالا ہو اور وہ قبیح اور خبیث چیزوں کے حصول میں لگا رہتا ہو۔
جب خاوند اپنے گھر میں داخل ہوکر اپنی بیوی کو نہایت حسین و جمیل صورت میں دیکھتا ہے تو وہ اپنی بیوی سے محبت اور اس کی طرف رغبت محسوس کرتا ہے۔ وہ اپنے لیے بیوی کے بناؤ سنگھار کا اہتمام محسوس کرتا ہے۔ اس کے برعکس بعض خواتین خاوند کے آجانے کے بعد بھی گھریلو کام، کاج، مثلا: کھانا پکانے، کپڑے دھونے یا صفائی ستھرائی میں لگی رہتی ہیں، انہیں چاہیے کہ وہ تمام کاموں سے خاوند کی آمد سے پہلے پہلے ہی فارغ ہوجائیں اگرچہ اس کے لیے انہیں کچھ زیادہ محنت کرنی پڑے گی اور اضافی تھکاوٹ بھی برداشت کرنی ہوگی۔ اگر وہ ایسا کرلیں تو اس اضافی محنت اور مشقت کا صلہ انہیں بہت خوش گوار ملے گا۔
خاوند کو گھر میں خوشی نصیب نہ ہو تو اس پر شیطان خناس کے وسوسے بہت جلد غلبہ پالیں گے اور شیطان لعین شاہراہوں پر چلنے والیوں کو خاوند کی آنکھوں کے سامنے خوب مزین کرکے پیش کرے گا اور بیوی کو اس کی نظر میں گرا دے گا۔
جب بھی تمہارا خاوند تمہاری طرف دیکھے تو اسے تمہارے ہونٹوں پر دلکش مسکراہٹ نظر آنی چاہیے۔ اگرچہ اس مسکراہٹ پر ایک لمحے سے زیادہ وقت نہیں لگتا لیکن خاوند کے دل میں اس کی یاد ہمیشہ تازہ رہتی ہے۔ یقینا تمہاری مسکراہٹ گھر کو خوشیوں سے بھر دے گی اور یہ دن بھر محنت و مشقت کے بعد خاوند کو حاصل ہونے والا سب سے زیادہ راحت بخش پہلو ہوگا۔
اپنے شوہر کے سامنے تمہارے چہرے کے خوب صورت تاثرات، در حقیقت تمہارے خوب صورت لباس اور زیورات سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتے ہیں کیوں کہ جب خاوند بیوی کی طرف دیکھتا ہے تو بیوی کے چہرے پر دلکش مسکراہٹ اور خوش گوار تاثرات، زبان کے میٹھے بول سے کہیں زیادہ گہرے اثرات چھوڑتے ہیں۔
یقینا خاوند کو بہت جلد احساس ہوگا کہ اس کی بیوی نہایت بے لوث ہوکر کسی مالی فائدے کی غرض سے پاک، حقیقی اور سچی مسکراہٹ کے ساتھ اس کا استقبال کر رہی ہے اور کہہ رہی ہے: ’’تمہارے آنے سے میں بہت خوش ہوں اور تمہیں دیکھ کر بڑی مسرور ہوں۔ اس وقت شوہر کو یہ کہنا مناسب ہوگا: ’’تمہاری یہ مسکراہٹ آخرت میں نیکیوں کا باعث بن جائے گی کیوں کہ یہ مسکراہٹ بھی ان صدقات میں سے ہے جنہیں تم اپنے نامہ اعمال میں درج کرا رہی ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان مبارک ہے: ’’اپنے مسلمان بھائی کو دیکھ کر تیرا مسکرانا بھی تیرے لیے صدقہ ہے۔‘‘
دانشوروں نے بیان کیا ہے کہ تم کس طرح محبوب و معظم ہستی بن سکتی ہو۔ حضرت عروہ بن زبیرؓ بیان کرتے ہیں کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ حکمت کی کتابوں میں یہ لکھا ہے:
’’اے میرے پیارے بیٹے! تمہارا چہرہ ہمیشہ کھلا رہنا چاہیے اور تمہیں ہمیشہ پاکیزہ بات کرنی چاہیے، پھر تم لوگوں کے نزدیک انہیں انعامات و عطیات دینے سے کہیں زیادہ محبوب ہوجاؤگے۔‘‘
اور جناب سعید بن عبید طائی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:
’’تمام لوگوں کے ساتھ مسکراتے چہرے کے ساتھ ملو۔ اگر تم ان سے مسکرا کر ملوگے تو محبت کے ایسے پھل چنوگے جو بہت پاکیزہ اور خوش ذائقہ ہیں۔‘‘
اور جناب حبیب بن ثابتؒ فرماتے ہیں:
’’آدمی کے اخلاق حسنہ میں سے یہ بھی ہے کہ وہ اپنے ساتھی سے توجہ کے ساتھ گفتگو کرے۔‘‘
جناب منصور بن محمد کریزیؒ نے یہ شعر کہے ہیں:
ترجمہ: ’’تم جو بھی نیک اور اچھا کام کروگے، وہ اس وقت تک مکمل نہیں ہوگا جب تک تم مسکراتے چہرے والے اور عمدہ محاسن کے مالک نہ بن جاؤ۔ خیر و بھلائی کو ہاتھ بڑھا کر لے لو، اس کے برعکس شر اور برائی کے سامنے ایسے ہوجاؤ جیسے تمہارے ہاتھ جکڑے ہوئے ہیں۔‘‘
اپنی زندگی کو خندہ روئی اور خوشی سے لبریز کردو۔ چہرے کی شیفتگی تمہارے خاوند کو خوش کردے گی اور تمہارے گھر میں خوشی کے چراغ روشن کردے گی۔ خوب جان لو! تمہاری اس خندہ روئی اور مسکراہٹ کا سب سے زیادہ حق دار تمہارا شوہر ہے۔‘‘lll