یہاں ان صفات اور خوبیوں کا تذکرہ مقصود ہے جو ایک کامیاب اور مثالی استاد کے اندر بکثرت پائی جانی چاہئیں، کیونکہ ان خوبیوں کو پروان چڑھائے بغیر کوئی بھی معلم نہ تو اپنے طلبہ کے دلوں میں قدرومنزلت حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی اپنے پیشہ کا حق ادا کرسکتا ہے۔
جذبۂ محبت
ایک کامیاب اور مثالی استاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے طلبہ سے اسی طرح محبت کرے جس طرح ایک باپ اپنی اولاد سے کرتا ہے، اور ان کے بارے میں اسی طرح فکر مند ہو جس طرح ایک باپ اپنی اولاد کے لیے فکر مند ہوتا ہے۔ ہر مربی اور معلم کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ وہ دوسروں کو اچھا انسان بنانے سے پہلے اپنے آپ کو ایک بہترین انسان بنائے۔ اگر ایک معلم اپنے طلبہ کو کامل بنانا چاہتا ہے تو خود بھی کامل بنے۔ اپنے طلبہ کو اعلا اخلاق کے زیور سے آراستہ کرنا چاہتا ہے تو خود بھی صاحبِ اخلاق ہو۔ اگر وہ چاہتا ہے کہ طلبہ اس کا احتراماور اس سے محبت کریں تو اسے بھی چاہیے کہ وہ اپنے طلبہ کا احترام اور ان سے محبت کرنے کے ساتھ عملی طور پر اس کا اظہار بھی کرے۔
ایک مدرس اگر اپنے فن سے پورے طور پر واقف اور علم سے آراستہ ہونے کے باوجود اس وقت تک کامیاب معلّم نہیں ہوسکتا۔ جب تک اس کا دل بچوں اور شاگردوں کی محبت سے لبریزنہ ہو۔ جو تعلیم گاہ بچوں کی محبت سے خالی ہو وہ طلبہ اور اساتذہ کے درمیان کشمکش کا اکھاڑہ بن جاتی ہے، اگر معلّمین کے دلوں میں شاگردوں کی محبت نہیں ہے تو وہ اس سے دور بھاگیں گے اور اس کے خلاف اپنے دل میں کینہ رکھیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہماری تعلیم گاہیں ایسے ماحول کی عکاس ہیں۔ابتدا میں بچے معلم سے محبت کرتے ہیں، وہ جتنے ان کے قریب آتے جاتے ہیں نفرتبڑھتی جاتی ہے۔ یہ ایک خطرناک بات ہے۔
ولایت متحدہ امریکہ کے ایک مدرسہ کا واقعہ ہے کہ ایک مدرس نے پرنسپل کو کسی طالب علم کی رپورٹ بھیجی کہ اسے اس کے درجہ سے کسی دوسرے نیچے درجے میں منتقل کردیا جائے اس لیے کہ وہ شریر ہے اور مجرمانہ ذہنیت رکھتا ہے۔ یہ لڑکا بہت بدزبان، بداخلاق تھا چونکہ پرنسپل یہاں نیا نیا آیا تھا، اس لیے وہ اس لڑکے کی خانگی حالت سے ناواقف تھا۔ اس نے لڑکے کو اپنے دفتر میں بلایا ، اور اس سے باتیں کیں، اس نے سوچا سزا دینے سے پہلے اس کے والدین سے بھی گفتگوکرلینی چاہیے، چنانچہ وہ خود اس کے گھر گیا، یہ دوکمروں پر مشتمل ایک چھوٹا سا گھر تھا۔ماں گھر میں تھی۔ پرنسپل نے اسے اپنے آنے کی وجہ بتائی اور لڑکے کی شکایت کرتے ہوئے کہا کہ اب وہ اس کا درجہ گرادے گا، اور اس پر چھڑی بھی آزمائے گا، لیکن ماں نے کوئی پرواہ نہیں کی۔ ابھی وہ واپس جانے ہی والا تھا کہ ایک بدصورت اور سخت گیر آدمی آتا ہوا دکھائی دیا۔ پرنسپل کو یقین ہوگیا یہی باپ ہے۔ اس نے اسے بھی تمام واقعہ کی خبر دے دی۔ باپ نے پرنسپل کے سامنے لڑکے کی پٹائی کی اور گالیاںدیتے ہوئے پرنسپل سے کہا کہ آئندہ آپ یہاں آنے کی تکلیف نہ کیجیے گا، آپ کو اجازت ہے جب جی چاہے اسے قتل کردیجیے۔
