بات گزشتہ یعنی بیسویں صدی کے تیسرے عشرے کی ہے۔ مصر کے ایک زراعتی کالج میں ایک طالب علم نیا نیا آیا تھا۔ تعلیم کے دوران نماز کا وقت آیا تو وہ ایسی جگہ تلاش کرنے لگا جہاں نماز پڑھنے کا اہتمام ہوتا ہو۔پوچھنے پر اسے لوگوں نے بتایا کہ کالج کے اندر نماز کے لیے مخصوص کوئی جگہ نہیں ہے۔البتہ ایک چھوٹا سا کمرہ(تہہ خانہ) ہے جہاں نماز پڑھی جاسکتی ہے۔ لڑکا وہاں گیا لیکن اسے اس بات پر بہت حیرت تھی کہ کالج کے طلبہ نماز کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے۔ سوچنے لگا کہ طلبہ نماز پڑھتے بھی ہیں یا نہیں؟ بہر حال وہ اندر داخل ہوا تو وہاں اسے ایک پھٹی ہوئی پرانی سی چٹائی نظر آئی۔ کمرہ بھی بہت گندہ اور بے ترتیب سا تھا۔اس کمرے کے اندر ایک ملاز م تھا جو وہاں نماز پڑھتا تھا۔ طالب علم نے اس سے پوچھا : ’’کیا تم یہیں نماز پڑھتے ہو؟‘‘ ملازم نے کہا: ’’ہاں، یہاں میرے علاوہ کوئی اور نماز نہیں پڑھتا اور نہ ہی اس کمرے کے علاوہ کوئی اور جگہ ایسی ہے جہاں نماز پڑھی جاسکے۔
لیکن طالب علم نے کہا کہ میں توزمین کے نیچے اس بیسمینٹ میں نماز نہیں پڑھوں گا۔ وہ اس تہہ خانے سے باہر نکل آیااور کالج کے اندر ایسی جگہ تلاش کرنے لگا جو بہت معروف اور نمایاں ہو۔ ایسی جگہ تلاش کرلینے کے بعد اس نے ایک عجیب حرکت یہ کی کہ وہ اس جگہ کھڑا ہو اور بلند آواز سے اذان دینے لگا۔
اچانک اس عجیب حرکت پر سب لوگ متوجہ ہوگئے اور ہنس کر اس کا مذاق اڑانے لگے ، ہاتھ کے اشاروں سے اسے پاگل اور نہ جانے کیا کیا کہنے لگے۔لیکن اس نے کسی کی کوئی پروا نہیں کی۔اذان دینے کے بعد وہ تھوڑی دیر بیٹھا رہا اس کے بعد کھڑا ہوا ، اقامت کہی اورتنہا ہی نماز پڑھنی شروع کردی۔ایک دن گزرا، دو دن گزرے اسی طرح کئی دن گزر گئے لیکن نہ تو اس کے معمول میں کوئی تبدیلی آئی اور نہ ہی کالج کے حالات میں کوئی تغیرہوا۔شروع میں تو لوگ اس پر ہنستے تھے لیکن پھر جب اس کی حرکت کے عادی ہوگئے تو اس پر ہنسنا بھی چھوڑ دیا بس اسے دیکھ کر گزر جاتے۔ ایک عرصے تک ایسے ہی چلتا رہا۔ اس کے بعد حالات میں تھوڑاسا تغیر ہوا۔وہ ملازم جو بیسمنٹ کے اندر نماز پرھتا تھا وہ بھی اسی کے ساتھ آکر نماز پڑھنے لگا۔اس طرح ایک سے دو نمازی ہوگئے کچھ دنوں کے بعد ان کی تعداد چار ہوگئی اور پھر ایک دن ایک استاد بھی ان کے ساتھ نماز میں شریک ہوگئے۔
اس موضوع پردوبارہ لوگوں کے درمیان گفتگو ہونے لگی ۔ کالج کے ہر کونے میں اس کا چرچا ہونے لگا۔ اب کالج کے پرنسپل کے لیے بھی یہ ضروری ہوگیا کہ وہ اس طالب علم کو بلا کر اس سے بات کرے۔ چنانچہ اس نے اسے اپنے آفس میں بلایا اور کہا:’’جو کچھ ہورہا ہے یہ صحیح نہیں ہے۔ تم لوگ کالج کے بالکل بیچوبیچ نماز پڑھتے ہو یہ دست نہیں ہے۔ہم تم لوگوں کے لیے ایک چھوٹی سے مسجد بنوا دیتے ہیں جو صاف ستھری رکھی جائے گی اور اس میں تمام ضروریات کا سامان بھی ہوگا ۔ نماز کے وقت جس کو ضرورت ہوگی وہاں جاکر نماز پڑھا لیا کرے گا۔اس طرح مصر کے کسی یونیورسٹی کالج میں سب سے پہلی مسجد عالم وجود میں آگئی۔لیکن معاملہ یہیں آکر نہیں ٹھہر گیا ۔ دوسرے کالجوں کے طلبہ نے جب ایسا ہوتے دیکھا تو ان کی غیرت نے ان کو للکارا اور اس طرح ان لوگوں نے بھی اپنے اپنے کالج میں مسجدیں بنوالیں۔
اس طالب علم نے ایک مثبت قدم اٹھایا اور اس کا اتنا بڑا نتیجہ سامنے آیا کہ ہر کالج میں ایک مسجد بن گئی۔ یہ شخص —خواہ بقید حیات ہو یا اللہ کے پاس پہنچ گیا ہو —اسے ہر مسجد کی تعمیر کا ثواب اور اس میں جتنا بھی اللہ کا ذکر ہوتا ہے ان سب کاثواب لازما ًمل رہا ہوگا۔(علی الحمّادی :المجتمع، ترجمہ تنویر آفاقی)
——