مثالی معلم اور اس کی خوبیاں

تحریر: عطیہ محمد الابراشی ترجمہ: رئیس احمد جعفری

معلم کے ذمہ بہت بڑا کام ہوتا ہے اور وہ کام ہے، علم اور سوسائٹی کی خدمت۔ اس اعتبار سے معلم کا درجہ سب سے اونچا اور بڑا ہے۔ خود سرکارِ دو عالم ﷺ نے علم کا اعتراف فرمایا اور کہا : ’’اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّمًا۔‘‘ (بے شک میں معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں)
جرمنی کے مشہور دینی مصلح مارٹن لوتھر کا قول ہے: ’’اگر مجھے وعظ و ارشاد سے فرصت ملتی تو میں تعلیم کے سوا کوئی اور کام نہ کرتا۔‘‘ اس قول کی روشنی میں اس حقیقت کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ مدرسہ ہی دراصل اصلاح و تعمیر کا سب سے بڑا مرکز ہے۔ یہ مدرس ہی کا کام ہے کہ وہ اپنی قوم کو ترقی یافتہ بنادے اور اسے ترقی یافتہ قوموں کے دوش بدوش کھڑا کردے۔
معلم کا کام
معلم بچوں اور نوجوانوں کے افکار میں جلا پیدا کرتا ہے، ان کے شعور کو بیدار کرتا ہے ، ان کی عقلوں کو زندگی بخشتا ہے، ان کے ادراک کو ترقی دیتا ہے۔ وہ انھیں باطل کے مقابلے میں حق کے ہتھیاروں سے مسلح کردیتا ہے۔ انھیں فضیلت کے ہتھیار دیتا ہے تاکہ وہ رذالت کو ہلاک کردیں۔ انھیں علم دیتا ہے کہ وہ جہل کا خاتمہ کردیں، وہ تھکی ماندی روحوں کو پیام دیتا ہے۔ سوئی ہوئی عقلوں کو جگادیتا ہے۔ ضعیف شعور کو توانا کردیتا ہے، وہ ایک روشن مشعل ہاتھ میں دے دیتا ہے کہ راستہ کی تاریکی دور ہوجائے۔
جس طرح ایک راہب دین کے لیے دنیا کو چھوڑ دیتا ہے، اسی طرح ایک عالم، علم کے سوا، ساری دنیا سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ اگر آپ کسی ایسے راہب کو دیکھیں، جو حب دنیا اور حب جاہ کے مرض میں گرفتار ہو تو سمجھ لیجیے، کہ وہ سچا اور پکا راہب نہیں ہے۔ اسی طرح اگر آپ کسی عالم کو سیم وزر کا بندہ دیکھیں تو یقین کرلیجیے اس کا علم کھوٹا ہے۔ دنیاکی سب سے بڑی بدبختی یہ ہے کہ لوگ جن کاموں کے لیے پیدا نہیں ہوئے ہیں، وہی کرتے ہیں۔ ایک شخص بہترین دستکار بن سکتا ہے، لیکن وکالت کے پیچھے پڑا ہے۔ وہ بہترین وکیل بن سکتا ہے، لیکن دستکاری میںالجھا ہوا ہے۔ بعض لوگ پیدا ہوئے ہیں روپیہ پیدا کرنے کے لیے، لیکن پیشہ معلمی کا اختیا رکررکھا ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ دنیا میں ناکام رہتے ہیں۔ نہ ادھر کے رہتے ہیں نہ ادھر کے۔
لیکن معلمین کی کچھ شکایتیں بھی ہیں اور وہ بجا بھی ہیں۔ راہب کو ہماری سوسائٹی اچھی غذا اور اچھا لباس دیتی ہے اور معلم اس سے محروم ہے۔ راہب شادی نہیں کرسکتا، اپنی خانقاہ میں مگن رہتا ہے، اس پر کسی کا بوجھ نہیں ہوتا، معلم کو شادی کرنی پڑتی ہے، خانگی زندگی بسر کرنی ہوتی ہے، دوسروں کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے، لیکن اس کی اس مشکل کو آسان کرنے کی طرف توجہ نہیںکی جاتی۔
لوگوں کو اگر عقل سے دشمنی نہ ہوتی، تو وہ معلم کو ہر ضرورتِ دنیاوی سے بے نیاز کردیتے۔ اگر وہ اشیا کی قدروقیمت کا اندازہ رکھتے ہوتے، تو معلم کی قیمت سب سے زیادہ لگاتے۔
مدرس کی حیثیت
ہمیں مدرس کی حیثیت اور اہمیت پورے طور پر محسوس کرنی چاہیے۔ تاکہ وہ اپنے اقوال و افعال اور حرکات و سکنات میں مدرسہ کے اندر اور باہر، کھیل کے میدان میں اور کلاس کے اندر، ایک بہترین اور قابلِ تقلید نمونہ طلبہ کے لیے بن سکے۔ اسے طریق تدریس سے آشنا ہونا چاہیے، بچوں کی نفسیات پر بھی عبور ہونا چاہیے تاکہ ان کی صحیح تربیت کرسکے۔
مدرس کی اصلاح
مدرسین کا ایک بہت بڑا طبقہ اصلاح وتربیت کا محتاج ہے۔ ان کا اکثر وقت ضائع ہوجاتا ہے اور طلبہ ان سے بہت کم ہی فائدہ اٹھا پاتے ہیں۔ مدرس کو چاہیے کہ وہ خود ہی اپنے دل سے حسب ذیل سوالات کرے:
(۱) کیا وہ اپنی فرصت کے اوقات کا صحیح استعمال کرتا ہے؟
(۲) کیا اس کی ذہنی و بدنی ریاضتوں کا کوئی نتیجہ نمودار ہوا؟
(۳) کیا اس کے شاگردوں میں اس مقصد کی لگن پیدا ہوئی، جسے وہ پیدا کرنا چاہتا تھا؟
وہ مدرس ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتا جس کی کوششیں ناکام ہوں اور جس کے عمل کا نتیجہ سامنے نہ ہو اور جس کے شاگرد، اس سے پورے طور پر مستفید نہ ہوتے ہوں۔
مدرس کا فرض
تربیت جدیدہ کے اصولوں میں سب سے اہم اصول یہ ہے کہ معلم طلبہ کے کاموں میں از خود دخل نہ دے، بلکہ انھیں موقع دے کہ وہ خود اپنا کام کریں۔ معلم صرف اس وقت دخل دے، جب وہ خود مدد کے طالب ہوں۔
مدرس کا کام اور فرض یہ ہے کہ وہ طلبہ میں لگن پیدا کرے، انھیں مستقل تفکر اور مسلسل عمل کا عادی بنائے۔ انھیں کثرتِ مطالعہ کی ترغیب دے، انھیں تلاش و تجسس کی لذت سے آشنا کرے، ان کی معلومات منظم کرے، اور ان کے عمل کو پرکھے، ان کی نگہداشت کرے کہ وہ غلط راستے پر نہ چل پڑیں اور جب وہ حاجت مند ہوں تو ان کی مدد کرے۔ مدرس کو چاہیے، کہ وہ ہر روز اپنے دل سے پوچھتا رہے:
(۱) میں کس طرح پڑھاتا ہوں؟
(۲) طلبہ میں تعلیم کی لگن کس طرح پیدا کرسکتا ہوں؟
(۳) اپنے رکھ رکھاؤ کے ساتھ کس طرح میں شاگردوں کو نشاط و رغبت کے ساتھ آمادۂ کار کرسکتا ہوں؟
(۴) اپنے شاگردوں کو وہ آزادی کس طرح دوں کہ مجھے مداخلت کی ضرورت نہ پڑے اور ان کے کام انہی پر چھوڑدوں؟
مدرس کے واجبات
