مجھے طلاق نہیں چاہیے!

کیتھی ڈیلاس /سید عاصم محمود

اخبار سے کافی فروخت کرنے والی دکان کا کوپن کاٹ کر میں نے جیب میں رکھ لیا۔ اس کا مطلب تھا نصف ڈالر کی بچت یعنی میری جمع پونجی میں تھوڑا سا اضافہ۔ لیکن اسے آپ معمولی مت سمجھئے بلکہ یہ میری آزادی اور نئی زندگی کی طرف بڑھتا ہوا ایک اور قدم تھا۔ میں کئی ہفتے سے ایک ایک سینٹ جمع کررہی ہوں اور میرا سرمایہ رفتہ رفتہ بڑھ رہا ہے۔

اس کا آغاز تب ہوا جب مہینہ بھر پہلے مارک سے میری شدید لڑائی ہوئی۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ ہماری شادی ایک بڑی غلطی تھی۔ اگر میری قمیضوں کے باعث واشنگ مشین کے خراب نہ ہوتی، راستے میں گاڑی کا پہیہ پنکچر ہونے کے باعث مارک دیر سے دفتر نہ پہنچتا یا تین دن تک موسلا دھار بارش نہ ہوتی تو شاید آج ہمارے حالات مختلف ہوتے یا شاید ایسے ہی رہتے جیسے کہ اب ہیں۔

میرا خیال ہے کہ ہمارے ستارے ایک دوسرے سے نہیں ملتے، ہم کچھ بھی کرلیں، ناکامی ہمارا مقدر بنے گی۔ اف یہ ستارے… انھوں نے انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ اگر دل سے دل مل جائے مگر ستارے نہ ملیں تو بات نہیں بنتی۔ رومیو جیولیٹ قسم کے بیسیوں عاشق معشوق صرف اس لیے اکٹھے نہ ہوسکے کہ ان کے ستارے آپس میں نہیں ملتے تھے۔ میرا مشورہ ہے کہ کسی سے محبت کرتے ہوئے یہ معلوم کرلیں کہ آپ دونوں کے ستارے ملتے ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو ننانوے فیصد امکان ہے کہ آپ کا انجام ہمارے جیسا ہوگا۔ ہماری جنگ اس وقت نقطہ عروج پر پہنچی جب میں نے اپنے شوہر سے کہا کہ اس سے شادی کرکے مجھے بڑا پچھتاوا ہے اور اب میں آزادی چاہتی ہوں۔

اس نے تڑخ کر جواب دیا ’’تمھیں کس نے روکا ہے؟‘‘

’’کسی نے بھی نہیں، میں آج رات ہی جارہی ہوں۔‘‘ یہ اعلان کرکے میں طوفانی انداز میں کمرے میں پہنچی اور کپڑے سمیٹنے لگی لیکن جوں جوں میں نے انھیں سمیٹا مجھے یہ لڑائی بے معنی لگی۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا ’’میں جاؤں گی کہاں؟ کیا اپنے میکے؟ لیکن وہاں گئی تو ان کے الٹے سیدھے سوالوں کا جواب کون دے گا؟ میکے نہیں تو پھر کہاں جاؤں؟‘‘ میرے پاس پیسہ بھی نہیں تھا۔ اپنی کار کی مرمت کروانے کے بعد ہم کنگال ہوگئے تھے۔ اب اتنی رقم بھی نہیں تھی کہ واشنگ مشین درست کروا لیتے یا مکان کا کرایہ دیتے۔ اللہ کا شکر ہے کہ مکان کی مالکہ نیک اور رحم دل عورت ہے لہٰذا قسطوں میں کرایہ وصول کرنے لگی۔ اب پیسے کے بغیر میں کسی ہوٹل کیسے جاتی؟ بہت سوچا مگر کوئی راہ نہ پاکر واپس ٹی وی لاونج آگئی۔