پرنسپل لڑکے کو اپنے ساتھ مدرسہ واپس لایا۔ یہ رنگ دیکھ کر اس کا غصہ اتر گیا اور بچہ سے محبت آمیز رویہ اپنانے کا خیال اس کے دل میں پیدا ہوگیا۔ اس طرح وہ سزا دینے کے بجائے اس سے ملاطفت کا سلوک کرنے لگا۔
مضبوط تعلق
استاد اورشاگرد کے درمیان ایک روحانی رشتہ اور تعلق ہوتا ہے جس کو مضبوط ہونا چاہیے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ ہمارے ہاں زیادہ تر اساتذہ اور طلبہ کے درمیان مار پیٹ اور سزا کا رشتہ ہے تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ استاد اپنے طلبہ کو حقارت کی نظر سے دیکھتا ہے، وہ ان سے الگ تھلگ رہتا ہے، اسے اندیشہ ہوتا ہے کہ اگر وہ ان کا جزو بن گیا تو اپنے عزت و احترام سے ہاتھ دھوبیٹھے گا، لیکن یہ بالکل مہمل خیال ہے۔ استاد اگر صحیح طور پر اپنے فرائض انجام دے تو واقعی وہ باپ کا درجہ حاصل کرسکتا ہے، اگر اس کی سزا میں بھی محبت و شفقت ہو،تو کند ذہن اورشریر سب اس کی محبت سے سیراب ہوں گے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ استاد کو مدرسہ میں باپ کاقائم مقام ہونا چاہیے، تو باپ سے ہماری مراد صرف باپ نہیں، ماں باپ دونوں ہیں۔ مدرس ماں اور باپ دونوں کی نیابت کرتا ہے۔ اس میں باپ کی سختی اور ماں کی نرمی دونوں چیزیں ہونی چاہئیں۔
بچے سے ہمارا تعلق
موجودہ دور میں ہماری سوسائٹی کا سب سے بڑا جرم یہ ہے کہ یہاں چھوٹے بچوں کے ساتھ اچھا برتاؤ نہیں کیا جاتا اور نہ ہی اس کے وقار کا احترام ہوتا ہے۔ یہ خیال عام ہوگیا ہے کہ بچہ طبعاً شریر ہوتا ہے اور اس کی شرارت صرفچھڑی ہی سے دورکی جاسکتی ہے۔ اس کے فطری میلانات،بچکانہ حرکتوں اور شرارتوں کے علاج کا واحد ذریعہ چھڑی ہے۔ اس جاہلانہ رویہ کے ساتھ بچے سے اچھے اخلاق وکردار کی توقع کرنا ناممکن ہے۔ اس پر مزیدسماجی و معاشرتی ظلم وہ ہے جو بچوں پر مختلف صورتوں میں ہوتا ہے بچپن ہی کے زمانے سے ہی کسب معیشت پر لگادیا جاتا ہے، خواہ وہ کارخانہ کی مزدوری ہو، یا کسی گھر کی ملازمت۔ کیا قوم سمجھتی ہے کہ وہ کانٹے بوئے گی اور گلاب کے پھول کاٹے گی؟ ہرگز نہیں۔ وہ وہی کاٹے گی جو بوئے گی۔
بچوں کی عدالت کے ایک امریکی جج نے ایک مقدمہ میں اپنا فیصلہ دیتے ہوئے صریح الفاظ میں اعتراف کیا تھا کہ ان جرائم کے پس پردہ بچوں کی عدم نگہداشت اور عدم تربیت ہی سب سے بڑا سبب ہے۔
اگر بچہ کی تربیت پر پوری توجہ دی جائے، اسے اچھی سوسائٹی اور گھر ملے، اس کے معاملات میں حکمت ملحوظ رکھی جائے، استاد اورشاگرد کے درمیان محبت اور شفقت کا رشتہ ہو، باپ اور بیٹے کے درمیان عمدہ برتاؤ ہو، تو ایک بگڑا ہوا بچہ بھی شریف انسان بن سکتا ہے۔
ایک کامیاب اور بہترین معلم کی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنے شاگردوں سے دور نہیں بلکہ ان کا حصہ بن کر رہتاہے۔ اگر وہ ان کے ساتھ کھیل کے میدان میں گیند کھیلے، باغ کی ترتیب و تنظیم میں ان کا ہاتھ بٹائے، غرض یہ کہ ان کے تمام کاموں میں شریک و سہیم بن جائے، تووہ بہترین استاد ہے۔ اسے یہ اندیشہ ہرگز نہیں کرنا چاہیے کہ اس طرح اس کا وقار و احترام طلبہ کے دل سے کم ہوجائے گا۔ اس لیے کہ احترام تو ایک ایسا روحانی رشتہ ہے، جو اخلاص، اتحاد، اور تعاون ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ہمیں یہ سوچنا چاہیے کہ اگر پرنسپل مدرسین سے ،کمانڈر فوج سے اوراستاد طلبہ سے بے تعلق رہے تو کیا خوش گوار نتائج مرتب ہوسکتے ہیں؟
مدرس کا نمونہ
استاد کو طلبہ کے سامنے ایک اچھا نمونہ بن کر آنا چاہیے کہ وہ اس کے علاوہ کسی اور کی طرف مائل ہی نہ ہوسکیں۔ بچہ سے بڑھ کر بہترین ناقد کوئی نہیں۔ اس کی نظریں بے لوث،اور بے غرض ہوتی ہیں۔ بچہ وہی کہتا ہے جو اس کا اعتقاد ہوتا ہے۔ عقل و شعور کے سوا اس کا کوئی دوسرا رہنما نہیں ہوتا۔ وہ آپ سے سچی محبت اور دل سے اطاعت کرے گا، جب اسے یقین ہوجائے گا کہ آپ اس کے مستحق ہیں، لیکن پہلے آپ اس کے بن جائیے، اسے حکم نہ دیجیے، سمجھائیے۔ مشہور ماہر تعلیم فروبل کا قول ہے:
’’استاد اورشاگرد کے درمیان امر و اطاعت کے سلسلہ میں ضروری ہے کہ ایک جج اور ثالث موجو ہو جو استاد اور شاگرد دونوں کے لیے یکساں کارآمد ہو۔ یہ جج یا ثالث ’’حق ‘‘ہے، یعنی عدل و انصاف جو کسی حالت میں بھی نظر انداز نہیں ہونی چاہیے۔‘‘
مدرس اور اخلاص
استاد اور اس کے شاگردوں کی کامیابی کا سب سے بڑا وسیلہ اور ذریعہ اخلاص ہے۔ اخلاص کا مطلب یہ ہے کہ استاد ہر وقت اس بات کے لیے کوشاں رہے کہ وہ کس طرح زیادہ سے زیادہ اپنے شاگردوں کو فائدہ پہنچاسکتا ہے۔ سبق پڑھانے کی تیاری نہ کرنا اور کلاس میں تعلیم دینے کے لیے پہنچ جانا اخلاص کے خلاف ہے۔ یہ وقت کی بربادی ہے جس سے طلبہ کو نقصان پہنچتا ہے۔ وقت مقررہ پر استاد اگر کلاس روم میں نہ پہنچے، تو اس سے نہ صرف یہ کہ طلبہ کو کوفت ہوتی ہے بلکہ ان میں بددلی بھی پیدا ہوتی ہے۔ مدرس کو اپنے طلبہ کے سامنے وقت کی پابندی اور اس کی حفاظت کا خاص طورپر خیال رکھنا چاہیے۔ اگر ایک استاد کلاس روم میں پانچ منٹ تاخیر سے آیا اور کلاس میں چالیس طالب علم ہیں تو گویا مدرس نے پانچ نہیں دو سو منٹ ضائع کیے۔
استاد کو یہ بھی پیش نظر رکھنا چاہیے کہ اس کا کام نامکمل نہ ہو اور وہ اپنے فرائض و واجبات میں کوتاہی کا مجرم نہ ہو۔ اس سے کلاس کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے اور درجہ کھیل کا میدان بن جاتا ہے، جہاں تعلیم کی آواز نہیں گونجتی، ہنگامہ اور شور و غل سے کان پڑی آواز نہیں سنائی دیتی، جس کا جی چاہتا ہے کھیلتا ہے۔ کتابیں ادھر ادھر بکھری پڑی ہوتی ہیں۔ طلبہ ایک دوسرے سے مذاق کرنے لگتے ہیں، جس سے مدرسہ اورکلاس کا نظم بالکل ختم ہو جاتا ہے۔
وسیع معلومات
استاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ مدرسہ کے باہر کی زندگی، سیاست، اجتماعیت، ادب، سائنس، اور دیگر فنون سے مکمل طور پر آشنا ہو تاکہ وہ اپنے طلبہ کی زندگی سنوار سکے اور انھیں آئندہ زندگی کے لیے تیار کرسکے۔ اگر وہ خود ان چیزوں سے بے بہرہ ہے، تو اپنے شاگردوں کو کیا بتائے گا؟
مدرس اگر یہ چاہتا ہے کہ طلبہ کے دلوں میں اس کی قدر و منزلت ہو تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ معاملات زندگی کارازداں ہو۔ عالموں، لیڈروں، موجدوں، سیاست دانوں، فن کاروں، ادیبوں، شاعروں ، افسانہ نویسوں اور مصوروں کے احوال و کوائف سے واقف ہو۔ ایک مدرس کے لیے اس سے بڑھ کر شرم کی کیا بات ہوسکتی ہے کہ وہ ایک ایڈیسن ، لنکن، واشنگٹن، نیوٹن، نپولین، ہینڈ نبر، کلنشو، ولسن، پڈورسکی، مارٹن لوتھر، کار لائل، ڈکسن، سر والٹر اسکاٹ، لارڈ ماکولی، صدر ہور، صدر روز ویلٹ، ریمزے، میکڈانلڈ، مصطفی کمال پاشا، گاندھی، محمد علی جناح ، چرچل، ہٹلر اور مسولینیکی زندگی اور کارناموں کے ساتھ ان عظیم تاریخی ہستیوں کی زندگی اور ان کے کارناموں سے بھی واقف ہو جو اسلام اور تاریخ اسلام کی عظیم شخصیات ہیں۔
ایک مدر س کے لیے جس طرح یہ ضروری ہے کہ بیرونی زندگی سے واقف ہو، اسی طرح اس کے لیے یہ بھی لازمی ہے کہ وہ ملک کے حالات پر بھی نظر رکھتا ہو۔ اس کی قدیم و جدید تاریخ،صنعت و تجارت اور سیاست بھی نظر سے اوجھل نہ ہو۔ اس کے لیڈر، عالم، ادیب اور شعراء بھی اس کے پیش نظر ہوں، تاکہ وہ اپنے شاگردوں کے افکار میں پختگی پیدا کرسکے۔
داخلی و خارجیمسائل کی طرح مدرس کو علمی زندگی سے بھی اپنا رشتہ مضبوط رکھنا چاہیے اور ملک و بیرونِ ملک میں ہونے والی تبدیلیوں، واقعات، ایجادات اور علمی کاوشوں سے بھی واقف ہونا چاہیے۔
معلومات میں اضافہ کا شوق
ٹریننگ کالج سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد ایک استاد یہ سمجھ لیتا ہے کہ اب اس کی تعلیمی زندگی کا دور ختم ہوگیا، حالانکہ اسے جاننا چاہیے کہ علم کی کوئی آخری حد ہے ہی نہیں، بلکہ کالج سے نکلنے کے بعد ہی اس کے لیے طالب علمی کا اصل زمانہ شروع ہوتا ہے۔ کالج تو صرف راستہ کھول دیتا ہے، اب رہروی خوداس کا کام ہے، لہٰذا ضروری ہے کہ علم اور معلومات کے حصول میں ہمیشہ آدمی لگارہے تاکہ فکر کا دروازہ بند نہ ہو۔ علم واطلاع ، بحث و تجربہ اور خبرو نظر کی طرف مسلسل بڑھنے کا سلسلہ ٹوٹنے نہ پائے۔
انگلستان کے مدرس صرف اپنی کالج کی تعلیم اور تدریسی تجربات پر ہی اکتفا نہیں کرتے بلکہ سالانہ چھٹیوں کے زمانہ میں ہر سال دو ہفتے یا ایک مہینہ کے لیے تربیتی پروگراموں میں شرکت کرکے تعلیم و تربیت پر اہم لیکچر سنتے اور اپنی معلومات بڑھاتے رہتے ہیں۔ وہ علم النفس میں مزید دسترس حاصل کرتے ہیں اور غیر ملکی زبانوں کو سیکھ کر ان کے لٹریچر سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ کتنا اچھا ہو، اگر معلمین کو زیادہ سے زیادہ کارآمد بنانے کی کوشش کی جائے۔
مدر س اگر کتب خانوں ، لائبریریوں اور عام لیکچروں سے استفادہ کا عادی ہو اور نئی نئی کتابوں کے مطالعہ کا خوگر ہو تو بھی اسے کافی فائدہ ہوسکتا ہے جس میں وہ اپنے طلبہ کو بھی خاطر خواہ شریک کرسکتا ہے۔
مدرس اور روحِ جدید
کوئی بھی استاد اس وقت تک کامیاب معلم نہیں بن سکتا جب تک وہ تعلیم وتربیت کی جدید روح اور اصول سے بھی واقف نہ ہو۔ تعلیم و تربیت کا جدید ترین نظریہ استاد کے درج ذیل مقاصد بتاتا ہے:
٭ طلبہ میں تعادن کی روح پیدا کرنا تاکہ وہ اپنے ساتھیوں اور استادوں سے تعاون کرسکیں۔
٭ تعلیم اور عمل میں ربط ۔
٭ خواہ مخواہ زجر وتوبیخ سے کام نہ لینا ۔
٭ تلمیذ کو اعتمادِ نفس کے جذبہ سے آشنا کرنا۔
ٔ٭ شاگرد کو عمل کا شوق دلانا۔
٭ تلامذہ کی طبیعتوں کو ملحوظ خاطر رکھنا۔
٭ بچوں میں تعلیم نظری و تعلیم عملی کا جذبہ پیدا کرنا۔ انھیں عملی زندگی کے لیے تیار کرنا۔ تمام چیزوں سے پہلے اسی چیز پر غور کرنا۔
معلم کی شخصیت
ایک کامیاب اور مثالی استاد بننے کے لیے سب سے اہم خوبی یہ ہے کہ استاد اپنی شخصیت کی تعمیر کس انداز میں کرتا ہے۔ تمام ماہرین علم النفس و تربیت اس خیال پر متفق ہیں کہ مدرسہ کے ماحول اور طلبہ پر معلم کی شخصیت کا گہرا اثر پڑتا ہے۔ اس لیے ایک معلم کو چاہیے کہ اپنی شخصیت کو ان خوبیوں سے آراستہ کرے جو ایک مثالی فرد کے لیے ضروری ہیں۔
پختہ عزم، وسیع علم، وقت کی پابندی، علم و عمل اور قول عمل میں یکسانیت، عقائد و افکار کی مضبوطی اور بلندی، نرمی و محبت، دین اور ملک و ملت کے ساتھ محبت و خیر خواہی کا جذبہ وہ خوبیاں ہیں جن کا اثر اس کے طلبہ پر بہت گہرا ہوتا ہے۔ لہٰذا ہر معلم کو چاہیے کہ وہ خود کو ان خوبیوں سے آراستہ کرکے طلبہ کے سامنے ایک ماڈل کی حیثیت سے پیش کرے۔