مخلوق خدا کے ساتھ رحم دلی

پروفیسر محمد یونس

رسول اللہ ﷺ دین کامل لے کر آئے ، جس میں حقوق و فرائض کی پوری وضاحت موجودہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ کسی بھی ذی روح کو تکلیف نہ پہنچاؤ، بلکہ اگر کسی کو تکلیف میں دیکھو تو اس کی تکلیف دور کرنے کی کوشش کرو، خواہ وہ انسان ہو یا حیوان۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
الخلق عیال اللہ فاحب الخلق الی اللّٰہ من احسن الی عیالہ۔ (البیہقی)
’’ساری مخلوق اللہ تعالیٰ کا کنبہ ہے، پس مخلوق میں سے اللہ کا محبوب ترین بندہ وہ ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔‘‘
گویا مخلوق کے ہرفرد کے ساتھ حسنِ سلوک اور نرمی کا برتاؤ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے، خواہ وہ انسان ہو یا حیوان۔ ہر مسلمان کو دوسرے مسلمان کا بھائی کہا گیا ہے اور مسلمان کی شان یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ دوسرے مسلمانوں کو ہاتھ اور زبان سے کسی طرح کی تکلیف نہ پہنچائے، بلکہ بھائی ہونے کا تقاضا پورا کرتے ہوئے ہر دوسرے مسلمان کا ہمدرد اور خیرخواہ ہو۔ ایک حدیث میں آیا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں ہوسکتا، جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے وہی نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے۔ (صحیحین) مؤمن تو مؤمن ہے، اسلام تو پُرامن کافروں کے ساتھ بھی حسنِ سلوک کا حکم دیتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کسی بھی جاندار کو تکلیف پہنچانا بڑا گناہ اور ظلم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی تمام مخلوق کو اپنا کنبہ کہا ہے۔ جس طرح سربراہِ خاندان کو اپنے افرادِ خانہ سے محبت ہوتی ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق کے ہر فرد کے ساتھ محبت ہے۔ اسی تعلیم کا نتیجہ ہے کہ جانوروں کو تنگ کرنے سے منع کیا گیا ہے، پالتو جانوروں سے ان کی طاقت کے مطابق کام لینے اور پوری غذا دینے کی تاکید کی گئی ہے۔
’’حضرت عبداللہ بن جعفر ؓ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ ایک انصاری صحابی کے باغ میں تشریف لے گئے، وہاں ایک اونٹ تھا، اس اونٹ نے آپ ﷺ کو دیکھا تو ایسا ڈکرایا اور ایسی درد بھری آواز نکالی جیسے بچے کے جدا ہونے پر اونٹنی کی آواز نکلتی ہے، اور اس کی آنکھوں سے آنسو بھی جاری ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ اس کے قریب تشریف لے گئے اوراس کی کنوتیوں پر اپنا دستِ شفقت پھرایا (جیسے کہ گھوڑے یا اونٹ پر پیا رکرتے وقت ہاتھ پھیرا جاتا ہے) وہ اونٹ خاموش ہوگیا۔ پھر آپﷺ نے دریافت فرمایا: ’’یہ اونٹ کس کا ہے؟ اس کا مالک کون ہے؟‘‘ ایک انصاری نوجوان آئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ اونٹ میرا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا: ’’اس بے چارے بے زبان جانور کے بارے میں تم اس اللہ سے ڈرتے نہیں، جس نے تم کو اس کا مالک بنایا ہے؟ اس نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اس کو بھوکا رکھتے ہو، اور زیادہ کام لے کر تم اس کو بہت دکھ پہنچاتے ہو۔‘‘ (سنن ابی داؤد)