مدرس اگر اپنے پیشے میں کامیاب ہونا چاہتا ہے، تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ تربیت کے جدید اصولوں سے پوری طرح واقف ہو۔
(۱) مدرس کا عمل منظم اور مرتب ہونا چاہیے۔ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ اسے آج کیا کرنا ہے؟ اس ہفتہ میں اسے کیا کرنا ہے؟ یہ موضوع کہاں سے شروع ہوتا ہے، کہاں ختم ہوتا ہے؟ وہ اپنے کام کو کس طرح تقسیم کرے کہ سال بھر کے اندر کورس بھی پورا ہوجائے اور طلبہ کو دہرانے اور اعادہ کرنے کا وقت بھی مل سکے؟
(۲) مدرس کو چاہیے کہ درس اس طرح دے کہ ساری جماعت اسے اچھی طرح سمجھ لے، مدرس کا کام طلبہ کی رہنمائی اور عظیم کاموں کی ترغیب دینا ہے، یہاں تک کہ وہ خود فکروعمل کے استقلال پر قادر ہوجائیں۔
(۳) اسباق کے ماتحت فرد اور جماعت کے لیے کام متعین کرے اور دیکھے کہ عقل و استعداد کے مطابق ہر کام کررہا ہے یا نہیں؟ مدرس کو چاہیے کہ وہ اپنے طلبہ کے لیے اخبار کا منبع اور علم کا مصدر بن جائے۔ جو مدد کا طالب ہو، اس کا مدد گار بن جائے۔ آپس کے تنازعات کا فیصلہ کامل عدل اور پوری غیر جانب داری کے ساتھ کرے۔ وہ ایسا سراپا محبت و شفقت باپ بن جائے، جو اپنے بچوں کو ترقی یافتہ دیکھنا چاہتا ہے، ان کی منفعت کے بارے میں ہر وقت سوچتا رہتا ہے۔ انھیں عمل کی ترغیب دیتا رہے۔
(۴) مدرس کو اس نصیحت پر ہمیشہ عمل کرنا چاہیے کہ شاگردوں سے باتیں کم کرو، نگرانی زیادہ کرو۔ دیکھو ان کا کون سا پہلو مضبوط ہے اور کون سا کمزور۔ یاد رکھو کم کام، اگر وہ صحیح ہو، زیادہ کام سے بہتر ہے۔ مدرس کویہ بھی ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ بچے ہمیشہ نصیحت اور رہنمائی کے خواہش مند رہتے ہیں۔ یہ قطعاً مناسب نہیں کہ مدرس لکھ دے اور وہ نقل کرلیں، اس طرح انھیں کوئی فائدہ نہیں پہنچ سکتا۔
(۵) بچوں کو غوروفکر کا عادی بنانا چاہیے۔ انہیں مناسب آزادی دینی چاہیے کہ وہ کام خود کرسکیں اپنے آپ پر اعتماد کرسکیں، یہاں تک کہ پیش آمدہ تمام دشواریوں پر خود ہی غالب آجائیں۔
(۶) یہ بہت بڑی غلطی ہے کہ بچوں کو ایک ساتھ بہت زیادہ آزادی دے دی جائے، آزادیِ عمل رفتہ رفتہ دینی چاہیے مگر پوری اور کامل نگہداشت کے ساتھ۔
(۷) طلبہ کو اس کا اہل اور خواہش مند بنانا چاہیے کہ وہ دوسری طرف دیکھے بغیر اپنے اوپر اعتماد کرسکیں۔
(۸) بچوں کو نگرانی: بچوں اور شاگردوں کو اس طرح آزادیٔ کار ملنی چاہیے کہ وہ یہ نہ محسوس کرسکیں کہ کوئی ان کے سرپر کھڑا ہے۔ وہ اطمینان و دل جمعی کے ساتھ اپنا کام کریں۔ اگر بچہ کو کام کی پوری فرصت نہ دی جائے اور اسے موقع نہ عطا کیا جائے، تو وہ صحیح طور پر اپنا مفوضہ کام نہیں انجام دے سکتا۔ یہ خود اعتمادی بچے کے اندر گھر اور باہر ہر جگہ ہونی چاہیے۔ ماں کو چاہیے کہ ہر وقت وہ بچہ پر پابندیاں نہ عائد کرے، کبھی کبھی اسے تنہا بھی جانے دے۔ جو ماں ہر وقت بچہ کو سینے سے چمٹائے رہتی ہے، وہ اس سے سچی محبت نہیں کرتی، بلکہ اسے غلام فطرت بنادیتی ہے، وہ اس سے اعتمادِ نفس کی نعمت چھین لیتی ہے۔ وہ اسے موقع نہیں دیتی کہ وہ خود سے اٹھے، خود سے بیٹھے، خود سے زندگی کا مقابلہ کرے۔ ہر وقت اس پر مسلط رہتی ہے، اسے ذرا بھی آزادی نہیں دیتی، وہ اس کی زندگی اجیرن کردیتی ہے اور اس مغالطہ میں مبتلا رہتی ہے کہ اس سے بہت زیادہ محبت کرتی ہے۔ علم النفس اور تربیت کے بڑے بڑے ماہرین کا خیال ہے کہ مدرسین یا والدین کی طرف سے بچہ پر بہت زیادہ محبت کا اظہار، اس کے ساتھ دوستی نہیں، دشمنی ہے۔
ایک اچھے مدرس کا کام یہ ہے کہ وہ بچہ پر مسلط رہے ، لیکن اسے محسوس نہ ہونے دے۔ اس کے اشاروں کو سمجھے، اس کی مرضی کو پہچانے، اس کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرے، لیکن کمزور بن کر نہیں۔ اس پر حکمرانی کرے، لیکن سختی کے ساتھ نہیں۔
آزادی
مدرس کو یاد رکھنا چاہیے کہ تربیت جدیدہ نے آزادیٔ عمل کی بہت بڑی گنجائش طالب علم کے لیے رکھی ہے۔ یہ آزادی بہت سوچ سمجھ کر دینی چاہیے۔ ایک بچے کے لیے جتنی آزادی مناسب ہے، دوسرے کے لیے وہ قطعاً مضر ہوسکتی ہے۔ وہ آزادی بھی کوئی قیمت نہیں رکھتی، جس میں ایک آدمی ہر کام میں دوسرے کی مدد کا محتاج ہو۔ وہ آزادی بھی بے معنی ہے، جس میں میلان و رغبت پر پہرے لگے ہوں۔ بچہ کو آزادی اس طرح دینی چاہیے اور اس میں آزادی کے استعمال کا ملکہ اس طرح پیدا کرنا چاہیے کہ خود برائی اور اچھائی میں امتیاز کرنے کی صلاحیت پیدا ہوجائے۔
مدرس کا عمل اور اثر
کوئی بھی دانش مند اس حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا کہ قوم اور سوسائٹی کی ترقی اور فروغ میں مدرس کا بڑا حصہ ہے۔ علمی، ادبی، اخلاقی، انفرادی اور اجتماعی ہر اعتبار سے مدرس کا سب سے اہم کام اصلاح ہے۔ ان عیوب کی اصلاح، جو سوسائٹی میں بکھرے ہوئے ہیں اور فرد کو خراب کرتے رہتے ہیں۔ ہم مدرس سے صرف یہی توقع نہیں کرتے کہ وہ صرف درس پر اکتفا کرے گا، ہم تو اسے ایک ایسا اسوہ اور نمونہ دیکھنا چاہتے ہیں، جس سے فائدہ اٹھایا جاسکے اور جس کی تقلید کی جاسکے۔
مدرس کا اثر اپنے تلامذہ پر وہی ہوتا ہے، جو باپ کا اپنی اولاد پر۔ ایک اچھا مدرس مدرسہ کیا، سوسائٹی تک کی اصلاح کرسکتا ہے۔
مدرس کو چاہیے کہ وہ طلبہ کے لیے ایسا نمونہ بن جائے، جس کی وہ پیروی کریں۔ اسی کے نقشِ قدم پر چلیں، کردار و اعمال میں اسی کے اثر سے متاثر ہوں۔ معلم صرف نام ہی کا معلم نہیں ہوتا، وہ حقیقی معلم ہوتا ہے، اس کا اثر روح، ذہن اور دماغ سب پر ہوتا ہے۔ تعلیم سے بڑھ کر مقدس کوئی کام نہیں۔ معلم جیسے اونچے لقب کا وہی مستحق ہوسکتا ہے جو اہل ہو، جو مردِ کامل ہو، جو پستی سے دور اور بلندی کا خوگر ہو۔
جیسا مدرس ویسا مدرسہ
جیسا مدرس ویسا مدرسہ یہ کوئی غلط بات نہیں ہے، ایک حقیقت ہے۔ اس لیے کہ مدرس، طلبہ کے لیے ایک نمونۂ کامل ہوتا ہے۔ جس کی وہ پیروی کرتے ہیں۔ اس کے اخلاق و عادات، حرکات و سکنات، افکار و آرا، اقوال و افعال، سب کی تقلید وہ کرتے ہیں، پس اگر مدرس اچھا ہوگا تو مدرسہ میں بھی وہی فضا پیدا ہوجائے گی۔ ورنہ نہیں۔ یہ بالکل مدرس کے اختیار میں ہے کہ وہ اپنے طلبہ اور مدرسہ کو جس رنگ میں چاہے رنگ دے، اور جیسا چاہے بنادے۔
کامیاب معلم
٭ مدرس اگر چاہے تو وہ اپنے طلبہ کے اندر علم، مدرسہ اور عمل کی محبت پیدا کرسکتا ہے۔ اپنے اسباق ذہنی اور عملی طور پر ان کے رگ و پے میں جاری و ساری کرسکتا ہے۔ طلبہ میں علم کا شوق پیدا کرسکتا ہے کہ جب تک درس ختم نہ ہوجائے، ان کا اٹھنے کو جی نہ چاہے۔ طلبہ میں شوق پیدا کرنے کی صورت یہ ہے کہ درس اور نصاب مختصر ہو، اور اس میں ہاتھ سے کرنے والے کام بھی شامل ہوں۔
٭ جو مدرس اپنے شاگردوں کو ضبط و نظم کا خوگر نہ بناسکے اور بغیر کسی مار دھاڑ، ڈانٹ ڈپٹ کے محض اپنی شخصیت کے اثر سے انھیں راہِ راست پر نہ لاسکے، وہ اس قابل نہیں کہ اسے مدرس کہا جائے، وہ اس کا اہل نہیں کہ مدرس بنایا جائے۔
٭ طلبہ کو مدرس پر اتنا ہی اعتماد ہونا چاہیے جتنا فوج کو کمانڈر پر ہوتا ہے۔ اگر فوج اپنے جرنیل پر اعتماد نہ کرے تو شکست، بغاوت یا فرار یقینی ہے۔ اسی طرح اگر طلبہ اپنے معلم پر اعتماد نہ کرتے ہوں تو نہ وہ کامیاب ہوسکتے ہیں اور نہ معلم۔
٭ طلبہ جس مدرس کو اچھا معلم دیکھتے ہیں، اسے چاہنے لگتے ہیں اور اپنے ایام شباب میں بالکل ویسا ہی بن جانے کی تمنا کرنے لگتے ہیں۔ وہ اپنے طلبہ کے سامنے سب سے بڑی اور بہترین مثال ہوتا ہے، اس کی موجودگی ان میں علم کا شوق پیدا کرتی اور اس کی قدرو قیمت بڑھاتی ہے۔
یاد رکھنا چاہیے اگر مدر س اپنے کورس پر غالب ہے، تو اس کی کامیابی یقینی ہے۔ لیکن اسے یہ بھی نہ بھولنا چاہیے کہ مدرس کو کثرتِ مطالعہ کا عادی ہونا چاہیے۔ اپنے موضوع کے علاوہ دوسرے موضوعات پر بھی اس کی اچھی نظر ہونی چاہیے۔ مدرس کا موضوع اگر جغرافیہ ہے تو اسے تاریخ داں بھی ہونا چاہیے۔ علم طبقات الارض اور نباتات میں بھی درک ہونا چاہیے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146