گذشتہ ماہ خواتین کی رضا کارانہ خدمات اور سماجی سرگرمی کی اہمیت کاتذکرہ ہوا تھا۔ اور یہ کہا گیا تھا کہ مسلم سماج میں ایسے ماڈلز کے ارتقاء کی ضرورت ہے جن کے ذریعہ خواتین اپنی صلاحیتوں کو مفید سماجی مقاصد کے لیے استعمال کرسکیں اور رضاکارانہ خدمات کے ذریعہ، اپنی بنیادی گھریلو ذمہ داریوں کو ادا کرتے ہوئے سماج اور انسانیت کی خدمات انجام دے سکیں۔
آج ہم اسلامی ممالک میں موجود ایسے کچھ ماڈلز پر گفتگو کریں گے۔ یہ سلسلہ آگے بڑھا تو انشاء اللہ کبھی ہمارے ملک میں موجود اس قسم کے ماڈلز پر بھی گفتگو ہوگی۔ اسلامی ممالک میں خواتین کے سرگرم و فعال رول کے تعلق سے تین ممالک اور وہاں کی اسلامی تحریکات خصوصیت سے ممتاز ہیں۔ سوڈان، ایران اور ملیشیا۔ یوں تو تیونس، مصر اورشام وغیرہ کی نسوانی تنظیمیں بین الاقوامی میڈیا میں زیادہ زیرِبحث رہتی ہیں لیکن یہ زیادہ تر وہ تنظیمیں ہیں جو نسوانی آزادی کے مغربی تصور سے متاثر ہیں۔ اور مقابلہ ہائے حسن، اباحیت و عریانیت اور اخلاق باختگی کو آزادی و حریت نسواں کے مظاہر سمجھتی ہیں۔ اس لیے یہ ماڈلز ہمارے زیر بحث نہیں ہیں۔ سوڈان، ملیشیا اور ایران کی نسوانی رضاکارانہ سرگرمیوں کی اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ زیادہ تر اسلامی اصولوں کے دائرہ میں اور اسلامی تحریکات کی قیادت و راہ نمائی میں انجام پارہی ہے۔ اس لیے اس میں ہمارے لیے سبق اور رہنمائی و تحریک کے بہت سے پہلو موجود ہیں۔ بین الاقوامی فورموں میں زیادہ تر انہی ممالک کی خواتین اسلام کے موقف کی نمائندگی کرتی ہیں۔ خواتین سے متعلق بیجنگ اور اس کے بعد کی کانفرنسوں میں انہی ممالک کی این جی اوز نے کانفرنس کے اندر اور باہر اسلامی موقف کی پرزور ترجمانی کی تھی۔ اور کانفرنس کے فیصلوں پر اپنا احتجاج نوٹ کرایا تھا۔
ملیشیاء:
ملیشیاء نے گذشتہ چند سالوں میں اسلامی تحریک کے بہت سے میدانوں میںنمایاں ترقی کی ہے۔ اور کئی محاذوں پر عالم اسلام کے لیے مثالی اور قابلِ عمل ماڈل پیش کیے ہیں۔ خواتین کی سرگرمی اور ان کے سماجی رول کے تعلق سے بھی ملیشیاء کی اسلامی تحریکات نے بہت قابل قدر پیش رفت کی ہے۔
ملیشیاء کی سماجی زندگی میں ہر سطح پر خواتین کی بھر پور شمولیت نظر آتی ہے۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی کوالالمپور اور دیگر جامعات میں برقع پوش طالبات کی تعداد طلبہ کی تعداد کے تقریباً مساوی ہے۔ یونیورسٹیوں کے اساتذہ میں بھی خواتین کا خاصا بھاری تناسب ہے۔ سیمیناروں، علمی محفلوں اور مذاکروں میں خواتین نہ صرف شریک ہوتی ہیں بلکہ سرگرم اور مؤثر رول بھی ادا کرتی ہیں۔ اور یہ سب اکثر حجاب (جسے ملیشیا میں تو ڈنگ کہا جاتا ہے) کی بھر پور پابندی کے ساتھ ہوتا ہے۔