’’ارے تم واپس آگئیں؟‘‘ مارک کے لہجے میں گہرا طنز تھا۔

میں نے تلملا کر جواب دیا ’’میرے پاس رقم نہیں … اگر تمھیں اتنی ہی جلدی ہے، تو تم یہاں سے چلے جاؤ۔‘‘

اس نے بڑے اطمینان سے جواب دیا ’’نہ بابا نہ! یہ امید مت رکھو کہ میں گھر چھوڑوں گا، ہاں! تم شوق سے جاسکتی ہو۔‘‘

میں نے ملامتی نظروں سے اسے دیکھا اور ٹی وی کھول کر دیکھنے لگی۔ وہ بے نیازی سے اخبار پڑھنے لگا۔

کچھ دیر خاموشی رہی۔ اچانک وہ بڑے سکون سے بولا: ’’ویسے طلاق لینے کے لیے بھی رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ وکیل سب سے پہلے اپنی فیس مانگے گا۔ لگتا ہے جب تمہارے پاس رقم جمع ہوگی تب ہی تم مجھ سے طلاق لو گی۔‘‘

میں نے اپنا پرس کھولا اور اس کی اچھی طرح تلاشی لے کر ساری رقم نکال لی۔ کل دو ڈالر پینتیس سینٹ بنے۔ میں پھر باورچی خانے گئی، وہاں سے ایک چھوٹا سا مرتبان لائی اور اپنے شوہر سے کہا : ’’میں طلاق فنڈ قائم کررہی ہوں۔ جیسے ہی اس میں سو ڈالر جمع ہوئے، میں وکیل سے رابطہ کروں گی۔ کیا تم کچھ مدد کرسکتے ہو؟‘‘

مارک خوش مزاجی سے بولا ’’نیکی کر دریا میںڈال‘‘ یہ کہہ کر اس نے جیب ٹٹولی اور چند سینٹ مرتبان میں ڈال دیے۔ اب ایک مہینہ ہوچکا ہے اور ہمارا طلاق فنڈ مسلسل بڑھ رہا ہے۔ آج صبح میں نے رقم گنی تو تیس ڈالر اور پچاس سینٹ جمع ہوچکے تھے، یہ رقم کسی وکیل کے لیے پرکشش نہیں مگر اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم دونوں میاں بیوی بڑے خلوص سے اس کی خدمات حاصل کرنا چاہتے ہیں۔

ایک دن دفتر میں اپنی سہیلی کرسٹی سے باتیں کرتے ہوئے میں نے اسے بتایا : ’’مارک اب پہلے جیسا نہیں رہا، وہ بہت تنگ کرتا ہے۔ جب ہمارا عشق چل رہا تھا، تو وہ بڑا ہنس مکھ، مہذب اور پُرخلوص لگتا تھا۔ ہمیشہ میرے لیے پھول لاتا اور اچھے ریستورانوں میں مجھے کھانا کھلاتا۔ وہ مجھے خوش رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا لیکن جب سے شادی ہوئی ہے سب کچھ بدل گیاہے۔ اب تو وہ مجھ سے سیدھے منہ بات بھی نہیں کرتا، ہر وقت حساب کتاب کی کتابوں میں منہ ڈالے رکھتا ہے۔‘‘

کرسٹی نے میری باتیں بڑے تحمل سے سنیں پھر کہنے لگی: ’’مجھے علم ہے کہ تمہاری معاشی حالت درست نہیں، اب ظاہر ہے کہ وہ تمہارے لیے پھول لانے سے رہا یا کیونکر تمہیں ریستوران لے جائے؟ اور تم نے خود ہی بتایا تھا کہ تمہارے کہنے پر مارک اکاؤنٹنٹ بننے کے لیے امتحان کی تیاری کررہا ہے تاکہ تم خوشحال زندگی گزارسکو۔‘‘

