مثالی گھر درحقیقت خلوص و محبت کی اینٹوں اور مروت کے گارے سے بنا وہ احاطہ ہوتا ہے جس میں قناعت وصبر، سادگی، تحمل، برداشت کی خوبیاں رکھنے والے افراد رہتے ہیں۔ جو ایک دوسرے کی ہر برائی اور کمزوری کو تحمل سے برادشت کرتے ہیں۔ گھر اور مکان میں ایک بنیادی فرق یہی ہے کہ مکان تو سیمنٹ، اینٹ، پتھر سے بنا ہوا وہ بے جان ڈھانچہ ہوتا ہے، جس میں افراد تو بستے ہیں مگر ایک دوسرے سے بے تعلق و بے نیاز، بے مروتی اور خود غرضی کا پیکر۔ جنھیں ایک دوسرے سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ اپنی اپنی دنیا میں مگن۔ ایسے گھروں میں داخل ہوتے ہی دم گھٹنے لگتا ہے، حالانکہ دیکھنے میں وہ بہت خوبصورت اور آراستہ ہوتے ہیں۔ دنیاوی عیش و عشرت کا ہر سامان ان میں موجود ہوتا ہے، مگر وہاں داخل ہوتے ہی واپس باہر آنے کو دل چاہتا ہے۔
ایک پرسکون مثالی گھر کی ٹھنڈک آپ کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ محبتوں کے خمیر میں گندھا ہوا یہ چھوٹا سا سادہ گھر آپ کو اپنے فسوں میں لے لیتا ہے اور آپ بہت دیر تک اس کی گرفت سے نہیں نکل پاتیں، کیونکہ اس گھر کے مکین سادہ، قناعت پسند، صابر، متوکل، پرخلوص، محبت سے آپ کے لیے اپنے دل و بازو کشادہ کرنے والے، سچی اور پراعتماد مسکراہٹ سے مہمانوں کا استقبال کرنے والے ہوتے ہیں۔ وقت ایک اہم ترین شے ہے، جس کے گزرنے کا احساس نہیں ہوتا، مگر بہت زیرک ہیں وہ لوگ جو اپنی اس قیمتی شے کو اس جگہ صرف کرتے ہیں جہاں اس کی ضرورت ہے۔
گھر کو سجانا، بنانا، سنوارنا ہر عورت کی فطرت ہوتی ہے۔ مگر بہت سمجھ دار ہوتی ہیں وہ عورتیں جو دنیا کو سنوارنے کے ساتھ دین کو بنانے میں بھی مصروف رہتی ہیں۔ اپنی صلاحیتوں اور وقت کو صرف گھر کے بنانے سنوارنے میں ہی ضائع نہیں کرتیں، بلکہ اللہ کی عبادت بھی اسی دلجمعی سے کرتی ہیں۔ اپنے نیک اعمال سے، اپنے خلوص و محبت سے ہر ایک کے دل میں گھر کرلیتی ہیں۔ عورتوں کے لیے مثالی گھر وہی ہوتا ہے جہاں ان کا شوہر اور بچے سکون سے رہ سکیں، اور یہ سکون پہنچانے میں ان کا خود بہت بڑا حصہ ہوتا ہے۔ جن گھروں میں حرص و ہوس داخل ہوجائے وہاں دلوں میں دراڑیں پڑجاتی ہیں۔ ہزار گز کا گھر، ہزاروں لاکھوں کا قیمتی فرنیچر، ہزاروں کے پردے کسی بھی گھر کو مکان تو بناسکتے ہیں مگر گھر نہیں بناسکتے۔ اسلام سادگی کا مذہب ہے، اس میں رہائش، زیبائش، آسائش کی اجازت ہے، مگر صرف اس حد تک کہ آپ کے کسی بھی عمل سے نمود و نمائش کا شائبہ تک نظر نہ آئے۔ مکان چھوٹا ہو یا بڑا، اس میں آپ کتنا ہی قیمتی سامان رکھیں، آرائش کریں… اے سی، روم کولر، اسپلٹ سے کمروں کو ٹھنڈا کریں، اس کی اجازت اسلام نے دی ہے۔ آرام دہ زندگی ضرور گزاریں مگر اس آرام دہ زندگی اور بے جا نمود و نمائش سے دوسروں کو احساسِ کمتری میں مبتلا نہ کریں۔ آپ کے کسی عمل سے ان کی دل آزاری نہ ہو۔
اگر آپ چھوٹے گھر میں بآسانی رہ سکتی ہیں تو اپنی امارت کا سکہ بٹھانے کے لیے بڑے بڑے گھروں کی کیا ضروری ہے! کم قیمت کے پروں میں اگر گزارا ہوسکتا ہے تو دوسروں کو مرعوب کرنے کے لیے لاکھوں کے پردوں کی کیا ضرورت! اگر کم قیمت کے سستے فرینچر سے کام چل سکتا ہے تو لاکھوں روپے ان بے جان چیزوں پر خرچ کرنے کی کیا ضرورت ہے! مثالی گھر کی تعریف یہ بھی ہے کہ وہاں کے رہنے والے اس دنیا کو دارالعمل اور آخرت کو دارالبقاء سمجھتے ہیں۔ انھیں ہر لمحہ یہ یاد رہتا ہے کہ یہ سب سازوسامان دنیا کے ساتھ یہیں رہ جانے والا ہے۔ جاتے وقت صرف لٹھے کا کفن ان کا لباس ہوگا، جس میں جیبیں نہیں ہوتیں کہ انسان کچھ رکھ لے۔ ہاں اس کی نیکیاں، اس کے اعمالِ صالح اس کے ساتھ جاتے ہیں اور اجر کا باعث بنتے ہیں۔ ان تمام نیکیوں کو کرتے ہوئے آپ کی نیت درست سمت میں کارفرما ہوتی ہے۔ آپ اپنی ضروری خواہشات کو دبا کر کسی ضرورت مند کی مدد کرتے ہیں۔ روتے ہوئے کی غم خواری کرتے ہیں۔ یہ آپ کے عملِ تقویٰ میں شامل ہیں اور آپ کی عزت و احترام کا باعث بنتے ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ کا قول ہے: جو اللہ سے جتنا زیادہ ڈرتا ہے، دنیا کے لوگ اس سے اتنا ہی زیادہ ڈرتے ہیں اور جو شخص اللہ سے بے خوف ہوجاتا ہے، دنیا والے اس کو اتنا ہی خوفزدہ کرتے ہیں۔ جس گھر میں اللہ کا ذکر جتنا زیادہ ہوگا، وہ گھر اللہ کے فرشتوں سے آراستہ رہے گا۔ دراصل گھر کی زیب و زینت تو گھرکے مکینوں کے اخلاق و کردار سے ہوتی ہے۔ جس گھر میں ایک دوسرے کے لیے محبت کا جذبہ زیادہ ہوگا اس گھر میں ماحول کی پاکیزگی اور خلوص پایا جائے گا۔ دوسروں کی خاطر اپنی ذاتی خواہشات کی قربانی دینے والے ہمیشہ صابر و شاکر مکین گھروں کو محبتوں کے سائے سے آراستہ کرتے ہیں۔ وہ لوگ مشکلات و مصائب میں دوسرے کی خاطر سینہ سپر ہوجاتے ہیں۔ صبر و ہمت سے ہر مشکل کا سامنا کرتے ہیں۔ اللہ نے جو نعمتیں انھیں عطا کی ہیں، ان کا شکر ہر لمحہ ادا کرتے ہیں۔ طمع، حرص و ہوس سے دور رہتے ہیں۔ نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں، اپنی برائیوں پر ہمیشہ نظر رکھتے ہیں، دوسروں کی خطاؤں کو معاف کردینے میں پہل کرتے ہیں، دوسروں کے احسانات ہمیشہ یاد رکھتے ہیں، اپنے کیے ہوئے احسانات اور نیکیوں کو کنویں میں ڈال کر بھول جاتے ہیں۔ وہ اللہ کے دوست ہوتے ہیں۔ ان میں دریا کی سی سخاوت، آفتاب کی سی شفقت و مساوات اور زمین کی سی تواضع ہوتی ہے۔
مثالی گھروں میں بسنے والے ایسے ہی مکین ہوتے ہیں اور گھر ہمیشہ جذبوں سے بنا کرتے ہیں… فرنیچر یا آرائشی سامان سے نہیں۔ آپ میری اس بات سے اتفاق کریں گی کہ آپ کا دل اس گھر میں جانے کو کیوں چاہتا ہے جہاں کے لوگ آپ کو احترام و عزت دیتے ہیں۔ پرخلوص مسکراہٹ سے آپ کا استقبال کرتے ہیں۔ ان کے گھر سادہ مگر پرسکون ہیں۔ ان کے گھر میں بچھی ہوئی چٹائی پر بیٹھ کر آپ کو زیادہ سکون ملتا ہے۔ چٹائی پر بچھے دستر خوان پر رکھی سادہ چپاتی اور دال کھانے میں آپ کو زیادہ ذائقہ ملتا ہے۔ اپنے گھروں کو محبت کی گرم جوشی سے مثالی بنائیں، سچائی اور سادگی سے آراستہ کریں۔ حرص و ہوس سے اپنے گھروں کو قبرستان نہ بنائیں، جہاں انسان قبروں کے اندر جذبوں سے خالی اور مردوں سے بدتر ہوتے ہیں۔ نفسا نفسی کے اس دور میں اپنے گھروں کو پیار و محبت کے گارے سے تعمیر کریں۔ جذبوں سے آراستہ کریں۔ ہر شخص آپ کے گھر آنے میں سکون محسوس کرے گا۔
——