ملیشیاء میں خواتین کی کئی سماجی تنظیمیں اور ادارے کام کرتے ہیں۔ ملک گیر تنظیموں میں نمایاں نام ’’سسٹرز ان اسلام‘‘ کا ہے۔ ان کے بعض خیالات سے علماء نے اختلاف کیا ہے۔ ہم بھی ہر مسئلہ پر ان کے موقف کی تائید نہیں کرتے۔ لیکن سماجی سطح پر خواتین کے اندر تعلیمی بیداری لانے، ان کے سماجی مقام کو اٹھانے، ان کے شعور کے ارتقاء اور ان کے مسائل کے حل کے لیے اس تنظیم نے جو عملی کام انجام دئے ہیں، ان سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا۔ پورے ملیشیاء میں ان کی شاخیں ہیں۔ جلسوں، سیمینارز، اسٹڈی سرکلز وغیرہ کے ذریعہ وہ خواتین کے شعور کو بیدار کرتی ہیں۔ ان کے لیگل سیل سسرالی رشتہ داروں کے مظالم کی شکار خواتین، گھریلو تشدد کی شکار خواتین، کام کرنے والی عورتوں اور گھریلو خادماؤں وغیرہ کے قانونی مسائل حل بھی کرتے ہیں اور قانونی حقوق سے متعلق بیداری بھی پیدا کرتے ہیں۔ ان کے علاوہ تنظیم کے تحت چلنے والے خیراتی اداروں سے غریب و بے سہارا خواتین کو سہارا دینے کا کام بھی بڑے پیمانے پر انجام پاتا ہے۔
ملیشیاء میں خاص طور پر صارفوں کی تحریک Consumer Movemnetبہت سرگرم ہے۔ اس تحریک میں بھی خواتین کا رول بہت نمایاں ہے۔ بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں اور کاروباری ادارے ایک عام صارف کو طرح طرح سے دھوکہ دیتے ہیں اور اس کی جیب پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ یہ تحریک بنیادی طور پر اس عالمی لوٹ کا مقابلہ کرنے کے لیے وجود میں آئی ہے۔ خواتین کو اشیاء، ان کی خصوصیات، ان کے نفع بخش و نقصاندہ پہلوؤں پر بیدار کیا جاتا ہے۔ کمپنیوں اور سپر بازاروں کی شاطر پالیسیوں کا پردہ فاش کیا جاتا ہے۔ صارف کے حقوق کا استحصال کرنے والے اداروں کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جاتی ہے۔ اس طرح یہ تحریک ذمہ دارانہ تجارتی لین دین کو فروغ دینے کا اہم ذریعہ ثابت ہورہی ہے۔ ہندوستان کی خواتین نئے معاشی پس منظر میں اس تحریک سے کافی کچھ سیکھ سکتی ہیں۔
ماحولیات کے تحفظ کی تحریک میں بھی ملیشیاء کو نمایاں مقام حاصل ہے۔ اس تحریک میں بھی خواتین بہت سرگرم ہیں۔ اسلام پسند بہنوں نے بھی ماحولیاتی تحفظ کے لیے بہت سے ادارے قائم کررکھے ہیں۔ چند سال قبل کوالالمپور میں سائنس کی ایک طالبہ سے ملاقات ہوئی تھی جس نے مختلف یونیورسٹیوں میں طالبات کے ایسے گروپ تشکیل دے رکھے تھے جو مختلف ماحولیاتی مسائل پر گھریلو خواتین کے اندر بیداری لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ فطری زندگی Natural Lifeاور متبادل طرزِ زندگی Alternate Life Styleکے فروغ کی جو کوششیں ملیشیاء میں ہورہی ہیں ان میں بہت نمایاں رول خواتین ہی کا ہے۔
بلاسودی بنک کاری، کوآپریٹیو اسٹورز کا قیام، خواتین کی ووکیشنل تربیت وغیرہ معاشی محاذوں پر بھی اسلام پسند بہنیں سرگرم ہیں۔
ابیم ABIM(انگتان بیلا اسلام ملیشیاء) ملیشیاء کے پڑھے لکھے پروفیشنلز کی سماجی تحریک ہے۔ سابق نائب وزیر اعظم انور ابراہیم بھی اس تحریک کے صدر رہ چکے ہیں۔ ملیشیاء کے پڑھے لکھے انجینئرز، ڈاکٹرز، وکلاء، اور تاجروں کی بڑی تعداد اس تنظیم سے وابستہ ہے۔ تنظیم عوامی زندگی کے ہر اہم محاذ پر سرگرم ہے۔ اس تنظیم میں بھی ہم نے خواتین کے بہت ہی سرگرم رول کو محسوس کیا تھا۔ ابیم کے صدر دفتر میں جہاں اس کی مرکزی ٹیم کے ساتھ ہماری میٹنگ طے تھی، بڑی تعداد میں خواتین کارکنان نظر آئیں۔ ان کے مرکزی قائدین میں بھی کئی خواتین شامل تھیں۔
سیاسی محاذ پر ملیشیاء کی اہم اسلامی جماعت وہاں کی حزب اختلاف ’پاس‘ (PAS) ہے۔ پاس کے صدر دفتر میں اس کے مرکزی قائدین اور کیلتان اور ترلگانو کے وزرائے اعلیٰ کے ساتھ ڈنر کی دعوت پر ہم گئے تو وہاں ہماری ملاقات رکن پارلیمان محترمہ زینب ابراہیم سے ہوئی۔ محترمہ زینب ابراہیم جن پر مغربی میڈیا مستقل دقیانوسیت، خواتین بے زاری وغیرہ کے الزامات لگاتا رہا تھا، پارلیمان میں اپنے سرگرم رول کے باعث بہت جلد ملیشیائی خواتین کی متفقہ آواز بن گئیں۔ انھوں نے ملیشیائی خواتین کی ترقی و بہبود کے لیے جو کام کیے، انہیں آج ان کے مخالف بھی تسلیم کرتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ملیشیاء کے اقلیتی طبقوں (چینی اور ہندو) کی خواتین ان کو اپنا مسیحا مانتی ہیں۔ گذشتہ ماہ پاس کی خوا تین ونگ کی سربراہ محترمہ عزیزہ خطیب نے خواتین کی ایک نئی مستقل تنظیم ’سری کاندی‘ لانچ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ ’النسا‘ کی تحریک جو گذشتہ کئی سالوں سے کام کررہی ہے اسے ملیشیاء کے تمام حصوں میں سرگرم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یہ دونوں تحریکیں خواتین کی سماجی بہبود و ترقی کے لیے کام کرتی ہیں۔
گذشتہ ماہ پاس نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ ڈاکٹر ستی ماریہ محمود نائب صدر کاالیکشن لڑیں گی۔ ڈاکٹر ماریہ برطانیہ کی سند یافتہ میڈیکل پروفیشنل ہیں اور کیبانگ رام میڈیکل یونیورسٹی میں فزیالوجی ڈیپارٹمنٹ کی ہیڈ ہیں۔ ملیشیائی اخبارات میں ان کی ذہانت، سرگرمی اور حرکیت کے بہت چرچے ہیں۔ دو بچوں کی ماں ڈاکٹر ماریہ دنیا بھر میں ان لا محدود مواقع کی علامت بن گئی ہیں جو اسلام خواتین کو علمی، پیشہ وارانہ اور سیاسی محاذ پر عطا کرتا ہے۔
سیاسی محاذ پر یہاں اسلام پسند خواتین میں ایک اور نمایاں نام سابق نائب وزیر اعظم انور ابراہیم کی زوجۂ محترمہ ڈاکٹر عزیزہ ابراہیم کا ہے۔ ڈاکٹر عزیزہ بھی یونیورسٹی پروفیسر ہیں اور اپنے شوہر کے قید و بند کی صعوبتوں کے دوران بڑی اولوالعزمی، جرأت اور بصیرت کے ساتھ انھوں نے ایک نئی سیاسی پارٹی قائم کی اور اپنے شوہر کے اسلامی مشن کو زندہ رکھا۔ گذشتہ دنوں انور ابراہیم دلّی آئے تھے اور ایک نشست میں انھوں نے تفصیل سے بتلایا تھا کہ کس طرح ان کی بیوی اپنی نو عمر بیٹیوں کے ساتھ، چوطرفہ لڑائی لڑتی رہی۔
چندر مظفر نہ صرف ملیشیاء میں بلکہ پوری دنیا میں گلوبلائزیشن مغربی سرمایہ دارانہ معیشت اور امپریلزم کے خلاف طاقتور آواز مانے جاتے ہیں۔ انصاف پر مبنی دنیا کے لیے ان کی عالمی تحریک نہ صرف مسلمان حلقوں میں بلکہ ساری دنیا میں قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ اس تحریک میں بھی ملیشیائی خواتین کا بہت نمایاں رول ہے۔ خود چندر مظفر کی اہلیہ محترمہ جو ہمیشہ ہر محاذ اور ہر مشن پر پولیوں سے متاثر اپنے معذور شوہر کے ساتھ رہتی ہیں، اور ان کی دست و بازو بنی ہوئی ہیں، اس تحریک کی اہم بنیادوں میں سے ایک ہیں۔
سوڈان:
سوڈان شمالی افریقہ کا ایک پسماندہ ملک ہے۔ یہ اس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز بن گیا جب یہاں معروف اخوانی رہنما ڈاکٹر حسن الترابی کی قیادت میں اسلامک فرنٹ نے بڑی زبردست سماجی تبدیلی پیدا کی۔ اور ڈاکٹر ترابی کے دست راست عمر حسن البشیر سوڈان کے صدر بنے اور اسلام کی تعلیمات کے مطابق اصلاحات نافذ کیں۔
مجھے کبھی سوڈان جانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ لیکن سوڈان کی اسلامی تحریک کے رہنماؤں سے مختلف بین الاقوامی کانفرنسوں میں ملاقاتوں کا موقع ضرور ملا ہے۔ ڈاکٹر ترابی کو دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں سے سب سے بڑی شکایت یہی ہے کہ انھوں نے خواتین کی قوتوں اور صلاحیتوں کا بھر پور استعمال نہیں کیا ہے۔
سوڈان کی اسلامی تحریک میں خواتین کا رول شاید مردوں سے بھی زیادہ نمایاں اور فعال ہے۔ سوڈان کے معاشرہ کو بدلنے اور وہاں اسلامی جذبات کو پروان چڑھانے میں خواتین نے ڈاکٹر ترابی کی زوجۂ محترمہ کی قیادت میں جو رول ادا کیا ہے وہ بلاشبہ دنیا بھر کی اسلام پسند بہنوں کے لیے ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے۔
اس رول کی تین نمایاں خصوصیات ہیں۔ اسلام پسند خواتین میں اعلیٰ تعلیم کا فروغ، ہر فیلڈ میں ان کی سرگرم شرکت اور ان کی بھر پور سماجی فعالیت۔
اعلیٰ تعلیم کی صورتحال کا اندازہ اس سے لگائیے کہ سوڈان کی یونیورسٹیوں میں طالبات کا تناسب 62%ہے۔ (شاید یہ صورتحال مغربی ممالک میں بھی نہیں ہے۔) مجھے اسلامی طلبہ تنظیموں کے مختلف بین الاقوامی اجلاسوں میں شرکت کا موقع ملا۔ سوڈان وہ واحد ملک ہوتا تھا جہاں سے اسلام پسند طلبہ برادری کی نمائندگی کوئی طالبہ کرتی۔
سوڈانی خواتین (اپنے فقہی مسالک کے مطابق) شریعت کی پاسداری کرتے ہوئے ہر فیلڈ میں سرگرم ہیں۔ سوڈان کے قاضی القضاۃ (شرعی کورٹ کے چیف جسٹس) شیخ الغزالی نے ساری دنیا کو حیرت زدہ کردیا تھا جب انھوں نے تین خواتین کو شرعی عدالتوں میں جج کے عہدوں پر فائز کیا۔ اس وقت سوڈان میں مختلف عدالتوں کے ۸۰۰ ججوں میں ۸۷ خواتین ہیں۔ خود سپریم کورٹ میں پانچ خواتین جج ہیں۔ (یہ صورتحال بہت کم مغربی ممالک میں ہے۔) محترمہ فریدہ ابراہیم خرطوم ہائی کورٹ کی چیف جسٹس ہیں صحت، سماجی بہبود، پبلک سروس، مین پاور، کابینی امور وغیرہ وزارتوں میں خواتین کابینی وزیر ہیں۔ دنیا کے ترقی یافتہ جمہوری ممالک (بشمول ہندوستان) سے بہت پہلے سوڈان نے مرکزی پارلیمان میں خواتین کے لیے چوتھائی نشستیں مختص کردی ہیں۔ پارلیمانی خاتون ارکان کی حقیقی تعداد مختص نشستوں کی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔
سماجی فعالیت کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ اقوام متحدہ کے معاشی کمیشن برائے افریقہ نے افریقہ میں نمایاں تبدیلیاں پیدا کرنے والی ۵۰ خواتین کے تذکرہ پر مشتمل ۱۹۹۶ء میں جو دستاویز شائع کی تھی (Africa’s Role of Distinguished Daughters – 1996 UN Economic Comission for Africa) اس میں ۱۰ سوڈانی خواتین شامل ہیں۔
سوڈانی امور کے مشہور مغربی ماہر کیرولین فلوئیر Carolyn Fluehrنے اپنا تاثر ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
’’جب میں نے سوڈان میں کام کرنا شروع کیا تو میں یہ دیکھ کر ششدر رہ گیا کہ عرب اور اسلامی سماجوں کے بارے میں اپنے مطالعہ کے باعث سوڈانی خواتین کی غیر فعالیت، خاموشی اور بے حسی سے متعلق میری جو توقعات تھیں، ان سے وہ حقیقت (A Challanging Myth; Woman in Shariah Law in Sudan) یکسر مختلف تھیں جس کا سوڈانی خواتین کے عملی مشاہدہ کے نتیجہ میں مجھے سامنا کرنا پڑا۔‘‘
سوڈان میں خواتین کی رضا کارانہ تنظیموں کے کئی محاذ ہیں۔ دیہی آبادیوں میں بہبود کے کام تعلیمی ترقی کے کام، غریبی کے ازالہ کی تدابیر کا نفاذ، اسلامی تحریک کے لیے سیاسی جدوجہد، ثقافتی پروگراموں کے ذریعہ عوام کے شعور کی بیداری کے کام، صحت عامہ کے کام، جنوبی سوڈان میں جنگ کے میدان پر فوجیوں کی مرہم پٹی اور مدد کے لیے دستوں کو بھیجنے کا کام، جنوبی علاقوں میں دعوتی وفود بھیجنے کا کام اور اس جیسے کئی اور کام- اس وقت سوڈان مغربی دنیا خصوصاً عالمی معاشی اداروں کے عتاب کا شکار ہے۔ اس ماحول میں سوڈان کی معیشت کو سہارا دینا بڑا چیلجنگ کام ہے۔ اس کام کے علمی و عملی تقاضوں کو نبھانے میں بھی خواتین پیش پیش ہیں۔
خرطوم کا انٹرنیشنل اسلامک ویمن سینٹر، انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مسلم وومین، ویمن آرٹسٹس فورم ، حوا سوسائٹی فار ویمن، الصافات چیریٹی، افریقن چیریٹیبل سوسائٹی فار ویمن اینڈ چائلڈ کئیر، بزنس اینڈ پروفیشنل ویمن کلب وغیرہ سوڈانی خواتین کی اہم تنظیمیں اور ادارے ہیں۔
ایران:
ایران میں اسلامی انقلاب سے قبل بھی اور انقلاب کے بعد بھی خواتین کا رول بہت نمایاں رہا ہے۔ مختار مسعود نے ایرانی انقلاب کے آنکھوں دیکھے حال’’لوحِ ایام‘‘ میں جو منظر کشی کی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خواتین اس انقلاب کے ہر محاذ پر پیش پیش تھیں۔
اس وقت ایران میں خواتین کی تقریباً ۵۸ نمایاں تنظیمیں ہیں جو ایک فیڈریشن Women’s NGOs Coordinating Office سے وابستہ ہیں۔ یہ این جی اوز کئی محاذوں پر کام کرتی ہیں۔ تہذیبی و سماجی، تعلیمی و تحقیقی، معاشی، صحت عامہ سے متعلق اور رفاہی و بہبودی سے متعلق امور کے علاوہ ماحولیاتی مسائل بھی ان کے ایجنڈا میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔
مذکورہ بالا آفس کی ایک رپورٹ کے مطابق ایران میں خواتین کے تقریباً ۶۰؍ ایسے کوآپریٹیو ادارے کام کرہے ہیں جو خواتین ہی کے ذریعہ چلائے جاتے ہیں۔ سستے نرخ پر اشیاء ضروریہ فراہم کرتے ہیں اور دیہی غربت کے ازالہ میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔
نوجوان لڑکیوں کا سماجی نیٹ ورک Young Women’s Clubsبھی دیہی معیشت کے استحکام میں اہم رول ادا کررہا ہے۔ ایران کے مختلف علاقوں میں ایسے ۱۰۷ کلب ہیں جو اسکولوں کے قیام، تعلیم بالغان، ووکیشنل اور پیشہ وارانہ تربیت کے اداروں کا قیام وغیرہ جیسے امور میں مصروف ہیں۔
انقلاب کے فوری بعد امام خمینی کی قیادت و رہنمائی میں قائم کردہ ’قم کی بارہویں فروردین چیریٹی‘‘ ایک سرگرم سماجی تحریک ہے۔ جو قُم کے دیہاتوں میں اسکولوں اور ہاسپٹلوں کے قیام و انصرام کا کام کرتی ہے۔ اس پورے علاقے میں تعلیم و صحت عامہ سے متعلق ترقی لانے میں اس تحریک کا اہم رول ہے۔ فی الحال امام خمینی کی صاحبزادی محترمہ فریدہ مصطفوی اس تحریک کی سربراہ ہیں۔
ایران کی گائنا کولوجسٹ ڈاکٹروں کی ایسوسی ایشن کا بھی یہاں خصوصی تذکرہ ضروری ہے۔ اس ایسوسی ایشن نے ایران کے دیہاتوں میں ’برتھ سینٹرز‘ قائم کررکھے ہیں۔ جہاں ایسوسی ایشن کی ممبران باری باری رضا کارانہ وقت دیتی ہیں اور اس بات کو یقینی بناتی ہیں کہ دیہاتوں کی غریب خواتین کو مفت طبی خدمات دستیاب رہیں۔
اسی طرح ہیلتھ والنٹیرز آف شیراز، نوجوان خواتین کی سرگرم تنظیم ہے۔ اس میں میڈیکل اور نرسنگ کے شعبوں سے وابستہ خواتین کے علاوہ عام پڑھی لکھی خواتین بھی شامل ہیں جو صحت عامہ، سوشل میڈیسن، پریوینٹیو میڈیسن، فرسٹ ایڈ وغیرہ کی بنیادی ٹریننگ حاصل کرتی ہیں۔ ہر والنٹیئر کے ذمہ ۲۰ غریب دیہاتی پسماندہ خاندان ہوتے ہیں۔ ان خاندانوں سے مستقل ربط، ان کے اراکین کا بروقت علاج، حاملہ عورتوں کی نگہداشت، بچوں کے مسائل پر توجہ، ٹیکوں کا نظم، بوڑھوں اور بیماروں کی نگہداشت و علاج وغیرہ کاموں کی نگرانی اس والنٹیر کے ذمہ ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ۱۲۰۰۰ خواتین صرف صوبۂ فرس میں اس تحریک سے بحیثیت والنٹیر وابستہ ہیں یعنی گویا تقریباً ڈھائی لاکھ خاندانوں کی نگہداشت ہورہی ہے۔
علمی محاذ پر سینٹر فار ویمن اسٹڈیز اینڈ ریسرچ بہت نمایاں کام کررہا ہے۔ اس کے تحت خواتین سے متعلق امور ومسائل پر تحقیقات کی جاتی ہیں۔ ڈاکٹریٹ کی سند رکھنے والی محقق خواتین کی بڑی تعداد اس سے وابستہ ہے۔ ان کا جرنل، ’فرزانہ‘ جو فارسی اور انگریزی دونوں زبانوں میں شائع ہوتا ہے، خواتین کے امور پر اہم بین الاقوامی جرنلوں میں شمار ہوتا ہے۔
خدیجۃ الکبریٰ فاؤنڈیشن کی کارکردگی خصوصیت کے ساتھ قابل ذکر ہے۔ یہ فاؤنڈیشن ایران کے جنوب مشرقی علاقہ (پاکستان کے صوبہ بلوچستان سے متصل) کے باشاگرد میں کام کرتا ہے۔ یہ قبائلی علاقہ ہے اور ایران کا غریب ترین علاقہ مانا جاتا ہے۔ یہاں غربت کے خاتمہ میں خدیجۃ الکبریٰ فاؤنڈیشن کی کارکردگی سوشالوجی کی معتبر جرنلوں میں مستقل بحث کا موضوع رہی ہے۔ فاؤنڈیشن نے علاقہ کے مختلف مقامات پر چھ ’ریلیف کینواز‘ بنائے۔ ہر کینوس میں تمام ضروری ادویہ اور طبی سہولتوں سے آراستہ میڈیکل یونٹ، غذا کی فراہمی، اشیائے ضروریہ کی فراہمی وغیرہ کے لیے ایڈ اور لاجسٹک یونٹ اور ایک تعلیمی یونٹ ہوتا ہے۔ رضا کار خواتین اپنے نوعمر بچوں اور بچیوں کے ساتھ ان یونٹوں میں ۲۰ دن سے ایک ماہ کا وقت دیتی ہیں۔ ان میں میڈیکل تدریس وغیرہ پیشوں سے وابستہ خواتین بھی ہوتی ہیں جو متعلقہ یونٹوں سے وابستہ کردی جاتی ہیں۔ اس طرح خدیجۃ الکبریٰ کے نام پر یہ بہنیں ام المومنین حضرت خدیجہؓ کے حقیقی کردار کو زندہ کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔
ان کے علاوہ ’جمیع زینب‘ رائد ایجوکیشنل چیریٹی، چیریٹیبل ویمن ایسوسی ایشن، زینب کبریٰ فاؤنڈیشن (زلزلہ زدہ ردبار کے علاقہ میں) ویمن اینڈ سسٹینبل ڈیولپمنٹ اسوسی ایشن (Women and Sustainable development Association) (ماحولیات کے محاذ پر)ویمن اگینسٹ انوایرومینٹل پالوشن (Women Against Enviornmental Pollution) وغیرہ ایرانی خواتین کی نمایاں این جی اوز ہیں۔
ہم نے بہت اختصار کے ساتھ تین اسلامی ممالک میں اسلام پسند خواتین کی سماجی سرگرمیوں کا بہت سرسری جائزہ لیا ہے۔ صفحات کی تنگی اس سے زیادہ تفصیل کی اجازت نہیں دیتی لیکن یہ سرسری جائزہ بھی یہ بتلانے کے لیے کافی ہے کہ ہندوستان میں خواتین کی اسلامی تحریک کو ابھی کتنا لمبا سفر طے کرنا باقی ہے۔ ملیشیاء، سوڈان اور ایران کی بہنوں نے اپنے عملی رول سے یہ واضح کیا ہے کہ اسلامی اقدار کے دائرہ میں خواتین کے لیے کتنی وسعتیں ہیں اور وہ خالص اسلامی معاشروں میں رہتے ہوئے، اور اسلامی اقدار کو سینے سے لگائے ملک و قوم کے لیے کیسے تعمیری کام انجام دے سکتی ہیں۔
اس عملی شہادت کا فریضہ ابھی ہندوستان کی مسلم خواتین پر باقی ہے اور جب تک اس فریضہ کی ادائیگی کی کوشش شروع نہیں ہوتی شاہ بانو اور عمرانہ جیسی خواتین ہی ہندوستانی مسلم خواتین کی علامات سمجھی جاتی رہیں گی۔