افراد کے ملنے سے گھر اور خاندان وجود میں آتے ہیں۔ اس طرح سماج اور سوسائٹی کی تشکیل ہوتی ہے جس میں سب مل جل کر زندگی گزارتے ہیں۔ ہر سماج میں مختلف مذاہب کے ماننے والے رہتے بستے ہیں۔ دینِ اسلام نے ہر انسان پر اللہ کے حقوق نیز سماج کے تمام افراد پر ایک دوسرے کے حقوق متعین فرماکر ان کے حقوق کا احترام اور اُن کی ادائیگی کو فرض قرار دیا ہے۔ ہم اہلِ ایمان کا سب سے پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ ہم اللہ کے متعین کردہ حقوق کی ادائیگی کو لازم کرلیںاور زندگی کے ہر شعبہ، عقائد، اخلاق، عبادات اور معاملات سے لے کر معاشرت، معیشت اور سیاست تک، تمام پہلوؤں میں صرف اس ایک ذات کی بندگی کو اپنا شعار بنالیں۔ ایک اللہ کی عبادت و اطاعت سے ہمارے مقام و مرتبہ میں بلندی اور نکھار پیدا ہوگا اور ہماری شخصیت کی تعمیر و ترقی ہوگی اور یہی ذات واحد کی بندگی ہمیں اچھائیوں اور نیکیوں کی حامل بنائے گی۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو غیر مسلم سماج کے لیے ہمارا اخلاق و معاشرت ایک مثال اور نمونہ بن جائے گا جو خود اسلام کی دعوت کا ذریعہ بنے گا۔
ددسرا قدم بندوں کے حقوق کی ادائیگی ہے۔غیر مسلم سماج میں رہتے ہوئے ہےہمارا دوسرا قدم یہ ہونا چاہیے کہ ہم سماج کے سبھی افراد کے حقوق ادا کرنے والے بنیں۔ اپنی ذات، اپنے گھر، اپنے خاندان اور سماج کے ہر فرد کے حقوق کی ادائیگی سے سماج و معاشرہ نیک اور صالح بنتا ہے اور درستگی و اصلاح کی طرف گامزن ہوتا ہے۔
ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ ہماری تمام تر مساعی عدل و انصاف، اخوت و مساوات، صلہ رحمی، احسان، ایفائے عہد، رواداری، نفس انسانی کے احترام اور خیرخواہی و خیرسگالی جیسے بنیادی امور کو سماج میں رواج دینے پر مرکوز ہوں، جن کی ہدایات ہمیں قرآن و سنت میں ملتی ہیں۔اس سلسلے میں درج ذیل امور کو ملحوظ رکھنا انتہائی ضروری ہے۔
اسلامی اقدار کا التزام
غیر مسلم سماج میں رہنے والے صاحبِ ایمان افراد خواہ وہ مرد ہوں یا عورت ان کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ حسن اخلاق کا نمونہ بنیں۔ بہترین اخلاق نہ صرف اللہ تعالیٰ بلکہ اس کے بندوں سے بھی قریب ہونے کا ذریعہ ہیں۔ اسی لیے اسلام اپنے ماننے والوں کو بلند اخلاق اور اعلیٰ ظرفی کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ نہ صرف سماج کے تمام افراد بلکہ دیگرتمام انسانوں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کرتا ہے اور ان کی جان و مال، عزت و آبرو کی حفاظت کی تعلیم دیتا ہے۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ انسانیت کے اعتبار سے جو اس کے حقوق ہیں ان کا مکمل احترام کیا جائے اس لیے کہ مسلم اور غیر مسلم سبھی آدم کی اولاد ہونے کی حیثیت سے قابلِ تکریم ہیں۔ لہٰذا ان میں بلا تفریق مذہب و ملت، رنگ ونسل سب کے ساتھ، ہمدردی و غم خواری، سماحت و نرم روی، تعاون، نفع رسانی اور بھلائی کا معاملہ ہونا چاہیے۔ سماج کی یہ وہ اعلیٰ قدریں ہیں جن کو ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ نے بحسن و خوبی اپنے عمل سے زندہ کیا اور فرمایا: احب الناس الی اللہ انفعہم للناس (الطبرانی) ’’لوگوں میں اللہ کے نزدیک اس کا محبوب ترین بندہ وہ ہے جو لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والا ہو۔‘‘
ایک انسان خصوصاً مسلمان کا عفت و عصمت، حیا و پاکیزگی، امانت و دیانت، صدق و صفا، عفو و درگزر اور صبر و تحمل جیسی عظیم صفات سے مزین ہونا اپنے محبوب نبی مکرمﷺ کی سیرت کو اپنانے کی طرف بہترین قدم ہے۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے زیادہ اچھے اخلاق کے حامل تھے۔ (متفق علیہ)
خدمتِ خلق کے جذبے سے لبریز ہونا بھی انسان کے مدنی الطبع یعنی سماجی فطرت ہونے کا تقاضا کرتی ہے۔ دین کا مطالبہ ہے اس کے سماج کا ہر فرد سے ایک دوسرے کو خواہ کسی بھی مذہب یا گروہ اور قوم سے تعلق رکھتا ہو یکساں فائدہ پہنچے۔ قرآنِ مجید میں اہلِ ایمان کی خصوصی صفت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ’’وہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی محبت میں مسکین، یتیم اور قیدی کو کھانا کھلاتے ہیں۔‘‘ (الدہر:18)
حضور اکرمﷺ کی پوری زندگی خدمت خلق کا بہترین نمونہ تھی۔ یوں تو حق داروں کے حقوق اور محتاجوں، مسکینوں کی ضروریات پوری کرنے کا نام خدمتِ خلق ہے لیکن ایک مسلمان پر انسان کا سب سے بڑا حق تو یہ ہے کہ وہ ان تک زندگی گزارنے کا وہ صحیح طریقہ پہنچائے، ان تعلیمات سے آگاہ کرے جن پر اس کی دنیا و آخرت کی فلاح کا دارومدار ہے۔ ہمارے پیارے نبی ﷺ کی دعوتِ اسلام خدمتِ خلق کا بہترین نمونہ تھی۔ ہمیںچاہیے کہ ہم اسوہ رسولؐ پر عمل کرتے ہوئے خدمتِ خلق کے جذبے کو فروغ دیں اور جس حد تک بھی دوسروں کے کام آسکتے ہیں آئیں۔
مندرجہ بالا بنیادی اصولوں، اعلیٰ قدروں، عظیم صفات کو اپنا کر غیر مسلم سماج میں غیر مسلم حضرات کے ساتھ شرعی حدود کا لحاظ کرتے ہوئے ان سے کاروباری تعلقات، خریدوفروخت، لین دین اور اُن کے ساتھ تحائف کا تبادلہ، ان کی عیادت اور تعزیت کرنا، ان کے جنازے اور ان کی عبادت گاہوں کا احترام، ان کو ان کے لحاظ سے دعا دینا، ان کی دعوت کو قبول کرنا اور ان کو ان کے بنیادی حق، دین کی دعوت، حکمت و موعظت (اچھی نصیحت) کے ساتھ دینا جیسے اقدامات سے قرونِ اولیٰ کی مثال کو زندہ کیاجاسکتا ہے۔ آنحضورﷺ، خلفائے راشدین اور صحابہ کرام ؓ کا اپنے دور کے غیر مسلم سماج میں یہی اندازِ زندگی تھا جس نے پورے سماج کو امن و آشتی کا گہوارہ اور معاشرہ کو توحید کا متبع نیز اصول و اقدار اوراعلیٰ اوصاف کا مرکز بنادیا تھا۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم قرآن و سنت کی تعلیمات سے اپنی ذات، اپنے گھر، اپنے خاندان اور اپنے سماج و معاشرہ کی مندرجہ بالا خطوط پر اصلاح و تربیت کرکے لوگوں کے سامنے یہ ثابت کردیں کہ کس طرح اسلام زندگیوں کو تبدیل کرتا ہے۔ اگر آج ہم مسلمان اپنے حقوق و فرائض کی ادائیگی کے لیے حوصلہ و ارادہ اور پختہ عزم کرلیں تو ہماری بے حسی اور بے عملی کے سمندر میں وہ لہریں پیدا ہوسکتی ہیں جو باطل کے طوفانوں کو حق کے دھارے میں بدل سکتی ہیں۔
تھے تو آباء وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو
ہاتھ پہ ہاتھ دھرے منتظر فردا ہو
(اقبالؒؔ)