امی جان گرم کپڑے دھوپ میںڈلواچکیں توریشمی جوڑے نکال نکال کردِکھانے لگیں جنھیںدیکھ دیکھ کر وہ خوش ہورہی تھیں۔اچانک میری نظرگوٹے ٹھپّے والے ایک چھوٹے سے لال کرتے پرپڑی،میں نے جھپٹ کر اُٹھالیا۔چھوٹاسا پاجامہ بھی اُس کے ساتھ ٹکاہواتھا۔’’یہ توگڑیاکے کپڑے ہیں!‘‘میں نے کہا تو نانی اماں مسکراکربولی۔’’گڑیاکے کہاں،یہ توتمہارے کپڑے ہیں۔‘‘
’’لو!اتنے منے منے سے میرے کپڑے!‘‘ میں اُنھیںاُلٹ پلٹ کردیکھ رہی تھی۔مجھے یقین نہیںآرہاتھا۔
نانی اماں نے ہنستے ہوئے کہا۔
’’ہاںآں…اتنی سی توتھیںتم،سوکھی پتلی سی!‘‘ساتھ کھڑے چھوٹے بھائی جان بول اُٹھے۔ ’’سوکھی سڑی کالی کلوٹی سی!‘‘میں نے جل بھن کر اُنھیںدیکھا۔اُن کی آنکھوں میں شرارت چمک رہی تھی۔اچانک مجھے کچھ خیال آیا۔’’تواباجان اس لیے مجھے گود میں نہیں لیتے تھے کہ میں کالی تھی!‘‘’’کس نے کہاکہ تم کالی تھیں!‘‘نانی اماں نے مجھے ساتھ لگالیا۔
چھوٹے بھائی جان نے پھرکہا…’’وہ اِس لیے کہ لڑکیاں بوجھ ہوتی ہیں۔ اُنھیں ڈھیروں ڈھیر جہیز دیناپڑتاہے۔لڑکے توگھرکاچراغ ہوتے ہیں…‘‘
میں ایک دم سناٹے میںآگئی۔دُکھ ساہوا مجھے…افسردگی سے بولی۔’’امی جان لڑکیاں بوجھ کیوںہوتی ہیں؟کیساہوتاہے یہ بوجھ؟‘‘
امی نے غصہ میںبھائی جان کو پکڑکے جھنجھوڑ ڈالا۔’’بہت زبان چل نکلی ہے!کس نے کہاکہ لڑکیاں بوجھ ہوتی ہیں؟‘‘…وہ اُنھیں گھوررہی تھیں۔
چھوٹے بھائی جان کچھ سہم کربولے۔ ’’امی!سہاگی بواکہہ رہی تھیں انوسے،اُس کی پٹائی بھی لگائی تھی اورکہاتھا۔’’میرے بیٹے کی برابری کرتی ہے۔ توہے کیا…گھرکاکوڑا۔نرابوجھ…ابھی جہیزدینا پڑے گا۔بال بال قرض میں بندھ جائے گا…بیٹے تو گھرکا چراغ ہوتے ہیں…کماکے لاتے ہیں۔‘‘وہ لفظ بہ لفظ داستان سنانے لگے۔نانی اماں نے اُنھیں امی جان کے قبضے سے چھڑاکردوسری طرف کھڑاکیا اور سمجھانے لگیں۔’’بیٹے جاہل لوگ ہی ایسی باتیں کرتے ہیں۔ بیٹیاں تواللہ کی رحمت ہوتی ہیں۔بوجھ کیوں ہونے لگیں!‘‘
’’توپھراباجان مجھے گود میںکیوںنہیںلیتے تھے؟آپ نے بتایاتھانااُس دِن…چھوٹے بھائی جان کی پٹائی ہورہی تھی…‘‘میںدُکھے دِل سے کہہ رہی تھی…’’میں نے بتایاتھا؟…کیابتایاتھامیں نے؟‘‘نانی اماں سوچ میںپڑگئیں۔میں نے بیتابی سے یاددِلایا۔’’یہی کہ اِس لڑکی کوگودمیں بھی نہیںلیتے تھے،آج اِس کی وجہ سے بیٹے کوماررہے ہو۔اباجان سے کہانہیںتھاآپ نے!‘‘مدت سے دل میں پھانس کی طرح کھٹکنے والاسوال میںکربیٹھی۔
نانی اماں مزے سے کہنے لگیں۔ ’’ہاںآں۔ تونہیںلیتے تھے ناپہلے پہلے!‘‘
پھروہ امی سے مخاطب ہوگئیں۔
’’یاد ہے شہزماں،جب پہلی بارہارون میاں نے اُسے گود میں اُٹھایاتھا۔‘‘امی بے ساختہ ہنس پڑیں۔’’خوب یاد ہے،جیسے وہ کمرے میںداخل ہوئے،یہ لڑکھڑاتے قدموںسے چلتی اُن کی ٹانگوں سے جالپٹی۔گیارہ مہینے کی توچل پڑی تھی۔اُنھوںنے اُسے کرسی کے ساتھ کھڑاکردیااوردوسری کرسی پربیٹھ کے جوتے موزے اُتارے۔یہ بھی وہیں نیچے بیٹھ گئی اوراُن کے موزے سے جوتاصاف کرنے لگی۔بار بار اُن کی طرف چمکیلی چمکیلی آنکھوں سے دیکھ کر ہنستی اور موزے کو جوتے پر مل مل کے صاف کرتی۔اُن کو پہلی مرتبہ اُس پہ اِتنا پیارآیاکہ گودمیںاُٹھالیااورٹہل ٹہل کر اُسے باربارچومتے رہے۔پھرتویہ سب پرہی بازی لے گئی!‘‘
چھوٹے بھائی جان نے فوراکہا۔ ’’توپھر شروع سے ہی چلکّوہے،یہ توپوری کُٹنی ہے۔‘‘امی نے اُنھیںگورا۔’’مامون!بازآجا…بازآجا…پتانہیںکہاںسے سیکھ آتاہے!‘‘میں نے اِطمینان سے اعلان کیا۔’’ہم نے توخدمت سے پیارجیتاہے!‘‘
نانی اماں نے مجھے سینے سے لگالیا۔’’اللہ اللہ اِس بچی کی باتیں!خدانظربدسے بچائے…‘‘بھائی جان دوسرے کمرے میںجاتے ہوئے بولے۔’’اِسے کیانظرلگے گی…یہ توخود نظربٹّوہے!‘‘میں تلملا اُٹھی۔’’آج میںاباجان کو بتائوںگی،ہروقت مجھے کچھ ناکچھ کہتے رہتے ہیں۔آئے بڑے کہیںکے!‘‘اورمیں نانی اماں کی گود میں سررکھ کررونے لگی۔
سہاگی بوانے مجھے پیارکیا۔غسل خانے میں لے جاکرمنہ ہاتھ دُھلایااوردسترخوان پرلابٹھایا۔ لیکن میرادِل کچھ بھی کھانے پرآمادہ نہ تھا…کیالڑکی ہونابراہے۔
میں اُداس اورگم صم بیٹھی تھی…نانی اماں نے میرے منہ میں لقمہ دیا۔’’کھائونابیٹا!‘‘بھائی کی بات کا اِتنابرانہیںمانتے،وہ توایسے ہی تمھیں چھیڑتا رہتاہے۔‘‘
نانی اماں میری اورآپاریحانہ کی ختم قرآن کی تقریب پرآئی ہوئی تھیںجو ایک دِن پہلے ہوچکی تھی۔ سارامنظرمیری نگاہوں میںگھوم گیا۔سفیدچاندنی پر کتنی ساری خواتین بیٹھی تھیں۔اوپرکاساراصحن بھر گیا تھا۔ سامنے تخت پر میں اورآپاریحانہ دُلہنوںکی طرح سجی بیٹھی تھیں۔دادی اماں کو تخت پربٹھادیاگیا۔سفید لباس اورسفیدبالوں کے ساتھ وہ کتنی پیاری لگ رہی تھیں۔ بڑی پھوپھی جان نے مجھ سے کہا۔’’چلو سلطان زماں! تم تلاوت کرو۔‘‘میں نے سورۃ التکاثرکی تلاوت کی۔
’’جزاک اللہ!شاباش‘‘کی آوازوں نے مجھے نہال کردیا۔دادی اماں نے اُس کی تفسیرکرتے ہوئے وعظ ہی کرڈالا۔آپاریحانہ نے سورۃ العصر کی تلاوت کی۔ترجمہ اورتفسیرچھوٹی پھپھونے کی۔پھرایک مہمان بی بی نے ایک نظم پڑھی۔وہ کئی مصرعے پڑھتی تھیں،پھر ساری عورتیں زورسے آمین کہتی تھیں۔آخر میں بڑی پھوپھی جان نے دُعاکرائی۔
اوریہ اگلاہی دِن میرے لیے کتنادُکھ بھرا تھا۔میں پھراپنے وجودپر کڑھنے لگی۔اللہ میاں نے مجھے لڑکاکیوں نہ بنایا۔میری آنکھیں بھربھرارہی تھیں۔ میں اُٹھ کر غسل خانہ میںجاگھسی اورچپکے چپکے رونے لگی۔پتانہیںکتنی دیرتک روتی رہتی اگروضو کرنے نانی اماں نہ آگئی ہوتیں۔اُنھوںنے میرے آنسوخشک کیے۔چمکارتی رہیں۔وضوکراکے مصلیٰ پرلاکھڑاکیا۔ ’’لو بیٹانمازپڑھو۔نمازسے دل کو بے حد سکون ملتاہے۔ تم توخواہ مخواہ ہی اُس شریرکی باتیں دل کو لگابیٹھی ہو۔‘‘ میںنے نمازپڑھی اوردُعاکی۔’’یااللہ میاں!مجھے لڑکا بنادیجیے!‘‘
میں روروکراپنے رب سے دُعاکررہی تھی کہ سہاگی نے مجھے پانی پلایااوراُٹھاکرمسہری پرلٹادیا۔ پھر بولی۔’’ہائے اللہ،روروکرآنکھیںکیسی موٹی موٹی کرلی ہیں بٹیا۔اب سوجائو…میاں صاحب بھی آنے والے ہوںگے۔‘‘میں نے آنکھیں بند کرلیں۔لیکن اچانک ہی سرمیںٹیسیں سی اُٹھنے لگیں۔میں پھراُٹھ بیٹھی۔امی نمازپڑھ کر مجھ پر دم کرنے آئیں تومیں نے دونوں ہاتھوں سے سرتھام کرکہا۔’’امی جان میراسربہت زور سے دُکھ رہاہے۔‘‘امی میرے پاس بیٹھ گئیں اور سر دبانے لگیں،ہولے ہولے۔ساتھ ہی وہ دم بھی کرتی جاتی تھیں۔مگرمیرادرد بڑھتاہی گیا۔میری چیخیں نکل رہی تھیں۔اتنے میں اباجان بھی آگئے۔’’کیابات ہے؟‘‘وہ پوچھنے لگے۔امی نے کہا۔’’ آپ کی لاڈلی نے روروکرسرمیں درد کرلیاہے۔‘‘’’کیوںبیٹی کس خوشی میں روئیں!!‘‘امی بولیں۔’’کہتی ہے کہ آپ نے اِسے گود میںنہیںلیاتھاکہ یہ لڑکی تھی اورکالی بھی۔‘‘ اباجان نے مجھے اپنے سامنے کرتے ہوئے پیارسے کہا۔’’پگلی کہیں کی!‘‘وہ مجھے سامنے لگے بڑے آئینے کے پاس لائے اورمنہ اُدھرکرکے بولے۔
’’یہ دیکھو!تم کوئی کالی ہو!تم توبالکل ہماری شکل ہو…!‘‘میںاُنھیں اوراپنے آپ کو آئینے میں بارباردیکھ رہی تھی۔’’بولوکیاہم بدشکل ہیں۔‘‘وہ ہنس رہے تھے۔میں نے کھسیانی ہوکر اُن کے گلے میں باہیںڈال دیں۔میرے نزدیک تواُن سے اچھا گھر بھر میںکوئی تھاہی نہیں۔اُنھوںنے میری پیشانی چوم لی اور وہیں کرسی پربیٹھ گئے۔’’بیٹی ہم تمھیں اِس لیے گود میںنہیںاُٹھاتے تھے کہ تم بہت کمزورتھیں۔بس اور تو کوئی بات نہیںتھی۔لڑکی ہونایاکالی ہوناکوئی بری بات نہیںہوتی۔اِنسان اچھے اچھے کام کرے توسب کی نظروں میں اچھاہوجاتاہے۔حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں بھی وہی سب سے اچھاہوتاہے جو اچھے کام کرتا ہے۔وہ کالاہویاگورا…اِ س سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘
میں نے سردردبھلاکرپوچھا۔’’توپھراچھے اچھے کام کون کون سے ہوتے ہیں،اللہ کی نظرمیں؟‘‘
اباجان نے ہنس کر میرے ہاتھوں پر پیار دیا۔
’’اچھے اچھے کام توہماری بیٹی ابھی سے کرتی ہے۔نمازپڑھتی ہے،قرآن کریم کی تلاوت کرتی ہے، بڑوںکا ادب کرتی ہے،اُن کا کہنامانتی ہے،سچ بولتی ہے…یہ سب اچھے کام ہی توہیں۔بڑی ہوکر اور اچھے کاموںکاعلم ہوتاجائے گا۔وہ بھی کرے گی نا۔ٹھیک ہے نا!‘‘
میں نے اثبات میںسرہلایا…
اُس وقت تودردِسرکافورہوگیاتھا۔لیکن یہ دردِسرزِندگی بھرمجھے ستاتارہا۔جب بھی کسی کی بیٹی کی پیدائش پراُس کی ناقدری کی اِطلاع ملتی ہے تومیں سردردمیںمبتلاہوجاتی ہوں۔جانے کیوں! ——