مختلف مذاہب میں حجاب کا تصور

ڈاکٹر عظمیٰ خاتون

عموماً حجاب یا پردہ کو مسلمانوں سے منسوب کیا جاتا ہےاور یہ سمجھا جاتا ہے کہ دیگر آسمانی مذاہب میں پردہ کا تصور نہیں ہے، جب کہ اگر ہم تاریخ کا جائزہ لیں تو اس کا استعمال قدیم زمانے سے ہی چلا آرہا تھا۔ پردے کا رواج آشوریوں، سومریوں، بابلیوں کی تہذیب کے علاوہ، میسو پوٹیمیا،اور قدیم یونان میں بھی پایا جاتا تھا۔ گھر سے باہر نکلتے وقت خواتین سر ڈھانپا کرتی تھیں ،سر کو کھلا چھوڑنا ایک کبیرہ گناہ سمجھا جاتاتھا اور اس کی خلاف ورزی کرنے والی عورت کو سخت سزائیں دی جاتی تھی۔ اب ہم ذیل میں کچھ مذاہب کا تذکرہ کرتے ہیں جہاں پردہ کا واضح تصور ملتا ہے۔
یہودیت
عبرانی زبان میں لفظ حجاب’’ہتصاعیف‘‘کا مترادف ہے اور اصطلاحاً ایسی چادر کو کہتے ہیں جو بدن اور بالخصوص سر کو چھپاتی ہو۔تلمود یہودی خواتین پر حجاب فرض کرتا ہے جس کے بغیر انہیں باہر نکلنے کی اجازت نہیں اور شوہر کو یہ حق دیتا ہے کہ خلاف ورزی کرنے پر اپنی بیوی کو طلاق دے دے۔
بعض یہودی علماء سے منقول ہے کہ شادی شدہ عورت کو سر چھپانا چاہیے یعنی غیر شادی شدہ کے لئے ضروری نہیں ہے مگر یہ متفق علیہ قول نہیں ہے ،یہودی عالم موسیٰ بن میمون اس بارے میں لکھتے ہیں کہ:’’اسرائیلی عورتوں کے لئے کھلے سر بازار جانا جائز نہیں ہے ،چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ۔ ‘‘
(Mayer Schiller,op,cit:pp104-105)
جن حضرات نے غیر شادی شدہ عورت کو سر کھلا رکھنے کی اجازت دی ہے ان کا مقصد ہے کہ نابالغ لڑکیوں کے لیے سر چھپانا ضروری نہیں ہے۔تلمود میں سر چھپانے کی احکام اس طرح بیان کئے گئے ہیں۔’’مرد کبھی اپنا سر چھپا بھی سکتے ہیں اور کبھی کھلا بھی رکھ سکتے ہیں، لیکن عورتیں ہمیشہ اپنا سر چھپائیں گی اور نابالغ بچیاں سر نہ چھپائیں گی۔‘‘اسی بنا پر یہودی علماء نے کہا ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو کھلے سر اپنے گھر سے نکلتے ہوئے دیکھے تو وہ کافر ہے اور اس پر واجب ہے کہ وہ اس کو طلاق دیدے۔‘‘(پیدائش ۲۵:۱۰،ص۴۱،کتاب مقدس، ناشر جیولنکس ریسورس کنسلٹینٹ،۲۰۱۵ء)
یہودی علماء کے نزدیک عورت کا سر ننگا کرنا ایسا ہی ہے گویا اس نے اپنے جنسی اعضاء نمایاں کیے ہوں۔ یہودی شریعت میں نمازیں اور دعائیں کسی ننگے سر عورت کی موجودگی میں قبول نہیں ہوتیں کیوں کہ اسے عریانیت سمجھا جاتا تھا اور ننگے سر کے جرم کے پاداش میں جرمانہ تک کیا جاتا تھا۔ اس کے بر عکس فاحشائوں اور طوائفوں کو یہودی معاشرے میں سر ڈھانپنے کی اجازت نہیں تھی تاکہ شریف اور پیشہ ور عورتوں میں فرق کیا جا سکے۔
یہودی مذہب میں چہرہ کو شامل کرتے ہوئے عورت کے مکمل پردہ کا تصور پایا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں ڈاکٹر Menachem M Brayerنے اپنی کتاب ’’عبرانی ادب میں یہودی عورتیں‘‘میں لکھتے ہیں کہ: ’’یہودی خواتین کا طریقہ تھا کہ وہ سر ڈھک کر باہر نکلتی تھیں اور بعض دفعہ ایک آنکھ کو چھوڑ کر پورا چہرہ بھی ڈھانکے ہوئے ہوتی تھیں۔‘‘
(Menachem M Brayer,op,cit,p:239)
ان تصریحات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہودیوں کے یہاں پردہ کے قریب قریب وہی احکام ہیں جو مسلمانوں کے یہاں ہیں۔یہودی مذہب میں پردہ کے سلسلہ میں مردوں اورعورتوں کے احکام یکساں نہیں ہیں،اسی لئے تورات نے عورت کو مرد کا اور مرد کو عورت کا لباس پہننے سے منع کیا ہے،چنانچہ تورات میں لکھا ہے: ’’عورت مرد کا لباس نہ پہنے اور نہ مرد عورت کی پوشاک پہنے،کیوں کہ جو ایسے کام کرتا ہے وہ خداوند کے نزدیک مکروہ ہے۔‘‘ (استثنائی،۵:۱۲،کتاب مقدس )
یہودی خواتین اپنے سر کو بھی ڈھانپتیں اور بعض اوقات اپنے چہرے کو بھی ،وہ کبھی بھی عوامی مقامات پر نقاب کے بغیر نظر نہیں آتی تھیں۔کہا جاتا ہے کہ قدیم عبرانی نقاب بعض اوقات اتنا بڑا ہوتا تھا کہ اس سے پورے جسم کو ڈھانپ لیا جاتا تھا اور سر کھلا رکھنے والی عورتوں کو شائستگی کی توہین سمجھا جاتا تھا۔تورات کی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی مذہب میں بھی عورتوں کے لیے پردہ کا حکم تھا ۔جیسا کہ اسلام میں ہے۔
عیسا ئیت
عیسائی مذہب میں بھی پردے کا ثبوت ملتا ہے۔ بائبل میں حجاب کے لیے مترادف لفظ ’’Peplum‘‘کا ذکر ہوا ہے۔جس کے معنی ایسی چادر یا رداء کے ہیں جس کو عورت اپنے سر پر اس طرح رکھتی ہیں جیسے یونانی عورتیںرکھتیں تھیں اور یہ بدن کے ساتھ ساتھ چہرے کو بھی چھپاتی اور صرف آنکھیں نظر آتی تھیں۔
عیسائیوں کے یہاں حضرت مریم کی شخصیت آئیڈیل اور نمونہ ہے۔ ان کی تصویریں بھی اس طرح بنائی جاتی ہیں کہ سوائے چہرہ کے پورا جسم چھپا رہتا ہے، آج بھی چرچ کی راہبات سوائے چہرہ کے پورے جسم کو چھپانے والا ڈھیلا ڈھالا لباس پہنتی ہیں۔ جن مغربی ملکوں میں برقعہ یا حجاب پر پابندی لگائی گئی ہے، وہاں بھی ان کو اپنا بدن ڈھانک کر رکھنے کی اجازت دی گئی ہے۔ راہبات کے لئے تو سر چھپانا ان کے یہاں واجب ہے ہی،لیکن اس کے علاوہ بعض عیسائی فرقوں جیسے: آمیش اور مینو نایت کے نزدیک عورت کے لئے سر چھپانا ضروری ہے ،بلکہ ۱۹۱۷ء تک کیتھولک چرچوں میں عورتوں کے لئے سر چھپانا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ان کے لیے اس پر سخت پابندیاں بھی عائد کی گئی تھیں اگر وہ کھلے سر باہر جاتی ہیںیا چرچ میں جاتی ہیں، تو وہ قانون کو توڑتی ہیں۔(ویکیپیڈیا،مادہ:غطاء الراس فی المسیحیۃ)
اس سلسلے میں کرنتھیوں کو سینٹ پال کے خط میں کہا گیا کہ ایسی صورت میں ان کو بال کاٹنے کی سزا دی جائے گی کیوں کہ ان کے نزدیک پردہ عورتوں کا اعزاز سمجھا جاتا ہے۔ مسیحی دانشمند (جرجی زیدان)اس بارے میں کہتے ہیں کہ :’’اگر حجاب سے مراد فقط ظاہری بدن کا چھپانا ہے تو اسلام یہاں تک کہ دین مسیحیت سے پہلے بھی یہ عام تھا ،جس کے آثار اب بھی یورپ میں دکھائی دیتے ہیں۔‘‘ (متن کامل مقالہ ۲۱ ص ،ای حجاب و پو شش در ادیان زرتشت یہود و مسیحیت)
احکام شریعت کو مسیحیوں نے تبدیل نہیں کیا بلکہ اس پر عمل پیرا رہے۔ بعض اوقات حجاب کے معاملے میں انتہائی سخت گیری کا مظاہرہ کرتے اور حجاب کے واجب ہونے پر تاکید بھی کرتے تھے۔ شریعت یہود میںشادی کرنے کو مقدس سمجھا جاتا ہے جبکہ مسیحیوں کے مطابق شادی نہ کرنے کو مقدس سمجھا جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ اپنے جذبات و احساسات کو کنٹرول کرنے کے لیے خواتین کے حجاب میں سختی کے قائل تھے، خواتین کے بننے سنورنے کی شدت سے مخالفت کرتے تھے اور ہمیشہ اپنی خواتین کو مکمل حجاب کی تاکید کرتے تھے۔ انجیل میںاس کا ذکر کئی جگہ ملتا ہے افسیوں کے باب ۵ میں ذکر ہے:’’اور خواتین کو چاہئے کہ وہ جواہرات اور قیمتی ملبوسات کے بجائے حیا اور تقویٰ کے لباس سے آراستہ ہو ں،بہترین عورت وہ ہے جو نیک اعمال کو بجا لانے میں دیندار ہونے کا دعویٰ کرے۔‘‘ (انجیل مقدس،افسیوں،باب ۵،آیت ۲۲)
اور دوسری جگہ فرمایا’’اے خواتین !اپنے شوہروں کی اطاعت کرو ،صورت کے بجائے سیرت پر توجہ دو،کیونکہ بالوں کو سنوار کر قیمتی ملبوسات اور زیورات پہن کر صرف ظاہری خوبصورتی ہی حاصل کی جا سکتی ہے جب کہ خدا کے نزدیک باطنی اور قلبی انسانیت زیادہ اہمیت کی حامل ہے ،اسی لیے تو مقدس خواتین ہمیشہ خدا پر توکل کرتی ہیں ،ظاہر کے بجائے باطن کو سنوارتی اور اپنے شوہروں کی فرمانبرداری کرتی ہیں جیسے سارہ ابراہیمؑ کی فرمانبردار تھی اور تم سب اس کی اولاد ہو۔ ‘‘(انجیل مقدس،تیمتھیس ۱:باب ۲،آیات ۹۔۱۰)
ایک روایت کے مطابق حضرت عیسیٰؑ فرماتے ہیں:
’’عورتوں پر نگاہ کرنے سے پرہیز کرو ،کیونکہ یہ دل میں شہوت کی گرہیں باندھتا ہے اور فتنے و فساد کے لیے یہ ایک نگاہ ہی کافی ہے۔‘‘
حضرت عیسیٰؑ کے اصحاب ،باپ اور بزرگ دینی رہنمائوں کلیسا اور دین مسیحیت کی طرف سے جو دستورات لازم اجراء قرار پائے ہیں ان کے مطابق خواتین کو سختی سے مکمل حجاب کی تلقین اور ظاہری زینت سے منع کیا گیا ہے ۔یورپ اور مسیحی خواتین کی منتشر تصاویر سے واضح ہوجاتا ہے کہ اس زمانے کی خواتین حجاب کی مکمل رعایت کرتی تھیں Braon اور Ishnaiderنے اپنی کتاب ’’مختلف قوموں کے ملبوسات‘‘میں بعض مسیحی خواتین کے ملبوسات کی تصاویر شایع کی ہیں ،جو ان کے مکمل حجاب پر بہترین دلیل ہے۔
زرتشت
آشوزرتشت اپنی نصیحتوں اور مشوروں کے ذریعے حجاب کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہتے ہیںکہ ایرانی خواتین حجاب کو ظاہری طور پر ایک قومی ثقافت کی حیثیت سے اپنائے ہوئے ہیں،جو ان کی روح کے اندر تک قدم جمائے ہوئے ہے۔ اس ذریعے سے حجاب کے قوانین کو آئندہ نسلوں تک محفوظ کیا جا سکتا ہے جو معاشرے کو اخلاقی برائیوں سے بچا سکتا ہے۔
اب آشو زرتشت کے کلام کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے مزید نقل کرتے ہیں تاکہ جو زحمتیں انھوں نے حجاب کی حفاظت کے لئے اٹھائیں، بیان کی جا سکیں، کیونکہ ظاہری حجاب باطنی عفت کا آئینہ دار ہے ۔اس سلسلے میں وہ کہتے ہیں: ’’اے نئی زندگی کا آغاز کرنے والو!(دلھا اور دلہن)میری باتیں غور سے سنو اور ان پر عمل کرو،غیرت اور پاکیزگی سے زندگی گزارو، تم سے ہر ایک محبت صداقت اور نیک کردار میں دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے تاکہ یہ مقدس ازدواجی زندگی ہنسی خوش بسر ہوسکے۔
