مجبوری

عمارہ حجاب

’’لے بھئی اب تو پہنچ گئے کالج!‘‘ میں ٹریفک کانسٹیبل کااشارہ دیکھ چکا تھا جو اس نے بس ڈرائیور کو بس روکنے کے لیے کیا تھا۔
’’یار اس انڈے کو بھی ہماری ہی بس کو روکنا تھا۔‘‘ میرا قریبی دوست فیصل بھی جھنجھلا کر بولا۔ ہم دونوں تعلیمی سفر میں ایک دوسرے کے بہت پرانے ساتھی تھے۔ آج گھر سے نکلتے نکلتے ویسے ہی دیر ہوگئی تھی اور اب یہ ستم ہوگیا۔
’’سرندیم تو آج داخل ہی نہیں ہونے دیں گے لیکچر ہال میں۔‘‘ فیصل نے اندیشہ ظاہر کیا۔
’’یار پیسے تو ہر حال میں دینے ہی ہیں اس کانسٹیبل کو، پھر یہ بس والے جھگڑا کیوں کرتے ہیں۔ دس بیس روپے دیں، جان چھڑائیں۔‘‘
اکثر بس والے یہ خدمت فرض سمجھتے ہوئے انجام دیتے تھے۔ البتہ کچھ جھگڑالو بس والے پس و پیش سے کام لیتے، لیکن آخر کار انہیں بھی یہ ’’خطیر‘‘ رقم بطورِ نذرانہ پیش کرنی ہی پڑتی۔’’چل منظورے دے دے ان کمینوں کا پیٹ ہی نہیں بھرتا۔‘‘ بس ڈرائیور نے آخر کار ہار مان لی تھی۔ کانسٹیبل صاحب کو جیسے ہی رقم ملی انھوں نے بس کو جانے کی اجازت دے دی۔ بس جیسے ہی کانسٹیبل کی سماعت کی حدود سے نکلی تو مسافروں نے کانسٹیبل کی شان میں نہایت حسین الفاظ ادا کیے جنہیں اگر کانسٹیبل سن لیتا توبس سمیت ہر مسافر کا چالان کردیتا۔
’’روکنا بھائی۔‘‘ آخر کار ہم کالج پہنچ ہی گئے۔ میںنے اپنی گھڑی پر نظر ڈالی تو سوئیاں نو بجا رہی تھیں۔ یعنی ہم پورا آدھا گھنٹہ لیٹ ہوچکے تھے۔
’’یار علی! یا حفیظ کا دم کرلے اپنے اور میرے دونوں کے اوپر۔‘‘ فیصل نے مجھ سے کہا۔ اور ہم نے ڈرتے ڈرتے لیکچر ہال میں قدم رکھا تو توقع کے عین مطابق سر ندیم پڑھاتے پڑھاتے رک گئے اور انھوں نے دیر سے آنے کی وجہ سے دریافت کی۔ ابھی میں کچھ سوچ ہی رہا تھا کہ فیصل بول پڑا:
’’سر بس کو ٹریفک پولیس نے روک لیا تھا۔‘‘
’’اچھا بیٹھئے لیکن آئندہ خیال رکھیے گا۔ میری کلاس کے کچھ اصول ہیں اور میں اپنے اسٹوڈینٹس سے یہی توقع کروں گا کہ وہ ان اصولوں کی پابندی کریں۔
ہاں تو، میں آپ کو بتارہا تھا کہ سرسید کی کامیابی میں بڑا حصہ ان کے مخلص حلقہ احباب کا ہے، جنہیں ہم دبستانِ سرسید کے نام سے جانتے ہیں۔‘‘
میں کینٹین کی میز پر بیٹھا طبلہ بجارہا تھا اور فیصل چائے لینے گیاتھا۔ گھر سے بھر پور ناشتہ کرکے آنے کے باوجود یہاں کی چائے پینا ہم تینوں کے لیے لازمی تھا۔
’’تو تم لوگوں کے دیر سے آنے کی وجہ کیا تھی؟‘‘ طلحہ ابھی تک اس معاملے میں الجھا ہوا تھا۔
’’ارے بھائی یہ فیصل صاحب ہیں، ان کے ساتھ کہیں بھی جانے کا مطلب ہے دیر سے پہنچنا، پہلے نواب صاحب کے گھر جاکے ان کو اٹھانا پڑتا ہے۔ کیونکہ گھر والوں سے تو یہ اٹھتے نہیں ہیں۔ پھر یہ تیار ہوتے ہیں۔‘‘
’’جناب سارا قصور میرا نہیں ہے، آٹھ بج کر دس منٹ پر ہم بس میں بیٹھ چکے تھے اور پونے نو تک کالج بھی پہنچ جاتے اگر پہلے وہ ٹریفک جام نہ ہوتا اور پھر وہ انڈا ہماری بس کو نہ ر وکتا۔‘‘
فیصل ٹریفک کانسٹیبل کو ہمیشہ انڈا کہہ کر پکارتا تھا۔
’’یہ انڈا کون ہے؟‘‘ طلحہ نے تعجب سے پوچھا۔ طلحہ بے چارا حصولِ علم کے لیے پچھلے سال ہی سعودی عرب سے آیا تھا، اس لیے ہماری اصطلاحات سے ناواقف تھا۔ آئے دن ہم اس کے ذخیرئہ الفاظ میں اضافہ کرتے رہتے تھے۔
’’ٹریفک کانسٹیبل کو کہتے ہیں انڈا۔‘‘ فیصل نے انڈے پر زور دیتے ہوئے کہا۔
’’دیکھا تھا اس کے چہرے پر کیسی پھٹکار برس رہی تھی۔‘‘
’’یار سارا دن حرام مال کھائیں گے تو یہ تو ہوگا نا۔‘‘
’’لیکن وہ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ مطلب یہ کہ کیا ان کو مناسب تنخواہ نہیں ملتی؟‘‘ طلحہ نے حیرانی سے پوچھا۔
’’یار ملتی ہے یا نہیں، حرام تو حرام ہے نا!‘‘ میں نے غصے سے کہا۔
’’کتنی تنخواہ ملتی ہوگی ان کو؟‘‘ طلحہ نے ایک اور سوال پوچھا۔
’’یہی کوئی دس پندرہ ہزار۔‘‘ فیصل نے جواب دیا۔
’’یہ تو بہت کم ہیں۔ مجھے یہاں رہتے ہوئے چھے مہینے ہوگئے اور ہر مہینے تقریباً میں آٹھ دس ہزار روپے خرچ کردیتا ہوں۔‘‘ طلحہ سوچتے ہوئے بولا۔
’’یار لیکن یہ بھی تو سوچو کہ رشوت لینا کتنا بڑا گناہ ہے۔‘‘ میں نے دلیل پیش کی۔
’’میرا خیال ہے کہ یہ ان کی مجبوری ہے۔ وہ اگر رشوت نہ لیں تو کیا کریں؟‘‘ طلحہ پتہ نہیں کیوں اس ٹریفک کانسٹیبل کی حمایت کیے جارہا تھا۔
’’بھئی میں تو کہتا ہوں کہ حرام لینے سے بہتر ہے انسان بھوکا مرجائے اور رشوت، یہ تو آگ ہے آگ! لینا بھی اور دینا بھی!‘‘
’’ارے یار علی! فارم جمع کرانے کا ٹائم ختم ہونے والا ہے۔ ہم نے ابھی تک فارم جمع نہیں کرایا ہے۔‘‘ فیصل کو اچانک یاد آیا۔
’’طلحہ تم ان سموسوں پر ذرا ہاتھ صاف کرو ہم ابھی فارم جمع کراکے آتے ہیں۔
چیتے کی رفتار سے جب ہم بھاگتے دوڑتے کاؤنٹر تک پہنچے تو پورا ایک بج رہا تھا یعنی ٹائم ختم ہوگیا تھا۔ ’’کیا کریں یار اب!‘‘ میں نے فکر مندی سے کہا۔
’’یار اس کلرک سے بات کرکے دیکھتے ہیں۔‘‘ فیصل نے مشورہ دیا۔
’’بھائی صاحب یہ فارم جمع کرلیں گے آپ دو؟‘‘ میں نے بڑے عاجزانہ لہجے میں سامنے بیٹھے کلرک سے کہا۔ اس نے پہلے تو اشارے سے منع کردیا۔ میں نے پھر گزارش کی تو اس نے منہ سے پان کی پیک تھوکی، پھر مجھے قریب بلا کر کہنے لگا: ’’استاد ٹائم تو ختم ہوگیا فارم جمع کرانے کا۔ ابھی جمع ہوسکتا ہے اگر تم کچھ سوچوتو۔‘‘میں اس کا اشارہ سمجھ چکا تھا۔ میں نے جیب سے پچاس کا نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔ ’’بڑی مہربان ہوگی سر آپ کی۔‘‘
فیصل نے حیرانی سے میری طرف دیکھا۔
’’یار کیا کریں مجبوری ہے!!‘‘
کلرک نے فارم جمع کرکے رسید ہمیں دے دی۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146