میری سہیلی کی باتیں سولہ آنے سچ تھیں مگر میں اس کی معقول گفتگو سننے کے موڈ میں نہیں تھی، میں نے جل کر پوچھا ’’تم کس کی حمایتی ہو؟‘‘

وہ مسکراتے ہوئے بولی ’’کسی کی نہیں۔ میں تمہاری دوست ہوں اور تمہیں ایسی غلطی کرنے سے باز رکھنا چاہتی ہوں جو تمہاری زندگی تباہ کردے۔‘‘

میں نے ٹھوس لہجے میں کہا : ’’مارک سے شادی ہی میری سب سے بڑی غلطی ہے اور اب میں اس کا ازالہ چاہتی ہوں۔‘‘

دوپہر کو جب کافی پینے کی خواہش ہوئی تو میں نے اسے دبالیا اور بچائی ہوئی رقم طلاق فنڈ میں جمع کردی۔ میں ایک مہینے سے دوپہر کا کھانا گھر سے لارہی تھی تاکہ ریستوران نہ جانا پڑے۔ لیکن ایک مد میں میری فضول خرچی جاری رہی یعنی ہفتہ وار لاٹری کا ٹکٹ خریدنا! جب سے میری شادی ہوئی تھی، میں ہر بدھ کو ایک ٹکٹ خرید لیتی۔ جب نتیجہ نکلتا تو میں اور مارک سر جوڑ کر اس کا نمبر تلاش کرتے۔ ہم سوچا کرتے کہ ہماری لاٹری نکل آئی تو ہم اس رقم سے ہنی مون منانے کسی اچھی جگہ جائیں گے۔

شادی کے بعد ہم نے قریبی جھیل کے کنارے ایک کرائے کا جھونپڑا لے کر صرف چند دن اکٹھے گزارے تھے مگر وہ کسی بھی طرح سے جنت میں رہنے سے کم نہیں تھا، اس وقت ہم میںاتنی محبت تھی کہ کسی دور دراز جگہ کا سفر ہمیں عیاشی لگتا۔ یہ بات نہیں کہ ہمارا کبھی نمبر نہیں نکلا … ہمیں دو مرتبہ پچیس پچیس ڈالر ملے جن سے ہم نے خوب سیر و تفریح کی۔

لیکن اس بار لاٹری کا ٹکٹ ٹی وی کے اوپر رکھنے کے بجائے میرے پرس میں رہا کیونکہ مارک کے ساتھ نمبر دیکھنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اگر لاٹری نکل بھی آتی تو ملنے والی رقم میرے طلاق فنڈ میں چلی جاتی۔ مارک بھی بچت کررہا تھا تاکہ مکان کا کرایہ ادا کیا جاسکے، یہ ذمے داری اس نے اپنے سر لے لی تھی۔

جس روز کرسٹی سے گفتگو ہوئی، اسی دن میں گھر دیر سے پہنچی۔ مارک کھانا تیار کرچکا تھا۔ اکثر جب وہ پہلے آجاتا تو کھانا پکالیتا تھا۔ صاف چمکتی میز پر سلیقے سے کھانا رکھا تھا۔ درمیان میں پڑے گلدان میں تازہ پھول موجود تھے۔ ماحول بڑا خوشبودار اور رومانی تھا۔ مجھے دیکھتے ہی مارک نے میز پر موجود شمعیں بھی روشن کردیں۔ اس نے شملہ مرچوں کا سالن پکایا تھا۔

پہلا لقمہ لیتے ہی میرے ہونٹوں سے بے ساختہ نکلا ’’ بہت خوب!‘‘

اس نے فوراً جواب دیا ’’اور بہت سستا بھی۔ تم چاہو تو بچی ہوئی رقم طلاق فنڈ میں جمع ہوسکتی ہے۔‘‘

میں خاموشی سے کھانا کھانے لگی۔ میں اس اندھے اور گونگے فنڈ سے اکتا چکی تھی اور چاہتی تھی کہ جلد از جلد سو ڈالر جمع ہوں تاکہ ہم اپنی اپنی راہ لیں۔ کھانے کے بعد حسبِ معمول مارک نصاب کی کتابیں پڑھنے لگا اور پھر ڈرائنگ روم ہی میں سوگیا۔ ہماری زندگی تقریباً یوں گزر رہی تھی جیسے ہمارے مابین طلاق ہوگئی ہو۔ اپنے بستر پر لیٹے لیٹے میں نے سوچا کہ ایسے کتنے شوہر ہیں جو سارا دن دفتر میں سر کھپانے اور رات امتحان کی تیاری کے باوجود کھانا پکاتے ہیں؟ دو روز بعد دفتر میں پھر دیر ہوگئی، واپس آئی تودیکھا کہ مارک کپڑے دھو رہا ہے۔ مجھے دیکھ کر بولا: ’’سوچا کہ واشنگ مشین دیکھ لوں، کوئی خاص خرابی نہیں تھی، میں نے ٹھیک کرلی ہے۔‘‘

میں ان دھلے ہوئے کپڑوں کو دیکھنے لگی جو نفاست سے تار پر ٹنگے تھے۔ اس کی نظروں نے میری نگاہوں کا تعاقب کیا پھر بول پڑا: ’’میرے پاس وقت تھا، سوچا کہ کپڑے دھولوں۔‘‘

میں ’’شکریہ‘‘ کہہ کر سوچنے لگی کہ جب میں اسے چھوڑ کر جانے والی ہوں تو اتنی مہربانی کی کیا ضرورت ہے؟ لیکن مجھے اعتراف ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا۔ وہ اکثر گھریلو کاموں میں میرا ہاتھ بٹاتا تھا اور اس نے کبھی مجھ پر احسان لادنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ گھر کا کام کرنا فرض سمجھتا تھا بالکل ویسے ہی جیسے میں دفتر کا کام فرض سمجھ کر کرتی تھی۔

رفتہ رفتہ میرے ذہن میں کئی باتیں آنے لگیں۔ مثلاً مجھے وہ سیاہ سوٹ یاد آیا جو اس نے میری سالگرہ پر تحفتاً دیا تھا۔ میں بیمار ہوئی تو اس نے پوری تندہی سے میری دیکھ بھال کی اور گھنٹوں میرے سرہانے رہا۔ شادی کی پہلی سالگرہ کے موقع پر اس نے خوابوں والی کتاب ترتیب دی جس کے ہر صفحے پر تصویریں بنائیں۔ ایک صفحے پر بیس بال کی یونیفارم میں ملبوس تندرست اور خوبصورت بچے کی تصویر بنائی، اگلے صفحے پر پیاری سی بچی کی تصویر تھی، اگلے صفحے پر بلند و بالا درختوں میں گھرے بنگلے کی تصویر تھی جس کے برآمدے میں کھڑی کار میں ہم دونوں بیٹھے تھے۔ یوں اس نے بے شمار چیزوں کی تصاویر بنائیں اور کتاب کے پہلے صفحے پر لکھا:

’’میری جان! میں یہ سب کچھ تمہاری جھولی میں ڈالنا چاہتا ہوں کیونکہ تم نے ہی میرے خوابوں میں حقیقت کے رنگ بھرے ہیں۔‘‘

یہ ساری باتیں یاد کرتے ہوئے میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ اس وقت ہم بڑی شدت سے ایک دوسرے کو چاہتے تھے۔ اچانک مجھے یاد آیا کہ برتن دھونے میں، میں نے سرجھٹک کر رنگین ماضی سے تلخ حال میں چھلانگ لگائی اور باورچی خانے پہنچ گئی۔ فارغ ہوئی، تو ڈی وی لگا کر بیٹھ گئی۔ جب لاٹری والا پروگرام لگا تو دھڑکتے دل کے ساتھ اپنا ٹکٹ تھام کر بیٹھ گئی۔ جب پہلا انعام نکلا تو میں نے اپنا نمبر دیکھا … اور میری آنکھیں خوشی سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں، مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ خوشی سے چیختے ہوئے بلند آواز میں کہا: ’’مارک! ہم پچاس ہزار ڈالر جیت گئے ہیں۔ ہم امیر ہوگئے، ہم امیر ہوگئے۔‘‘

مارک بھاگتا ہوا کمرے میں آیا، میرے ہاتھ سے ٹکٹ جھپٹ کر نمبر ملایا پھر مجھے بانہوں میں لے کر رقص کرنے لگا۔ ہم اس وقت خوشی سے دیوانے ہوگئے تھے۔ تھوڑی دیر بعد ہم ہانپتے ہوئے صوفے پر بیٹھے تو اچانک اس کے چہرے پر گہری سنجیدگی چھاگئی، وہ ہکلاتے ہوئے بولا : ’’وہ … میرا مطلب ہے … طلاق…‘‘

’’ارے ہاں…‘‘ میں بھی چونک پڑی۔ مجھے یو ںلگا جیسے کسی نے میرے دل کی کھلتی کلی پر دہکتے ہوئے انگارے رکھ دئے ہوں۔ میں خاموشی سے اٹھی اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔ اب میرے پاس اتنی رقم تھی کہ بآسانی کسی وکیل کی خدمات حاصل کرکے مارک پر طلاق کا مقدمہ کرسکتی تھی۔ میں ایک آزاد اور خوش گوار، نئی زندگی کا آغاز چاہتی تھی مگر ابھی یہ معاملہ مزید سوچ بچار مانگتا تھا۔

بستر پر لیٹتے ہی میرے دل اور دماغ میں جنگ چھڑگئی۔ دل نے کہا: ’’اب تم اس کے بور مطالعے سے چھٹکارا پاسکتی ہو۔‘‘

دماغ نے پکار کر کہا ’’مگر وہ بہتر اور خوشحال مستقبل کے لیے محنت کررہا ہے تاکہ اپنے خاندان کے لیے خوشیاں خرید سکے اور تمہارے خوابوں کو حقیقت میں ڈھال سکے۔ اس کی جدوجہد تمہارے ہی لیے ہے۔‘‘

دل نے آواز لگائی ’’بے شک یہ درست ہے لیکن پرآسائش زندگی ہی سب کچھ نہیں ہوتی، تمہیں ایک محبت کرنے والا شوہر چاہیے جو پُرجوش، نرم دل اور پر خلوص ہو، جو تمہارے جذبات سمجھ سکے۔‘‘

دماغ نے تڑپ کر کہا : ’’مارک کو تم سے محبت ہے، کیا وہ پُرجوش، نرم دل اور پُرخلوص نہیں؟ صرف وہ ہی تمہارے جذبات سمجھتا ہے۔ تم اس کا خلوص یاد کرو۔ جب تم حاملہ ہوئیں تو سب سے زیادہ خوش تھا اور جب بچہ ضائع ہوا، تو کیا وہ تم سے کم غمگین تھا؟ اور کیا وہ … ؟ وہ اشعار بھول گئیں جو اس نے تم پر کہے تھے؟‘‘

یہ خیال آتے ہی میں اٹھی، الماری سے نیلی ڈوری سے بندھا ایک پیکٹ نکالا اور اس میں سے چند کاغذ نکال کر پڑھنے لگی۔ جب مارک کے شعر پڑھے تو مجھے احساس ہوا کہ میں نے بڑے زندہ اور خوبصورت دل کے مالک مرد سے شادی کی ہے۔

یہ باتیں سوچ کر جب میں نے اپنے دل کی گہرائیوں میں جھانکا تو وہاں مارک کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔ یہ سچ ہے کہ وہ کچھ عرصے سے شعر نہیں کہہ رہا تھا کیونکہ مہینے کے آخر میں اس کا امتحان تھا… وہ نصابی کتب پڑھتا یا شاعری کرتا؟ مجھے احساس ہوا کہ یہ بات پتھر کی لکیر ہے کہ وہ مجھے بہت پیار کرتا ہے یا کم از کم کبھی وہ مجھ سے سچی محبت کرتا تھا۔ میں عالم بے اختیاری میں ڈرائنگ روم پہنچ گئی۔ وہ بیٹھا خلا میں گھور رہا تھا۔

میں نے اس کے پہلو میں بیٹھتے ہوئے کہا ’’مارک! کیا تمہیں واقعی طلاق کی خواہش ہے؟‘‘

اس نے آہستہ سے گردن موڑی اور نرم آواز میں کہا: ’’نہیں، میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتا۔‘‘

’’تم نے پھر طلاق فنڈ کے سلسلے میں مجھ سے تعاون کیوں کیا؟‘‘

اس کے ہونٹوں پر تھکی تھکی سی مسکراہٹ دوڑ گئی، کہنے لگا ’’بھئی اس طرح کم از کم ایک کام تو ہم مشترکہ طور پر کررہے تھے۔ میں جانتا تھا کہ ہماری معاشی بدحالی کے باعث تمہارے اندر جدائی کی آگ بھڑکی ہے مگر اس سے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ میں آرام و سکون سے اپنے امتحان کی تیاری کرتا رہا اور تم میرے انہماک میں حارج نہیں ہوئیں۔

میں نے مسکرا کر کہا: ’’ارے میں تمہیں واقعی ستاتی ہوں؟‘‘

اس نے شرارت بھرے انداز میں کہا: ’’یہ بھی پوچھنے کی بات ہے۔‘‘

میں نے اسے ٹٹولتے ہوئے پوچھا: ’’یہ بتاؤ اگر میں نے طلاق کا مقدمہ دائر کردیا تو…؟‘‘

اس نے سنجیدگی سے کہا: ’’مجھے یقین تھا کہ تم اس حد تک نہیں جاؤ گی لیکن جب تمہارا لاٹری کا انعام نکلا تو میں گھبرا گیا اور سوچا کہ کہیں تم یہ انتہائی قدم نہ اٹھالو۔‘‘

میں نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھا اور پیار بھرے لہجے میں کہا : ’’نہیں مارک، تمہارا خیال درست تھا، میں اس حد تک نہیں جاسکتی تھی۔ مارک! میں تمہیں بہت چاہتی ہوں بلکہ ہم دونوں ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔‘‘

اس واقعہ کو کئی ماہ گزر چکے ہیں۔ مارک نمایاں نمبروں سے امتحان میں کامیاب ہوا اور اب وہ ایک اچھے ادارے میں اکاؤنٹنٹ ہے اور ٹھیک ٹھاک رقم کماتاہے۔ امتحان ختم ہوئے تو ہم نے لاٹری کی رقم سے پرفضا مقام تک سفر کرنے کا پروگرام بنایا۔ وہ ہماری زندگی کے حسین ترین دن تھے، جو رقم بچی وہ ہم نے بینک میں رکھ دی تاکہ اگلے دو برس تک پیسے بچا کر اپنا چھوٹا سا آشیانہ خرید سکیں۔ ارے ہاں، وہ طلاق فنڈ… اس کا مرتبان آج بھی ہمارے باورچی خانے میں رکھا ہے اور وہ پیسوں سے بھر چکا ہے بس فرق یہ ہے کہ اب اس پر ’بے بی‘ کی چٹ لگی ہے۔

میں اکثر سوچتی ہوں کہ اگر میاں بیوی میں ہم آہنگی اور محبت ہو اور وہ ایک دوسرے سے تعاون کریں تو اپنی زندگی خوشگوار بناسکتے ہیں۔ یقین نہ آئے تو ہمیں دیکھ لیجیے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146