اے خواتین و حضرات!سیدھے رستے کو تلاش کرواور اسی کو اپنائو،کبھی جھوٹ اور وقتی خوشی کی خاطر اپنی زندگیوںکو برباد مت کرو کیونکہ جو لذت گناہ اور بد نامی کے ہمراہ ہو ،وہ دراصل میٹھے میں ملا ہوا جان لیوا زہر ہے جو خود دوزخ ہے لہٰذا ایسے کاموں کے ذریعے اپنی زندگیوں کو تباہ مت کر بیٹھنا ۔
نیک رستے پر چلنے والوں کا اجر اسے ہی ملتا ہے جو خواہشات نفسانی ،خود پسندی اور باطل آرزوئوں کو خود سے جدا کرے اور اپنے نفس پر غلبہ پالے، ورنہ اس کا انجام غفلت اور لاپرواہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔دھوکہ کھانے والے افراد جو برائی میں دھنس جاتے ہیں، بدبختی اور نابودی کا شکار ہونے کے علاوہ ان کا انجام آہ و زاری ا ور چیخ و پکار کے سوا کچھ نہیں ہے،لیکن جو افراد میری باتوں کو غور سے سنتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں وہ ہمیشہ خوش و خرم زندگی بسر کرتے ہیں،ان کو کوئی رنج و غم نہیں پہنچتا اور ہمیشہ کے لیے نیکی ان کی قسمت میں لکھ دی جاتی ہے۔ (جلوہ ہنر،شمارہ۱۵،بھارو تابستان، ۱۳۹۵، ص۹۵تا ۱۰۶)
اور اس کے علاوہ ’’Windy Dad‘‘کی کتاب میں یہ جملہ بارہا ذکر ہوا ہے :
’’کلام ایزدی ہے کہ وہ برائی کو نابود کردے گا،اے مرد ! تم سے میری یہ خواہش ہے کہ راہ حلال کے ذریعے اپنی نسل بڑھائو اور پاک باز رہو ،اے عورت! میری تم سے یہ خواہش ہے کہ اپنے تن کی حفاظت کرو اور پاک باز رہو ،میری تمنا ہے کہ صاحب اولاد ہو جائو اور کامیاب زندگی گزارو ۔‘‘(یسنا ۴۴:۷ )
زرتشتیوں کا دین تین چیزوں پر استوار ہے: (1) نیک اندیشہ وفکر(2) نیک گفتار(3) نیک کردار۔ ان کے پیشوا نیک اندیشے وفکر اور نیک کردار کے بارے میں کہتے ہیں:’’ایک مومن زرتشتی ،ہرگز دوسروں کی عورتوں پر ناپاک اور آلودہ نگاہ نہیں کرتا۔ ‘‘ (زرتشت ازم کے شعائر ،رسوم اور روایات،ص ۲۴۰،راحۃ القلوب ، جلد ۲،شمارہ۲،جولائی۔ دسمبر۲۰۱۸ء)
اگر ہم تھوڑا سا غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ عام طور پر انسان خواہ مرد ہو یا عورت اپنی فطرت کے مطابق ابتدائے تخلیق سے لیکر اب تک مختلف زمانوں میں اپنے جسم کو ڈھانپنے کا رجحان رکھتا ہے۔ نقاب پہننا اسے بہت سی برائیوں سے بچاتا ہے یہ ایک قدیم رسم کے طور پر بھی جانا جاتا ہے اورمعاشرے میں اسے ایک معروف لباس سمجھا جاتا ہے چاہے وہ آسمانی مذہب کی پیروی کرنے والے لوگ ہوں یا وہ اس کے علاوہ مذہب کے لوگ ہوں۔
ہندو مذہب
ہندو مذہب میں بھی حجاب کا تصور موجود ہے اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ہندوئوں کی کتب میں بھی اس کا ذکر تفصیل سے موجود ہے۔
ہندو مذہب میں سیتا جی کو ایک آئیڈیل خاتون مانا گیا ہے جنہوں نے دشمنوں کے بیچ رہ کر بھی اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کی اور اپنی آبرو پر کوئی دھبہ نہیں لگنے دیا۔ سیتاجی کے بارے میں ہندو مذہبی مآخذ میں یہ بات لکھی گئی ہے کہ جب شری رام جی کے بھائی لکشمن کو کہا گیا کہ وہ سیتا جی کا چہرہ دیکھ کر ان کو پہنچانیںتو انہوں نے کہا کہ میں نے کبھی اپنی بھاوج کے قدموں سے اوپر نگاہ نہیں اٹھائی اور ان کا چہرہ نہیں دیکھا،چنانچہ انہوں نے سیتا جی کی پازیب دیکھ کر ان کو پہچانا۔اسی لئے عام طور پر ہندو بھائیوںکے یہاں دیویوں کی تصویر اس طرح بنائی جاتی ہے کہ ان کا سارا بدن سوائے چہرہ کے ڈھکا ہوتاہے اور سر پر آنچل ہوتا ہے۔ہندوئوں کے بہت سے خاندانوں، خاص کر اعلیٰ ذات کے ہندوئوں میں عورتوں کے گھونگھٹ لینے کا قدیم رواج رہا ہے اور بہت سی جگہوں پر آج بھی موجود ہے۔ یہ گھونگھٹ اتنا بڑا ہوتا ہے کہ سر چہرہ اور سینہ اچھی طرح چھپ جاتا ہے بلکہ ہندو دھرم کی بنیادی کتاب وید میں پردہ کا بہت واضح حکم ملتا ہے:
’’چوں کہ برہما (خدا)نے تمہیں عورت بنایا ہے اس لئے اپنی نظریں نیچی رکھو ،اوپر نہیں،اپنے پیروں کو سمیٹے ہوئے رکھو،اور ایسا لباس پہنو کہ کوئی تمہارا جسم دیکھ نہ سکے۔‘‘( رگ وید:۸؍۱۹۔۳۳)
ہندو سماج میں اونچی ذات کی عورتیں پردہ کیا کرتی تھیں۔ اب بھی مارواڑیوں ،کائستوں،پرانی وضع کے برہمن خاندانوں اور راجستھانیوں میںبھی گھونگھٹ نما پردے کا رواج عام ہے اور اس کا التزام نہ کرنا قدیم روایت سے بغاوت تصور کیا جاتا ہے۔
حجاب امر فطری ہے!
حجاب بے شمار برائیوں اور عیوب سے عورتوں کو محفوظ رکھتا ہے اہل مغرب کی تقلید کرنے والے اور نام نہاد ’روشن خیال‘ اس کو معیوب سمجھتے ہیں اور اس کو عورت کے لیے ایک قید تصور کرتے ہیں ۔کچھ مغربی ممالک اسلام کی دشمنی میں حجاب کو روکنے کے لیے نت نئی پابندیاں عائد کرنے کے لیے کوشاں رہتے ہیں اور ایسا صرف وہ اسلام کی دشمنی میں کرتے ہیں ۔اگر ہم دیگر مذاہب کا بھی مطالعہ کریں تو ہمیں بھی معلوم ہوتا ہے کہ تمام مذاہب میں پردے کا تصور پایا جاتا ہے اور ہر مذہب کی کتب میں اس کا ذکر موجود ہے۔ کسی بھی مذہب کی تعلیمات اس مذہب کے پیروکاروں کے سیرت کردار کی تشکیل کے لئے مرتب کی جاتی ہیں اور ہر مذہب کے مذہبی اصول وقوانین اس کی مذہبی تعلیم و تربیت کی روشنی میں تہذیب و تمدن کے زیور کے ساتھ مختلف حالتوں میں موجود ہیں۔ تمام مذاہب عالم کی تعلیمات ایک طرف اور دین حق اسلام کی تعلیمات ایک طرف ہیں۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ اخلاق اور دین فطرت ہے، جس کا ہر ہر قانون نہ صرف کردار کی تشکیل کرتا ہے بلکہ فرد کی زندگی کو تحفظ اور روح و قلب کو سکون فراہم بھی کرتاہے۔ اسلام کے یہ تمام قوانین مردو زن دونوں پر مساوی نافذ ہوتے ہیں فرق ان میں صرف صنفی شخصیت کے مطابق ہوتا ہے۔
حجاب اور پردہ تمام ادیان اور مذاہب میں ایک خاص مقام کا حامل ہے جس پر دلیل یہ ہے کہ حجاب اور عفاف ایک امر فطری ہے حضرت آدمؑ اور حواؑ کی داستان اس کے فطری ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تورات میں ہے کہ: ’’اور جب عورت نے دیکھا کہ یہ درخت نیک ثمر رکھتا ہے ،پر کشش اور پر ثمر ہے ،لہٰذا اس درخت کے میوے کو کھایا اور اپنے شوہر کو بھی دیا ،میوہ کھاتے ہی دونوں نے خود کو عریاں پایا، فوراً انجیر کے پتوں کو اکٹھا کر اپنے لئے ستر بنائی۔‘‘(توریت،کتاب پیدائش ۳:۳، باب۳، آیت ۶۔۷)
’’اور آدم نے اپنی بیوی کا نام حوا رکھا ،کیونکہ وہ بنی نوع انسانوں کی ماں ہیں اور خداوند نے آدم اور اسکی زوجہ کے لیے کھال کے کپڑے بنوائے اور انھیں ستر دیا۔‘‘
اس متن کے مطابق آدم اور حوا بے لباس تھے اور شجر ممنوعہ کو کھانے کے بعد انھیں عریانی کا احساس ہوا اس لئے فورا پتوں سے اپنے بدن کو چھپایا، پھر خدا نے کھال کی پوشاک سے انھیں نوازا۔ (توریت، کتاب پیدائش: ۳:۳، باب ۳، آیت ۲۲۔۲۳)
قرآن کریم میں حضرت آدم اور حوا کی داستان اس طرح بیان ہوئی ہے :
فلما ذاقا الشجرۃ بدت لھما سواتھما وطفقا یخصفان علیھما من ورق الجنۃ۔
ترجمہ:’’آخر کار جب انھوں نے اس درخت کا مزہ چکھا تو ان کے ستر ایک دوسرے کے سامنے کھل گئے اور اپنے جسموں کو جنت کے پتوں سے ڈھانکنے لگے۔‘‘ (الأعراف،آیت 22)
ان دو اقوال کے مطابق برہنہ ہونے کا احساس جب ہوا تو فورا بہشتی درخت کے پتوں سے خود کو چھپایا، برہنہ ہونے پر یہ احساس شرمندگی ،جب کہ کوئی اجنبی بھی موجود نہ تھا ،فورا خود کو پتوں سے چھپا لینا اس لئے تھا کیونکہ حجاب ایک امر فطری ہے جو بغیر کسی تعلیم یا حکم خدا کی جانب سے وحی یا کسی اور ذریعے سے بھیجا گیا ہو۔یہ حجاب کے فطری ہونے کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ لباس اور حجاب تہذیب یا ثقافت کی ایجاد نہیں ،بلکہ شروع ہی سے انسانوں کا حجاب اور لباس کی طرف فطری جھکائو رہا ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کے تمام ممالک اور مختلف مذاہب کی خواتین میں حجاب ہمیشہ سے عام تھا اس کے باوجود بھی مختلف تاریخی ادوار میں بہت سے نشیب و فراز کے مراحل عبور کرتے ہوئے اس کے ذوق اور سلیقوں میں کبھی کمی اور کبھی زیادتی ہوتی رہی ہے لیکن کبھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوا ہے۔
اگر دنیا کے تمام ممالک کے قومی لباس پر غور کریں تو بہ خوبی وہاں کی خواتین کے حجاب اور پردے کو دیکھا جا سکتاہے۔ اس طرح تاریخ کے اوراق پلٹنے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی اور بآسانی ثابت ہو جاتا ہے کہ دنیا کی مختلف اقوام کی خواتین میں حجاب عام تھا جو کسی خاص مذہب یا قوم کے لئے مخصوص نہ تھا۔ تمام ادیان مثال کے طور پر زرتشت (آتش پرست) یہودیت، مسیحیت، ہندو اور اسلام میں خواتین کے لئے حجاب واجب اور لازم قرار پایا ہے اسی لیے تمام ادیان کے لوگوں کو اس کی جانب دعوت دی گئی ہے کیونکہ حجاب ایک فطری چیز ہے اور تمام خواتین میں فطری طور پر موجود ہے ،لہٰذا شریعت کے تمام احکام کو انسانی فطرت کے مطابق خلق کیا گیا ہے۔ پس معلوم ہوا کہ تمام ادیان الٰہی میں عورت کے لیے حجاب اور پردہ واجب قرار پایا ہے

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں