عیدالاضحی سے عین ایک روز قبل مولانا محمد فاروق خاں فراز سلطان پوری بھی جوار رحمت میں چلے گئے۔ وہ اسی دن دہلی سے اپنے فرزند کے ساتھ اہل خانہ کے ساتھ عید منانے کے لئے لکھنو پہنچےتھے۔ ۲۸/ جون کو عید الاضحی کے دن ان کے آبائی گاوں میں تدفین ہوئی۔ اللہ تعالی ان کی قبر کو نور سے بھردے اور انکی نیکیوں کے بدلے ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین!
دنیا مومن کے لئے قید خانہ ہے۔ اللہ تعالی نے انہیں اس سے نکال کر جوار رحمت میں بلا لیا۔ ان کی رحلت اور جدائی پر ہمارے دل رنجیدہ اور آنکھیں نم ہیں، مگر ہم اللہ کی رضا پر راضی ہیں اور اس سے امید کرتے ہیں اور دعا بھی کہ وہ ان کی قبر کو جنت کا حصہ بناکر راحت و آرام عطا فرمائے اور قیامت کے بعد ہمیں اس کا موقع عطا کرے کی جنت میں ان کے ساتھ اسی طرح کی مجلس رہے جیسی یہاں میسر تھی۔
قرآن میں غوطہ زنی کرکے حکمت و معرفت کے خزانے حاصل کرنے والی ہندی کی مترجم قرآن،ذخیرہ حدیث پر نظر رکھنے والی اور کئی جلدوں پر محیط کتاب ـکلام نبوت، کی مولف ،تقابل ادیان کا اچھا علم رکھنے والی، شعر و ادب سے گہری وابستگی رکھنے والی اور علم و فضل کے اعتبار سے بلند شخصیت تھی مولانا محمد فاروق خان فراز کی۔ مرنجاں مرنج، خوش دل و خوش خلق شخصیت۔ ان سے جو ملتا گرویدہ ہوجاتا اور جب ان کے پاس سے اٹھتا تو ان کے علم و فہم دین سے بہت کچھ لیے دوبارہ ملنے کی خواہش کے ساتھ اٹھتا۔
اگرچہ وہ ایک وسیع الاطراف علمی شخصیت تھے مگر ان کی شناخت ہندی مترجم قرآن کی حیثیت سے زیادہ تھی۔ ان کا ترجمہ قرآن تحریکی حلقوں میں اس حیثیت سے کافی مقبول ہوا کہ وہ قرآن پڑھنے کےخواہش مند غیر مسلم افراد کو دینے کے لئے زبان و بیان کے لحاظ سے مناسب ترین تھا۔
مولانا فاروق خان صاحب نے حدیث کے میدان میں بھی گراں قدر کام انجام دیا۔ کلام نبوت کے نام سے انہوں نے تفھیم و تشریح پر مبنی احادیث کا ایک مجموعہ کلام نبوت کے نام سے تیار کیا جو کئی جلدوں پر مشتمل ہے اور اردو زبان میں علم حدیث پر اپنی نوعیت کا ضخیم ترین اور منفرد کام ہے۔
وہ خدا مست اورعلم و فکر میں غرق رہنے والے انسان تھے اوردنیا سےان کا صرف اتنا ہی تعلق تھا جتنا زندگی کے لئے ضروری ہے، اس لئے انکی زندگی میں مکمل سادگی تھی جو ان کے لباس سے لےکر طرز زندگی تک میں جھلکتی تھی۔ محبت بانٹنے والے، علم و فکر کے جام لنڈھانے والے، مایوسیوں میں عزم و امید کا روشن چراغ اورقلب و نظر کےتزکیہ اور تربیت کا ذریعہ تھے۔ زندگی کی دوڑ میں جب تھکن کا احساس ہوتا، کارو بار حیات کی ڈور الجھتی محسوس ہوتی یا عبادتوں کا لطف جاتا محسوس ہوتا تو مولانا کی صحبت میں کچھ وقت گزار کر بڑا سکون ملتا۔ اب جبکہ مولانا دہلی سے ہی نہیں اس دنیا سے بھی کبھی نہ آنے کے لئے رخصت ہوگئے ہیں،ہم خود کو لٹا ہوا سا محسوس کرہے ہیں اور یہ سوچ کر آنکھیں بھیگ جاتی ہیں کہ اب کون اپنی گفتگو سے ہمارے قلب و نظر کا تزکیہ کریگا اور کس کی صحبت اب ہمارے عزم وعمل کو روشنی اور رہنمائی دے گی۔
مولانا تو دنیا سے رخصت ہوگئے لیکن وہ جو صدقہ جاریہ تصنیفی کام کی صورت میں چھوڑ گئے ہیں وہ ان کے لئے صدیوں تکاجر کا ذریعہ بنےگا اور آنے والی نسلیں بھی ان سے فیض یاب ہوتی رہیں گی۔ ان کا ترجمہ قرآن اور ان کی علم حدیث کی خدمت یقیناً اللہ اور رسول پاک کی خوشی کا سبب ہونگی اور جس سے اللہ اور رسول خوش ہوجائیں وہ کامیاب ہوا۔