محبتِ الٰہی

مولانا صدر الدین اصلاحیؒ

اللہ تعالیٰ نے دو چیزوں کو اپنی محبت کی پہچان قرار دیا ہے۔ اتباعِ رسولؐ اور جہاد فی سبیل اللہ۔ ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کے معنی ہیں خدا کی محبوب چیزوں ایمان اور اعمال صالحہ کے حاصل کرنے میں اور خدا کی ناپسندیدہ چیزوں کفر و فسق اور تمرد و عصیان کے مٹا ڈالنے میں اپنی ساری قوتیں اور کوششیں صرف کرڈالنا۔ چنانچہ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’اے نبی! ان لوگوں سے کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارے خاندان، تمہارے وہ مال جنھیں تم نے کما رکھا ہے، تمہاری وہ تجارت جس کے سرد پڑجانے کا تمہیں کھٹکا لگا رہتا ہے اور تمہارے دل پسند مکان تمہاری نگاہوں میں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ محبوب ہیں تو ٹھیرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ نافذ کردے۔‘‘ (التوبہ)

غور کیجیے، اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو جو اس کے اور اس کے رسولﷺ کے اور اس کی راہ میں جہاد کرنے کے مقابلہ میں اپنے اہل اور مال کو زیادہ محبوب رکھتے ہیں، کتنی خوفناک وعید سنا رہا ہے۔

اسی طرح ’’حبِّ رسول‘‘ کے سلسلے میں رسولِ خدا ﷺ واضح لفظوں میں فرماتے ہیں:

’’قسم ہے اس ذات پاک کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، تم میں سے کوئی شحص (پکا) مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کی نظروں میں اس کے بیٹے اور اس کے باپ اورتمام انسانوں سے زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔‘‘

ایک اور حدیث میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آنحضرت ﷺ کو مخاطب کرکے عرض کیا: ’’یا رسولؐ اللہ! آپؐ، مجھے اپنی جان کے سوا باقی ہر شے سے زیادہ محبوب ہیں۔‘‘

ارشاد ہوا کہ:’’نہیں اے عمر! (تم پکے مومن نہیں ہوسکتے) تاوقتیکہ میں تمہیں تمہاری جان سے بھی زیادہ محبوب نہ ہوجاؤں۔‘‘یہ سنتے ہی حضرت عمرؓ پکار اٹھے: ’’خدا گواہ ہے کہ اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہیں۔‘‘ فرمایا: ’’ہاں! اب اے عمر!‘‘

معلوم ہوا کہ کمالِ محبت پیدا کرنے کے لیے محبوب سے کامل موالات کا جذبۂ صادق پیدا کرنا ضروری ہے۔‘‘ کامل موالات کا مطلب یا اس کا معیار یہ ہے کہ اپنی پسند اور ناپسند کو اور اپنی محبت اور عداوت کو محبوب کی پسند اور ناپسند کے ا ور اس کی محبت اور عدوات کے تحت کردیا جائے۔ یہ معلوم ہی ہے کہ محبوبِ حقیقی اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ چیزیں، ایمان اور تقویٰ ہیں، اور اس کی ناپسندیدہ چیزیں فسق اور عصیان ہیں۔ اسی طرح یہ بھی ایک جانی پہچانی حقیقت ہے کہ محبت میں قلب انسانی کو متحرک کردینے کی بڑی زبردست قوت ہوتی ہے جب کبھی وہ انسان کے دل میں جڑیں پکڑتی ہے تو اس کو مطلوبہ چیزوں کے حاصل کرنے پر برابر ابھارتی رہتی ہے۔ اگر محبت، حدِ کمال کو پہنچی ہوئی ہو تو مطلوبہ چیزوں کے حاصل کرلینے کا ارادہ بھی پختگی کی آخری حد پر ہوگا۔ اب اگر بندہ ظاہری اسباب و ذرائع کا بھی مالک ہے تو ان چیزوں کو حاصل کیے بغیر وہ دم ہی نہ لے گا۔ لیکن اگر ظاہری اسباب و ذرائع کی عدم موجودگی کی وجہ سے معذوریاں اس کی راہ روک لیتی ہیں اور اپنی انتہائی کاوش کے باوجود انھیں وہ حاصل نہیں کرپاتا تب بھی اس کو ناکام نہیں کہا جاسکتا، بلکہ اس صورت میں بھی اللہ تعالیٰ کے دربار میں اس کے لیے اتنا اجر ہے جتنا ان لوگوں کے لیے ہے جو اپنی اس کوشش میں عملاً کامیاب ہوجاتے ہیں۔ نبی ﷺ فرماتے ہیں کہ:

’’جس شخص نے ہدایت کی طرف لوگوں کو بلایا، اس کو بھی اتنا ہی اجر ملے گا جتنا کہ اس ہدایت کے ماننے والے کو ملے گا اور یہ ان (ہدایت قبول کرلینے والوں) کے اجر میں بغیر کسی کمی کے ہوگا، اسی طرح جس نے لوگوں کو گمراہی کی طرف بلایا، اس کو بھی اتنا ہی عذاب ہوگا جتنا کہ اس گمراہی کے قبول کرلینے والوں کو ہوگا اور ایسا ان کے عذابوں میں بغیر کسی تخفیف کے ہوگا۔‘‘

ایک جہاد کے موقع پر پوری خواہش رکھنے کے باوجود کچھ لوگ اس میں کسی مجبوری کی بنا پر شریک نہ ہوسکے، ان کے متعلق آپؐ نے فرمایا:

’’مدینہ میں رکے ہوئے کچھ ایسے لوگ ہیں جو ہر میدان اور ہر وادی میں، جس کو تم نے اپنی مجاہدانہ تگ و دو میں طے کیا ہے تمہارے ہمرکاب رہے ہیں۔‘‘

صحابہ نے پوچھا: کیا مدینہ میں رہتے ہوئے بھی (وہ ہمارے ساتھ رہے ہیں)۔ جواب دیا: ہاں مدینہ میں رہتے ہوئے بھی کیونکہ وہ ازخود وہاں نہیں رہ گئے، بلکہ عذر نے انھیں روک رکھا ہے۔‘‘

جیسا کہ اوپر ذکر گزرچکا ہے، جہاد، نام ہے اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ چیزوں کے حاصل اور برہا کرنے اور اس کی مبغوض اور ناپسندیدہ چیزوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں اپنی تمام طاقتیں اور کوششیں صرف کرڈالنا۔ پس جہادہی دراصل وہ کسوٹی ہے جس پر ہر بندئہ الٰہی کا دعوائے حبِّ الٰہی کس کر پرکھا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی شخص طاقت اور قدرت رکھنے کے باوجود، اپنی طاقت کے مطابق فریضہ جہاد بجالاتا ہے، تو یہ اس بات کا کھلاہوا ثبوت ہے کہ خدا اور رسولؐ کے ساتھ اس کی محبت اپنے اندر کوئی خاص روح نہیں رکھتی۔ اس فرض کی ادائیگی میں وہ اپنی استطاعت کے لحاظ سے جتنی سستی اور بے توجہی دکھائے گا اتنا ہی اپنی محبت کے کھوکھلے پن کا زبان حال سے اقرار کرے گا۔ اس میں شک نہیں کہ اس فرض کی بجا آوری کا راستہ کانٹوں سے بھرا ہوا ہوتا ہے۔ لیکن محبت کی اس سنت کو کون نہیں جانتا کہ محبوب تک رسائی اور باریابی عموماً خطرات اور مصائب اٹھانے کے بعد ہی نصیب ہوتی ہے۔ محبت صالحہ کی بھی یہی سنت ہے ا ور یہی محبتِ فاسدہ کی بھی۔ حکومت کا شیدائی تخت حکومت کو، دولت کا پرستار خزانۂ دولت کو، حسن صورت کا دیوانہ وصال محبوب کو اس وقت تک حاصل نہیں کرسکتا جب تک آخرت میں پیش آجانے والے عذاب شدید کے علاوہ اس دنیا میں بھی ہولناک مشکلات سے دوچار نہ ہولے۔ اس لیے اگراللہ اور رسولؐ کا محب ان کی محبت کی راہ میں اتنی بھی جانبازی نہ دکھائے جتنی غیر اللہ سے محبت رکھنے والوں میں سے ایک صاحبِ عقل و عزیمت اپنے محبوب کی خاطر دکھاتا ہے تو یقینا وہ اپنی محبت کی کمزوری اور سطحیت کی ایک ناقابل تردید دلیل فراہم کرتا ہے حالانکہ مومن کی صفت یہ ہے کہ ساری کائنات سے زیادہ اس کو اللہ سے محبت ہوتی ہے۔ قرآن کہتا ہے:

والذین آمنوا اشد حباّ للّٰہ۔ (البقرہ)

’’اور جو اہل ایمان ہیں وہ سب سے زیادہ اللہ سے محبت رکھتے ہیں۔‘‘

ہاں، ساتھ ہی یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ محبت میں صرف جوش اور خلوص ہی منزلِ مقصود تک پہنچنے کی ضمانت نہیں ہوسکتا بلکہ اس کے ساتھ عقل اور ہوش کی بھی ضرورت ہے ورنہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ محب صادق سچی محبت رکھنے کے باوجود اپنی عقل کی کمی کے باعث ایسی راہ اختیار کرلیتا ہے جس پر چل کر وہ اپنی منزل پر پہنچ نہیں پاتا۔ ایسی غلط راہ تو اس وقت بھی مذموم ہوتی ہے جب کہ محبت صالح ہو، اگر محبت فاسدہ میں کوئی اس طرح کی راہ اختیار کرلے تو پھر اس کی محرومی کا کیا پوچھنا جیسا کہ حکومت دولت اور صورت کے بعض اندھے دیوانے کیا کرتے ہیں۔ ایک تو ان کی محبت کا رخ ہی غلط ہوتا ہے دوسرے اپنے مطلوب کے حصول میں عقل و خرد کی تمام ہدایتوں سے آزاد ہوجاتے ہیں نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہاتھ کچھ نہیں لگتا، البتہ طرح طرح کی مصیبتیں اور خواریاں انھیں اپنی آماجگاہ ضرور بنالیتی ہیں لہٰذا راہ محبت میں سرشتۂ عقل کا دامن ہاتھ میں رہنا ضروری ہے ورنہ کامیابی سراب ثابت ہوگی۔

اس توضیح کے بعد یہ بات بآسانی سمجھ میں آجاتی ہے کہ قلب انسانی کے اندر اللہ تعالیٰ کی محبت جتنی زیادہ ہوتی جائے گی اتنی ہی اس کی عبودیت کا رنگ بھی گہرا ہوتا جائے گا۔ اتنا ہی اللہ کے عشق اور غیر اللہ کے بے نیازی کا نقش اس کے اند رپائیدارہوتا چلا جائے گا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146