اس حدیث کے راوی حضرت عبداللہ بن جعفرؓ بن ابی طالب ہیں۔ حضرت جعفرؓ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں میں شامل تھے۔ حبشہ میں جب نجاشی نے مسلمانوں کے ساتھ مذاکرات کیے تو حضرت جعفرؓ نے ہی اسے سورئہ مریم کی آیات سنا کر مطمئن کیا تھا۔ حضرت جعفرؓ غزوئہ موتہ میں شریک ہوئے اور لشکرِ اسلام کے علم بردار مقرر ہوئے۔ جنگ کے دوران ان کے دونوں بازو کٹ گئے اور وہ شہید ہوگئے۔ رسول اللہ ﷺ نے خواب میں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بازوؤں کے بدلے میں جنت میں انھیں دو پَر عطا فرمادیے ہیں اور وہ جنت میں اڑتے پھرتے ہیں۔ چنانچہ انھیں جعفر طیار اور ذو الجناحین بھی کہاجاتا ہے۔اس حدیث کے راوی حضرت عبداللہ ﷺ انہی کے بیٹے ہیں۔ والدہ کی طرف سے حضرت عبداللہ، محمد بن ابی بکر کے بھائی تھے۔ حضرت عبداللہ ؓ بڑے فیاض تھے اور ان کا اعزازی لقب ’’بحر الجود‘‘ (سخاوت کا دریا) تھا۔
اس حدیث میں مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے، تو وہاں ایک اونٹ تھا، جس نے آپؐ کو دیکھ کر دردناک آواز نکالی اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ گویا اس نے رسول اللہ ﷺ کو اپنی تکلیف سے آگاہ کرنا چاہا۔ رحمۃ للعالمین ﷺ اس اونٹ کے پاس گئے، اس کی کنپٹیوں پر پیار سے ہاتھ پھیرا اور پھر دریافت فرمایا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ جب اس کا مالک آپ ﷺ کے پاس آیا تو آپؐ نے اسے فرمایا کہ تم اس بے جانور کے بارے میں اللہ سے نہیں ڈرتے؟ اس نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تم اسے بھوکا رکھتے ہو اور کام بھی اس کی طاقت سے زیادہ لیتے ہو۔
اس حدیث میں مذکور اونٹ کا مالک اسے کم خوراک دیتا، بھوکا رکھتا اور کام اس کی طاقت سے زیادہ لیتا تھا۔ چنانچہ اس نے رسول اللہ ﷺ سے اس بات کی شکایت کی اور رسول اللہ ﷺ نے اس کے مالک کو خوفِ خدا کا احساس دلایا اور اس جانور کے معاملے میں اسے نصیحت کی کہ اسے پوری خوراک دیا کرے اور کام بھی مناسب لے۔جانوروں کے ساتھ رحم دلی کا سلوک کرنے کی رسول اللہ ﷺ نے بہت تاکید فرمائی ہے۔ اس سلسلہ میں کتبِ حدیث میں کئی واقعات ملتے ہیں۔ مثلاً حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے صاحبزادے عبدالرحمن اپنے والد ماجد سے روایت کرتے ہیں:
’’ایک سفر میں ہم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ تھے، آپ قضائِ حاجت کے لیے تشریف لے گئے، اسی اثنا میں ہماری نظر ایک سرخ چڑیا پر پڑی، جس کے ساتھ اس کے چھوٹے چھوٹے دو بچے بھی تھے۔ ہم نے ان بچوں کو پکڑلیا، وہ چڑیا آئی اور ہمارے سروں پر منڈلانے لگی۔ اتنے میں رسول اللہ ﷺ تشریف لے آئے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’کس نے اس کے بچے پکڑ کے اسے ستایا ہے؟ اس کے بچے اس کو واپس کردو۔‘‘ اور آپؐ نے چیونٹیوں کی ایک بستی دیکھی (یعنی زمین کا ایک ایسا ٹکڑا جہاں چیونٹیوں کے بہت سوراخ تھے اور چیونٹیوں کی بہت کثرت تھی) ہم نے وہاں آگ لگادی تھی، آپؐ نے فرمایا: ’’کس نے ان کو آگ سے جلایا ہے؟‘‘ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ہم نے ہی آگ لگائی ہے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’آگ کے پیدا کرنے والے رب کے سوا کسی کے لیے یہ سزاوار نہیں ہے کہ وہ کسی جاندار کو آگ کا عذاب دے۔‘‘ (سنن ابی داؤد)
حلال جانوروں کو ذبح کرکے اُن کا گوشت کھانے کا حکم ہے کہ وہ اس کے لیے پیدا کیے گئے ہیں، مگر ان کا بھوکا پیاسا رکھنا، انھیں مارنا پیٹنا اور ضرورت سے زیادہ کام لینا گناہ کی بات ہے۔ مسلمان کو ہدایت ہے کہ جب وہ جانور کو ذبح کرے تو چھری کو خوب تیز کرلے تاکہ جانور کو کم سے کم تکلیف ہو۔ پھر ذبح کرنے سے پہلے اسے بھوکا پیاسا نہ رکھے بلکہ اسے پانی اور چارہ مہیا کرتا رہے۔ اس کی کھال اس وقت اتارنا شروع کرے جب وہ پوری طرح بے حس و حرکت ہوجائے۔ اسی طرح کسی زندہ جانور کے سامنے دوسرے جانور کو ذبح بھی نہ کرے۔
لوگ جانوروں کے حقوق کو عام طور پر کوئی اہمیت نہیں دیتے، حالانکہ یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے اور جانوروں پر ظلم کرنا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔ ایک عورت بلّی کو بھوکا پیاسا رکھنے کی پاداش میں جہنم کا ایندھن بن گئی۔ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمایا: ’’ایک بے درد اور بے رحم عورت اس لیے جہنم میںڈالی گئی کہ اس نے ایک بلّی کو باندھ کر (بھوکا مار ڈالا) نہ تو اسے خود کچھ کھانے کو دیا اور نہ اسے چھوڑا کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑوں سے اپنی غذا حاصل کرلیتی۔‘‘ (بخاری ومسلم)
یہ بنی اسرائیل کی ایک عورت تھی جس کا حال اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ پر منکشف فرمادیا۔ اسی طرح ایسا بھی ہوا کہ ایک شخص نے کسی جانور پر رحم کھایا اور بھوک اور پیاس میں کھانا پانی دیا ، یا اس کے دکھ درد کو محسوس کیا اور اس کی مدد کی تو اللہ تعالیٰ نے ایسے شخص کی خطاؤں کو معاف کردیا۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
’’ایک آدمی راستہ چلا جارہا تھا، اسے سخت پیاس لگی۔ چلتے چلتے اسے ایک کنواں ملا، وہ اس کے اندر اترا اور پانی پی کر باہر نکل آیا۔ کنوئیں کے اندر سے نکل کر اس نے دیکھا کہ ایک کتا ہے جس کی زبان باہر نکلی ہوئی ہے اور پیاس کی شدت سے وہ کیچڑ کھا رہا ہے۔ اس آدمی نے دل میں کہا کہ اس کتے کو بھی پیاس کی ایسی ہی تکلیف ہے جیسی کہ مجھے تھی۔ چنانچہ وہ اس کتے پر رحم کھا کر پھر اس کنوئیں میں اترا اور اپنے چمڑے کے موزے میں پانی بھر کر اس نے اس کو اپنے منہ سے تھاما اور کنوئیں سے باہر نکل آیا اور اس کتے کو وہ پانی اس نے پلادیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی رحم دلی اور اس کی محنت کی قدر فرمائی اور اسی عمل پر اس کی بخشش کا فیصلہ فرمادیا۔ بعض صحابہؓ نے حضورﷺ سے یہ واقعہ سن کر دریافت کیا یا رسول اللہ! کیا جانوروں کی تکلیف دور کرنے میں بھی ہمارے لیے اجر و ثواب ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ہاں! ہر زندہ اور تر جگر رکھنے والے جانور (کی تکلیف دور کرنے) میں ثواب ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
یہ جذبۂ ترحم اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ اللہ تعالیٰ خود ارحم الراحمین ہے اور اسے رحم دل لوگ پسند ہیں۔ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں : ’’رحم کرنے والوں اور ترس کھانے والوں پر بڑی رحمت کرنے والا (اللہ تعالیٰ) رحم کرے گا۔ زمین پر رہنے بسنے والی اللہ کی مخلوق پر تم رحم کرو تو آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔‘‘ (جامع الترمذی، سنن ابی داؤد)
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں