گھر ایک چھوٹی سی مملکت ہے جس کی سرحدیں میاں بیوی اور بچے ہوتے ہیں۔ میاں کی حیثیت اگر صدر کی ہے تو بیوی کو وزیر اعظم خیال کیجیے، جب کہ بچوں کا معاملہ رعایا کا سا ہے۔ اس چھوٹی سی سلطنت کی مضبوطی گھر کے تمام افراد کے درمیان مہر و محبت اور انس و پیار سے ہوتی ہے۔ اگر گھروں کے اندر یہ بات پیدا ہوجائے تو اچھی ریاست وجود میں آجاتی ہے۔ اس کا نقشہ قرآن نے اس طرح کھینچا ہے:
’’کھاؤ اپنے رب کا رزق اور شکر بجا لاؤ، مملکت ہے عمدہ اور پاکیزہ اور پروردگار ہے بخشش فرمانے والا۔‘‘
(سبا:۳۴)
کسی شخص کے حسن اخلاق کا پتا لگانا ہو تو اس کے اہل و عیال سے پوچھ لیجیے۔ اگر اہل خانہ اس کے بارے میں اچھی شہادت دیں تو یقینا وہ شخص قابل ستائش اور قابل تعریف ہے اور اس میں خلوص کا جذبہ ہے۔ اس کے برعکس جو اہل خانہ کے ساتھ ترش رو اور تلخ زبان ہے مگر دوست و احباب کے ساتھ نرم خو اور شیریں زبان ہے ایسا شخص ریاکار ہے جو محض دکھلاوے کے لیے بیرونِ خانہ اپنا بھرم قائم رکھے ہوئے ہے اور اس کا یہ بھرم کبھی بھی ٹوٹ سکتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حسن اخلاق کی بلندیوں پر فائز تھے جس کی شہادت ربِ کریم نے دی ہے۔ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم یقینا اخلاق کی بلندیوں پر فائز ہیں۔‘‘(القلم:۶۸)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے:
’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل خانہ کے ساتھ بہتر ہے اور میں تم میں سے اپنے اہل خانہ کے ساتھ سب سے بہتر ہوں۔‘‘ (صحیح ترمذی)
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے کسی شخص نے پوچھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گھر والوں میں وقت کیسے گزارتے؟ جواب دیا کہ گھر کے کام کاج میں مصروف رہتے تھے۔ کپڑوں میں اپنے ہاتھ سے پیوند لگا لیتے تھے۔ گھر میں جھاڑو دے دیتے تھے۔ دودھ دوہ لیتے تھے۔ بازار سے سودا سلف خرید لاتے تھے۔ جوتا پھٹ جاتا تو خود گانٹھ لیتے تھے۔ ڈول میں ٹانکے لگا دیتے تھے۔ اونٹ کو اپنے ہاتھ سے باندھ دیتے تھے۔ اس کے آگے چارہ ڈال دیتے۔ غلام کے ساتھ مل کر آٹا گوندھتے۔
ازواجِ مطہرات کے ساتھ خندہ پیشانی اور توجہ سے گفتگو فرماتے اور ان کی گفتگو کو بھی نہایت اطمینان سے سنتے تھے۔ ہاں موذن کی صدائے دل نواز جونہی کانوں میں پڑتی، تمام باتوں سے رخ موڑ کر رب کریم کے حضور جبین نیاز جھکانے کے لیے چلے آتے اور امہات المومنین بیان کرتے ہیں کہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یہ ہوتا، گویا ہم سے کوئی جان پہچان ہی نہیں ہے (سیرۃ النبی،ج۲، شبلی نعمانی)۔ اللہ اکبر! سچ ہے!
’’اور اہل ایمان سب سے زیادہ اللہ سے محبت رکھتے ہیں۔‘‘
غرض کہ میاں اور بیوی گھر کی چھوٹی سی مملکت کو بناتے اور سنوارتے ہیں اور ان دونوں کے تعاون سے گھر بنتا ہے یا بگڑتا ہے۔ دونوں اگر ایک دوسرے کے دست و بازو بنیں گے اور مل جل کر بچوں کی تعلیم و تربیت کریں گے تو وہ گھرانا جنت نظیر بن جائے گا اور اگر گھر میں میاں بیوی کے درمیان جھکڑا اور فساد رہے گا تو اس کا بچوں پر برا اثر پڑے گا اور وہ گھر دنیا ہی میں جہنم کا منظر پیش کرے گا۔ یاد رکھیے حسن سلوک ہو یا دعوت و تبلیغ، اس کے اولین حق دار اہل و عیال ہوتے ہیں۔ قرآن یہ اعلان کرتا ہے:
’’اے ایمان والو! بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آتش جہنم سے۔‘‘
گھر کے افراد کے مل جل کر رہنے سہنے سے ہی معاشرتی زندگی کی داغ بیل پڑتی ہے اور عقیدہ و فکر کی یکسانی سے ہی کوئی قوم وجود میں آتی ہے۔ جس طرح کسی دیوار کی تعمیر میں ہر اینٹ اہمیت رکھتی ہے، اسی طرح قوم کی تعمیر و ترقی میں ہر فرد کی حیثیت مسلم ہے اور افراد کی تعلیم و تربیت کا پہلا مرکز گھر ہے۔
اس آیت مبارکہ میں پہلے اہل ایمان سے (بڑوں کو) حکم ہوا کہ وہ احکامِ الٰہی کے پابند ہوں تاکہ چھوٹے انہیں دیکھ کر اچھائی کی پیروی کریں۔ اسلام کی تعلیمات کی یہ خوبی ہے کہ وہ ہمیشہ اچھی مثال قائم کرنے کو کہتا ہے۔ رسول اللہﷺ کو حکم ہوتا ہے کہ اپنے گھر والوںکو نماز پڑھنے کا حکم دیجیے، لیکن یہ تاکید کی جاتی ہے کہ پہلے اس پر پابند ی کیجیے:
’’اور (اے رسول صلی اللہ علیہ وسلم) اپنے گھر والوں کو نماز کی تلقین کیجیے اور خود بھی) اس کے پابند رہیے۔‘‘ (طٰہ:۱۳۲)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ بہ تمام و کمال رضائے الٰہی میں بسر ہوئی، نہ صرف اہل خانہ کے لیے بلکہ پوری امت کے لیے نمونہ ٹھہری۔ ارشادِ خدا وندی ہوتا ہے:
’’مسلمانو!) لاریب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ (تاقیامت) تمہارے لیے بہترین نمونہ ہے۔‘‘ (الاحزاب:۲۱)
پس اخلاقی تربیت کا سب سے پہلا میدان گھر ہے اور بیوی بچوں سے تربیت کا آغاز ہوتا ہے اور یہ تربیت صرف اسی وقت کامیاب ہوسکتی ہے جب سرپرست اور والدین کی اپنی زندگیاں سیرت و کردار کے سانچے میں ڈھلی ہوں۔ جس طرح نرسری کا مالی پودوں کی رکھوالی اور نگہ داشت کرتا ہے اور اس کے پودے مضبوط اور تناور درخت بن جاتے ہیں، اسی طرح والدین کی پاکیزہ اور صحیح خطوط پر تربیت سے بچے سچے کھرے مسلمان اور ذمہ دار شہری بن سکتے ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ اسکول اور کالج کا ماحول اور اساتذۂ کرام کی تعلیم و تربیت کا بھی بچوں کے تشکیل کردار اور تعمیر اخلاق میں بڑا ہاتھ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ تدریسی اور تعلیمی نصاب بھی بڑا اہم رول ادا کرتا ہے، نیز گلی کوچے کا ماحول بھی اس تربیت کا حصہ بن جاتا ہے مگر والدین کا کردار اور گھر کا ماحول ان سب میں کلیدی اور اہم ہے۔ اس لیے آئیے ہم سب مل کر اپنے گھروں کو مثالی گھر بنائیں اور اپنی آل اولاد اور اپنے چہیتوں کو جہنم کی آگ سے بچانے کی فکر کریں۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:
’’کوئی باپ اپنے بچے کو اس سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا کہ وہ اس کو اچھی تعلیم دے۔‘‘lll