محنت کا صلہ

؟؟؟

اویس اسکول سے آیا تو سیدھا اپنے کمرے میں چلا گیا۔ ’’اویس کیا بات ہے؟ آج تمہارا رزلٹ آنے والا تھا۔‘‘ امی نے کمرے میں آکر پوچھا۔ اویس نے منہ بنا کر رزلٹ کارڈ سامنے کرتے ہوئے کہا: ’’جی! یہ ہے۔‘‘ ’’مبارک ہو بیٹا! تم جماعت میں دوم نمبر پر آئے ہو مگر تم اداس کیوں ہو؟‘‘ امی نے پیار کرتے ہوئے کہا پوچھا تو اویس رونے لگا: ’’امی! میں اول کیوں نہیں آتا؟ ہمیشہ فہیم ہی اول کیوں آجاتا ہے۔ حالانکہ وہ جماعت میں ہمیشہ پڑھائی میں مجھ سے پیچھے رہتا ہے۔مگر امتحان میں وہ اول آجاتا ہے۔ امی مجھے لگتا ہے کہ وہ نقل کرتا ہے۔‘‘اویس نے امی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کی امی مسکرادیں اور بولیں: ’’بیٹا! تم اور زیادہ محنت اور دل لگا کر پڑھائی کرو ۔اس سال تمہیں بورڈ کے امتحان دینے ہوں گے اس میں نقل کرنابہت مشکل ہوتا ہے اور پھر وہاں تم اچھے پیپر دے کر فہیم سے زیادہ نمبر لے سکتے ہو۔‘‘ اویس نے بے یقینی سے پوچھا: ’’کیا واقعی امی!‘‘ امی نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا: ’’بس آج ہی سے اگلے امتحان کی تیاری شروع کردو اور روزانہ سبق یاد کرو۔ پھر دیکھنا تمہیں محنت کا صلہ ضرور ملے گا۔‘‘اویس کو یقین آگیا کہ وہ محنت سے جماعت میں اول نمبر پر آسکتا ہے۔

اگلے ہی دن سے اویس نے خوب محنت سے پڑھنا شروع کردیا۔ وہ اسکول سے چھٹی بہت کم کرتا، روزانہ گھر آکر سبق دہراتا اور امی کو سناتا۔ اسی طرح وقت گزرتا گیا اور سالانہ امتحان سر پر آگئے۔ آج پہلا پرچہ تھا۔ اویس مطمئن تھا کہ اس کی تیاری بہت اچھی ہے۔ ادھر فہیم کو بھی اندازہ تھا کہ اویس کی تیاری مکمل ہے۔ اس نے نقل کے لیے کتاب کے کچھ اوراق پھاڑ کر اپنی پینٹ کی جیب میں چھپالیے کیونکہ یہ سبق اسے یاد نہیں تھے۔ پرچہ شروع ہوا تو اویس نے فوراً حل کرنا شروع کردیا۔ ادھر فہیم پریشان ہوگیا کیونکہ جو سوال پرچے میں آئے تھے ان میں سے اکثر کے جواب اس نے یاد نہیں کیے تھے۔ اس نے چپکے سے پینٹ کی جیب سے پرچے نکالے تاکہ نقل کرسکے۔ مگر اچانک ہی ہال میں موجود نگراں کی نظر اس پر پڑگئی اور وہ پکڑا گیا۔ فہیم روتا اور منتیں کرتا رہا کہ میری امتحانی کاپی واپس کردیں مگر استاد نے اس کی ایک نہ سنی اور اس کی کاپی کے ساتھ نقل کے پرچے جوڑ کر بورڈ میں بھجوادیے تاکہ اب وہ مزید امتحان نہ دے سکے۔ بورڈ کی طرف سے اس سال فہیم کو امتحان دینے سے روک دیا گیا اور اس کا پورا تعلیمی سال ضائع ہوگیا۔ ادھر اویس پوری محنت اور لگن سے پرچے دیتا رہا۔

دو مہینے بعد امتحان کا نتیجہ نکلا۔ اویس نے پورے ضلع میں اول پوزیشن حاصل کی تھی۔ اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا۔ گھر پہنچتے ہی وہ امی سے لپٹ گیا۔ امی نے اسے پیار کیا اور کہا: ’’دیکھا بیٹا! میں تم سے کہتی تھی کہ محنت کا پھل ضرور ملتا ہے۔‘‘

اگر سچے دل اور ایماندادی سے کسی مقصد کے لیے محنت کی جائے تو اس کے صلے میں کامیابی ضرور ملتی ہے اور خدا بھی مدد کرتا ہے۔‘‘ اویس نے کہا: ’’جی ہاں، امی! آپ نے ٹھیک کہا۔ اب میں ہمیشہ دل لگا کر محنت سے پڑھائی کیا کروں گا تاکہ کبھی ناکام نہ ہوسکوں۔‘‘ سچ ہے کہ محنت کا صلہ ضرور ملتا ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں