مجھے تم سے محبت ہے

ڈاکٹر سمیر یونس ترجمہ: تنویر آفاقی

’’ میرے شوہر مجھ سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔اور میں یقین کے ساتھ یہ بات کہہ سکتی ہوں کہ وہ مجھ سے محبت کرتے ہیں لیکن زبان سے شاذ ونادر ہی اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں۔اکثر ان کی زبان سے کچھ اگلوانے کی کوشش بھی کرتی ہوں تاکہ مجھے معلوم ہو سکے کہ وہ مجھ سے کتنی محبت کرتے ہیں ۔ لیکن وہ میری ایسی کسی بات کا جواب نہیں دیتے، بلکہ خاموشی اختیار کر لیتے ہیںیا کچھ اس طرح کی بات کہہ کر ٹال دیتے ہیں جس سے مجھے اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ میرے سوال کا جواب دینے سے کترا رہے ہیں۔ان کا یہی رویہ ہے جس سے مجھے بڑی پریشانی ہوتی ہے۔میں چاہتی ہوں کہ آپ اس سلسلے میں صحیح صورت حال کو واضح فرمائیں ۔ اس کی ضرورت اس لیے بھی ہے کیوں کہ میری بعض شادی شدہ دوست بھی ہیں جو اسی طرح کے مسئلے سے دوچار ہیں۔‘‘
بیشتر مردوں کا حال یہ ہے کہ انھوں نے اس مسئلے کو غیر درست طور پر سمجھا ہے اور اس کی اس تاویل کر لی ہے جو صحیح نہیں ہے۔ مثلاً بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ(اپنی بیوی کے لیے)محبت بھرے کلمات ، محبت آمیز فقرے صرف نوجوانوں کے لیے مناسب ہیں۔البتہ جو لوگ جوانی کی عمر سے گزر چکے ہیںان کے لیے ایسے جملے یا کلمات کا استعمال درست یا مناسب نہیں ہے۔اسی طرح بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مرد کی مردانگی اس میں ہے کہ وہ گھر کے اندر سنجیدہ (Serious) بن کر رہے۔بعض لوگوں کو یہ اندیشہ رہتا ہے کہ اگر وہ اپنی بیوی سے محبت کا اظہار لفظوں میں کر دیں گے تو وہ ان کے سر پر سوار ہو جائے گی اور مرد کی حیثیت سے جو قوامیت انھیں حاصل ہے وہ عورت (بیوی) کو حاصل ہو جائے گی۔حالانکہ یہ انداز فکر انتہائی عجیب ہے۔
ایسے تمام لوگوں کی باتوں کا جواب دینے کے لیے میں ان سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ پیارے رسول ﷺ کی سیرت میں جھانکنے کی کوشش کریں، جن کا سر رشتہ آسمان سے جڑا ہوا تھا اور جنھوں نے پوری دنیا کا غم اپنے دل میں بٹھا رکھا تھا۔لیکن اس کے باوجود آپؐ اپنی بیویوں سے محبت اور لطافت سے پیش آتے تھے اور انھیں محبت اور پیار بھرے کلمات سے نوازتے رہتے تھے۔
کیا اللہ کے رسول ﷺ کی سیرت کا یہ پہلو جان لینے کے بعد بھی کسی کے لیے یہ ممکن ہے کہ دنیا داری کے بوجھ اور غم روز گار ، اور اپنے اوپر عائد ذمہ داریوں کی وجہ سے اپنے آپ کو بس ان بکھیڑوںمیں گرفتار کیے رہے اوراپنی بیوی سے بات کرنے کے لیے بھی وقت نہ نکال پائے؟
کیا یہ حضرات اس سوال کا کوئی اطمینان بخش جواب دے سکتے ہیں کہ ان کے کاندھوں پر اس سے بھی بڑی ذمہ داریاں ہیں جتنی کہ اللہ کے رسول ﷺ کے کاندھوں پر تھیں؟! اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں تعلیم یہ دی ہے کہ ہم اپنے کاموں اور دلچسپیوں میں توازن پیدا کریں، اور ہر صاحب حق کو اس کا حق دیں۔ایک بار حضرت سلمان فارسیؓ نے حضرت ابوالدرداء ؓ سے کہا کہ ’’تمھارے رب کا تم پر حق ہے اور تمھارے اہل خانہ کا تم پر حق ہے، اس لیے ہر صاحب کو اس کا حق ادا کرو۔‘‘یہ بات اللہ کے رسولﷺ کو معلوم ہوئی تو آپؐ نے فرمایا: ’’سلمان نے سچ کہا۔‘‘(بخاری)
حضرت سلمانؓ والی مذکورہ حدیث کی رو سے شوہر پر اس کی بیوی کا حق ہے۔مرد پر بیوی کا جہاں یہ حق ہے کہ وہ اسے کھانا، پینا، کپڑا فراہم کرے ، اس کی ضرورتوں پر خرچ کرے اور حسب استطاعت اس کے ہاتھ میں آمدنی کا کچھ حصہ بھی دے، وہیں شوہر کے دل پر بھی اس کا یہ حق ہے کہ اس دل میں اس کے لیے جگہ ہو، کان پر اس کا حق ہے کہ آپ کے کان اس کی بات توجہ سے سننے کے لیے تیار ہوں، خواہ وہ بات آپ کی دلچسپی کی نہ ہو، شوہر کی زبان پر اس کا یہ حق ہے کہ وہ اس زبان سے ا س کے لیے اچھے فقرے اور کلمات نکلیں، اور اس کے ساتھ گفتگو میں اپنی زبان سے شریک رہے۔ یہ اس کا حق ہے کہ شوہر اسے لطیف وشیریں الفاظ سے پکارے، اور ایسی رومانی باتیں کرے، جس سے بیوی کا دل خوش ہو جائے۔بیویوں کے تعلق سے شوہروں کی خشک مزاجی نے بڑے حادثات اور سنگین صورت حال کو جنم دیا ہے۔اس کا سب سے خطرناک نتیجہ یہ ہے کہ عورت کے اندر جذباتی و رومانی خلا پیدا ہو جاتا ہے۔بعض اوقات یہ خلا —اگر عورت اپنے رب سے ڈرنے والی نہیں ہے —اسے اپنی جذباتی آسودگی کے لیے ناجائز طریقے اختیار کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔کیوں کہ اسے اس بات کا احساس رہتا ہے کہ شوہر اس سے محبت نہیں کرتا۔ہم اگر اخبارات اور سماجی مسائل پر سروے کرنے والے مراکز کی رپورٹوں کا مطالعہ کریں تو ازدواجی معاملات میں خیانت کی سنگینی کا اندازہ ہو جائے گا۔
اپنے اس کالم کے ذریعے میں تمام شادی شدہ مردوں سے مخاطب ہوں، اس لیے میں ان سے کہنا چاہتا ہوں کہ ’’آپ اپنی بیوی کو آسودہ و سیراب کریں، وہ آپ کی نظر لطافت ومحبت کی مشتاق ہے۔اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ اللہ کے یہاں اپنی بیوی کے حق میں ظالم قرار پائیں گے۔کیوں کہ آپ نے اس کا ایک حق سلب کر کے رکھا ہے۔‘‘
اسی طرح شادی شدہ عورتوں سے بھی میں یہ کہوں گا کہ ’’آپ اپنی زندگی محض اپنے شوہر کے پاس نہیں، بلکہ اس کے ساتھ رہ کر گزاریے، اس کے ساتھ اس طرح زندگی گزاریے کہ آپ اس کا سہارا بنیں، اسے آپ سے حوصلہ ملے، اس کی کمیوں یا خامیوں پر صبر کریں، اس کے ساتھ اس طرح زندگی مت گزاریے کہ آپ محض ایک بے روح جسم نظر آئیں کہ وہ آپ کو(سر کی آنکھوں سے) دیکھ تو سکے لیکن (دل سے )آپ کو محسوس نہ کر سکے۔ اس کے ساتھ زندگی گزارنی ہے تو اس کے لیے خود کو آراستہ کیجیے اور محبت کی باتیں کیجیے تاکہ آپ کو دیکھ کر اس کی آنکھوں کو ڈھنڈک ملے، اس کی رائے میں خود کو شریک کریں، اس کے غموں کے بوجھ کو ہلکا کرنے کی کوشش کریں، آپ اپنے شوہر کے لیے دوست بن کر رہیں۔ محبت کے لیے ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے مشتاق ہوں، اور اشتیاق کے لیے ضروری ہے کہ دونوں کے درمیان انسیت ہو، جس کے اندر شوق اور انسیت نہ ہو وہ محبت کرنے والا نہیں سکتا۔
عزیز شوہر! آپ یہ بات جان رکھیے کہ ہر عورت کی ایک خاص کنجی ہوتی ہے اور اسی کنجی کی مدد سے آپ اس کے دل میں راہ پا سکتے ہیں، اس کے اندر اپنی جگہ بنا سکتے ہیں۔ بعض عورتوں کو یہ پسند آتا ہے کہ ان کاشوہر انھیں تحائف لا کر دے، بعض یہ چاہتی ہیں کہ ان سے اچھی اچھی باتیں کی جائیں۔کوئی عورت یہ پسند کرتی ہے کہ اس سے محبت اور دل لگی کی باتیں کی جائیں، کوئی یہ چاہتی ہے کہ اس سے سرگوشی کے انداز میں محبت کا اظہار کیا جائے، کسی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کا شوہر شاعرانہ انداز میں اس سے رومانی باتیں کرے۔ گویا محبت اور انداز محبت کے تعلق سے ہر عورت کا تصور الگ ہوتا ہے۔
اگر آپ اس بات کا ادراک کر لیں کہ آپ کی بیوی کے نزدیک محبت کا تصور کیا ہے تو یہ چیز بیوی کے تئیں محبت کے اظہار میں آ پ کے لیے بڑی کارآمد ہوگی۔ مثلاً اگر آپ کچن میں بیوی کا ہاتھ بٹاتے ہیں تو وہ بھی آپ کی طرف سے تحفے میں لائے ہوئے سوٹ کو بڑے شوق سے پہن کر آپ کے سامنے آئے گی۔
اسلامی شریعت نے اس بات پر ابھارا ہے کہ آپ جس سے محبت کرتے ہیں، اس کے سامنے اس کا اظہار بھی کریں۔طریقہ یہ ہے کہ مرد اپنی بیوی سے اپنی محبت کااظہار کرے۔ چنانچہ اللہ کے رسول ﷺ کی مثال سامنے ہے۔ آپ کے سامنے جب کعب بن زہیر نے اپنا مشہور قصیدہ ’’بانت سعاد‘‘ سنایا تو اس کا آغاز غزلیہ اشعار سے کیا ۔ اور آپؐ نے ان کو ایسے اشعار پڑھنے سے منع نہیں کیا۔
یہ بھی روایت آتی ہے کہ جب کعب ابن زہیر نے مذکورہ بالا قصیدہ سنایا تو آپؐ نے ان کو اپنی چادر تحفے میں عطا کی۔
زوجین کا آپس میں ایک دوسرے کے لیے محبت کا اظہار کرنا خوشحال ازدواجی زندگی کے تقاضوں میں سے ایک ہے۔اس سے ازدواجی زندگی میں تازگی آتی ہے۔ محبت کا اظہار شجرمحبت کو سیراب کرنے جیسا ہے۔اس سے جذبات کے سوتے خشک ہونے سے محفوظ رہتے ہیں۔
بیوی سے محبت کا اظہار کیسے کریں؟
زوجین کے درمیان محبت کے اظہار کے ذرائع بہت سارے ہیں۔ جن میں اہم ترین یہ ہیں: ایک دوسرے کے لیے اخلاص، اپنے شریک حیات کے لیے شوق کا اظہار، ایک دوسرے کے جذبات و شخصیت کا احترام، ایک دوسرے پر توجہ دینا، باہم خطوط کا تبادلہ، آپس میں ایک دوسرے کو تحفے دینا، ایک دوسرے کو سمجھنا اور باہم جڑے رہنا، دونوںکا ایک دوسرے کی خوشیوں کا خیال رکھنا اور زبان سے ایک دوسرے کے کے سامنے اپنے جذبات کا اظہار کرنا۔
اظہار محبت کے وسائل خواہ کتنے ہی ہوں لیکن زبان سے کیے جانے والے اظہار کا اثر ہمیشہ باقی رہتا ہے۔یہ سب سے کامیاب، سب سے بہتر اور دل وجذبات تک رسائی کے اعتبار سے سب مختصر ذریعہ ہے۔ اللہ کے رسول ﷺ نے یہ ہدایت فرمائی ہے کہ ’’جب تم میں سے کوئی اپنے ساتھی سے محبت کرے تو وہ اس کے گھر جائے اور اس سے اپنی محبت کا اظہار کرے۔‘‘(احمد)عام انسانوں کے لیے آپؐ کی یہ ہدایت ہے تو اندازہ لگا لیجیے کہ زوجین کی باہمی محبت کیسی ہونی چاہیے۔اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا: ’’تم لوگوں میں بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی بچوں کے لیے بہتر ہے اور میں اپنی بیوی بچوں کے لیے تم سب میں بہتر ہوں۔‘‘(ترمذی)
قرآن کریم نے اسی محبت کے رشتے کو اس طرح واضح کیا ہے:
وَمِنْ اٰیٰتِہٖٓ اَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِّنْ اَنْفُسِکُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْکُنُوْٓا اِلَیْھَا وَجَعَلَ بَیْنَکُمْ مَّوَدَّۃً وَّرَحْمَۃً اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْن (الروم: ۲۱)
’’اس کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ اس نے تم ہی میں سے تمھارے لیے جوڑے بنائے تاکہ تم ان سے سکون حاصل کرو، اور تمھارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کی۔ اس میں نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں۔‘‘
اللہ کے رسول ﷺ کا یہ واقعہ ملاحظہ فرمائیے کہ آپؐ اپنے اصحاب کرامؓ کی موجودگی میں حضرت عائشہؓ سے اپنی محبت کا اظہار فرماتے ہیں۔عمرو بن عاصؓ سے روایت ہے کہ وہ اللہ کے رسولﷺ کے پاس آئے اور آپؐ سے پوچھا: لوگوں میں آپ کو سب سے زیادہ محبوب کون ہے؟ ‘‘ آپؐ نے جواب میں فرمایا: ’’عائشہ۔‘‘انھوں نے پھر پوچھا: ’’مردوں میں آپ کو سب سے زیادہ کون محبوب ہے؟ آپ ؐ نے فرمایا: ’’عائشہ کے والد‘‘ میں نے پھر پوچھا ، ان کے بعد؟ آپؐ نے فرمایا ’’عمرؓ ‘‘ اس کے بعد آپؐ نے کچھ اور لوگوں کے نام گنوائے۔ لیکن میں نے پھر اس ڈر سے سوال نہیں کیا کہ کہیں میرا نمبر سب سے آخر میں نہ ہو۔‘‘(بخاری، مسلم، احمد)
بیوی کو اپنی محبت کا احساس کس طرح دلائیں؟
۱- سچے دل سے اس کے سامنے محبت کی باتیں کریں۔مثلاً ’’مجھے تم سے محبت ہے’، میں تمھیں چاہتا ہوں، ’ تم ہی میری زندگی ہو‘،’ تم میری زندگی کا خواب ہو‘، وغیرہ۔کوشش کیجیے کہ محبت کے اظہار کے لیے اچھے سے اچھے الفاظ آپ کے پاس ہوں۔اس قبیل کے اشعار بھی یاد کر لیجیے۔کسی عرب شاعر نے محبت کا اظہار اس طرح کیا ہے: ’’مجھے تم سے محبت ہے، اس کے چار گواہ میرے پاس ہیں۔ ایک میرے دل کی بے چینی، دوسرے میرے جذبات کا اضطراب ، تیسرے تمھاری یاد میں میرے جسم کا گھلنا اور چوتھے یہ کہ میری زبان گنگ ہو گئی ہے۔‘‘
۲- نرمی ولطافت سے اس کے ساتھ پیش آئیں، بیوی کے تئیں محبت وشفقت کا شوق اپنے اندر پیدا کریں اور جب اس سے باتیں کریں تو اس کے محاسن کو بیان کریں۔
۳- دفتر میں فرصت کے اوقات میں بیوی کو فون کیجیے اور اس کے لیے اپنے اشتیاق کا اظہار کیجیے۔
۴- بیوی کے خاص ایام ، مثلاً ایام حیض، کے دوران اس کی نفسیاتی حالت و پریشانی کا خیال رکھیے۔ اس کے اہل خانہ میں سے کسی کی وفات ہو جائے، یا اس کی بہت قریبی سہیلی گزر جائے، یا وہ خود بیمار ہوجائے تو اس کی نفسیاتی حالت کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کے دکھ درد میں خود کو شریک کیجیے۔
۵- بیوی کو ایسے ناموں سے پکاریں جو اسے پسند ہوں یا جنھیں سن کر اسے اچھا لگے۔اس سلسلے میں اللہ کے رسولﷺ کے اسوہ کی زیادہ سے زیادہ پیروی کریں۔
۶- اس کے اہل خانہ اور جان پہچان کے لوگوں کے درمیان اس کی تعریف کریں۔
۷- لباس یا زیب وزینت میں اس کی تبدیلی کو محسوس کر یں اور اس کی تعریف کریں۔
۸- معمولی غلطیوںکو نظر انداز کر کے درگزر سے کام لیں۔ہم میں کا ہر شخص غلطیوں کا پُتلا ہے۔بار بار موقع بہ موقع اس کی کسی غلطی کا ذکر نہ کرتے رہیں۔
۹- دفتر کو جاتے وقت اور اسی طرح واپسی پر اس کا بوسہ لیں۔اس سے معلوم کریں کہ کوئی ضرورت تو نہیں ہے ، اور اس بات کا اظہار کریں کہ اگر کوئی ضرورت ہو تو لائو پوری کردوں۔
۱۰- بیوی کے لیے سخاوت کا مظاہرہ کیجیے، ایسا نہ ہو کہ آپ مال یا لباس یا حسب ضرورت کسی چیز کا مطالبہ کرے تو اس کی تکمیل میں بخل سے کام لیں۔
۱۱- جب آپ کی بیوی آپ سے بات کرے تو اس کی بات کو توجہ اور اہتمام سے سنیں، ساتھ میں محبت بھری نگاہوں سے اسے دیکھتے بھی رہیں۔
۱۲- کوشش کریں کہ آپ ہمیشہ اس کے لیے نرم خو و نرم دل ثابت ہوں۔
۱۳- بیوی کے لیے خود کو آراستہ کریں۔ اس کے ساتھ ایسے بن کر رہیں جیسا آپ اس کو اپنے ساتھ بنا کر رکھنا چاہتے ہیں۔
۱۴- جب تک وہ بھی آپ کے ساتھ دسترخوان پر نہ ہو، کھانا نہ کھائیں اور اپنے ہاتھ سے اسے کھانا کھلائیں۔
۱۵- آپ کی بیوی آپ کے لیے کوئی تحفہ لائے تو اسے شکریے کے ساتھ قبول کریں اور خوشی کا اظہار کریں۔
۱۶- اپنے فیصلوں اور ارادوں کے سلسلے میں اس سے مشورہ لیا کریں۔
۱۷- سفر سے آتے وقت، کوئی تحفہ لائیں یا بیوی کے ساتھ کہیں سفر کا پروگرام بنے تو ایسے مواقع پر اسے سرپرائز دیں۔
۱۸- بیوی کے لیے کوئی نہ کوئی تحفہ لاتے رہیں خواہ کوئی معمولی چیز ہی کیوں نہ ہو۔
۱۹- اگر وہ کوئی درست بات کہے تو اسے ضرور تسلیم کیجیے اور اگر اس کی رائے آپ کو پسند نہ آئے تو اسے حماقت یا جہالت سے متّصف کرکے رسوا نہ کریں۔
۲۰- بیوی کے تعلق سے اپنی غیرت اور اس کے سلسلے میں اپنی فکر مندی کا اظہار کرتے رہیں۔
——

 

 

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں