محرم کے مہینے کو بعض لوگوں نے غم کا مہینہ بنادیا ہے۔ اور اس مہینے میں شادی و دیگر خوشی کی تقریبات کو غلط تصور کرتے ہیں۔ یہ غیر اسلامی اسوہ ہے۔ یہ مہینہ عام مہینوں کی طرح ہی ایک مہینہ ہے سوائے اس کے کہ اللہ کے رسولﷺ نے اس مہینے کی خاص فضیلتیں بیان فرمائیں۔ مسلم سماج شہادتِ حسینؓ ہی سے جوڑ کر اس مہینے کو دیکھتا ہے حالانکہ یہ ایک تاریخی واقعہ تھا، جو اتفاق سے اس ماہ میں واقع ہوا۔
مسلم سماج کو چاہیے کہ وہ اس ماہ کی فضیلت کو سمجھے تاکہ اس سے مغفرت کا سامان بھی ہو اور وہ غلط تصور بھی ختم ہوجائے جو ان کے ذہن میں بیٹھ گیا ہے۔
محرم الحرام کے مہینے میں بہت سی فضیلتیں ہیں۔ اسلامی مہینوں میں سب سے پہلا مہینہ محرم الحرام ہے۔ اس کو محرم اس لیے کہتے ہیں کہ اس مہینے میں جنگ و قتال حرام ہے۔ مسلم شریف میں ہے کہ افضل روزہ رمضان کے بعد محرم کا ہے۔ افضل نماز فرض کے بعد تہجد کی ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: محرم میں روزہ رکھو۔ اللہ تعالیٰ نے گزشتہ قوموں کے گناہ اس مہینے میں بخشے اور آئندہ بھی اللہ تعالیٰ کئی قوموں پر رجوع کرے گا اور ان کے گناہ بخشے گا۔‘‘ (ترمذی)
حضرت عثمان غنی ؓ ذو النورین سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے مہینے محرم کی بزرگی کرو، جس نے محرم کی بزرگی کی۔ اللہ تعالیٰ اسے جنت میں بزرگی عطا کریں گے، دوزخ کی آگ سے محروم کریں گے۔ سرکارِ مدینہ ﷺ نے فرمایا: جس نے ذی الحجہ کے آخری دن اورمحرم الحرام کے پہلے دن روزہ رکھا، تو گویا اس نے سال بھر کے روزے رکھے، اس کے ساٹھ برس کے گناہ بخش دیے گئے۔ پھر فرمایا: جس نے پہلی، دسویں اور آخری محرم کا روزہ رکھا اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ۳۰؍ گھر بناتا ہے، اور جس نے اول تا دس محرم روزے رکھے تو گویا اس نے دس ہزار برس اس طرح عبادت کی کہ رات کو قیام کیا اوردن کو روزے رکھے۔ نیز یہ بھی فرمایا: جو شخص دوزخ کی آگ اپنے اوپر حرام کرانا چاہے، وہ محرم کے روزے رکھے۔ (مکاشفۃ القلوب) پیارے نبی ﷺ نے فرمایا: محرم کے مہینے میں جمعۃ المبارک کو عبادت کرنے والا ایسا ہے گویا اس نے شب قدر پائی۔
حضرت عباسؓ سے مروی ہے کہ جب حضور اکرم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو یہودیوں کو عاشورہ کے دن روزہ رکھتے ہوئے پایا۔ جب ان سے اس کی وجہ پوچھی تو انھوں نے کہا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون پر غلبہ عطا فرمایا، ہم اس کی تعظیم کرتے ہوئے اس کا روزہ رکھتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’ہم موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ قریب ہیں۔‘‘ چنانچہ آپ نے اس دن کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ (مکاشفۃ القلوب، ۶۹۸)
تمام سابقہ اقوام میں اس دن (یومِ عاشورہ محرم کی دس تاریخ) کا روزہ فرض تھا۔ رمضان سے پہلے یہ فرض تھا، مگر رمضان المبارک کے بعد اس روزہ کی فرضیت بھی منسوخ ہوگئی۔ آپ نے ہجرت سے قبل بھی یہ روزہ رکھا اور مدینہ منورہ گئے تو اس کی تاکید فرمائی اور آخری عمرِ دنیاوی میں فرمایا: اگرمیں آئندہ سال رہا تو ۹، ۱۰ محرم کا روزہ رکھوں گا۔ مگر آپ ﷺ نے اسی سال وفات پائی اور دس محرم کے سوا روزہ نہ رکھ سکے۔
پیارے نبیﷺ نے فرمایا: اگر مومن زمین بھر سونا خرچ کرے تو بھی عاشورہ کی فضیلت نہ پاسکے گا۔ اس دن کے روزہ دار کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں،جس دروازے سے چاہے داخل ہو۔
——