مذاق کا عذاب

خدیجہ اشرف

ایمن نے جلدی سے سامان لیا، اور رکشے والے کو آواز دینے لگی’’رکیے بھائی ذرا رکیے۔‘‘
ٹریفک کا شور اتنا زیادہ تھا کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔
ایمن ہاتھ کے اشارے سے : رکیے بھائی، ناظم آباد چلیں گے؟ بھائی آپ کو منہ مانگا کرایہ دوں گی، بس آپ اس ٹریفک کے ہجوم سے نکل کر جلدی سے مجھے گھر پہنچادیں۔
رکشے والا: بہن یہ ناممکن بات ہے، اس ہجوم سے نکلنے میں کم سے کم ایک گھنٹہ تو لگ ہی جائے گا۔
ایمن پریشانی کے عالم میں: بھائی خدا کے واسطے کچھ بھی کریں، بس مجھے گھر پہنچادیں۔
رکشے والا: بہن جی! آپ ایسا کریںکسی دوسری سواری پر چلی جائیں، کیوں خواہ مخواہ مجھے مصیبت میں ڈال رہی ہیں، اگر سگنل توڑ کر جاؤں گا تو ٹریفک پولیس میرا پیچھا کرے گی۔
ایمن جلدی سے رکشے سے اتری اور پیدل ہی گھر کی جانب چل دی۔ ٹریفک تھا کہ کم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
ایمن دل ہی دل میں خیر کی دعائیں کرتی جارہی تھی۔ یا اللہ خیر کرنا، میرے بچے کو اپنی امان میں رکھنا۔ ایمن شاپنگ کررہی تھی کہ اچانک اسے موبائل پر نامعلوم نمبر سے کال موصول ہوئی۔
ایمن نے کال موصول کی تو کسی انجانی آواز نے کہا: تمہارے بچے کو اغوا کرلیا گیا ہے۔ اگر اپنے بچے سے پیار ہے اور اس کی جان پیاری ہے تو ہمارا مطالبہ پورا کردو۔ یہ کہنے کے بعد کال منقطع ہوگئی۔ کال منقطع ہونے کے بعد ایک میسج آیا۔ مگر ایمن نے گھبراہٹ کے مارے میسج رسیو ہی نہیں کیا اور اندھا دھند بھاگنے لگی۔
وہ پورے راستے دل ہی دل میں دعائیں کرتی رہی: اللہ میرے بچے کو سلامت رکھنا۔
ٹریفک کے ہجوم سے باہر نکلنے میں ایمن کو تقریباً ۲۵؍ منٹ لگے۔ ابھی اس کی منزل کافی دور تھی۔ اس لیے اس نے رکشے والے کو روکا، اور ناظم آباد چلنے کو کہا۔
ایمن نے جلدی سے پرس سے موبائل نکالا اور اپنے شوہر طاہر کا نمبر ڈائل کیا، تو آواز آئی: آپ کا ملایا ہوا نمبر اس وقت مصروف ہے برائے مہربانی کچھ دیر بعد کال کیجیے۔ ایمن نے دو تین دفعہ نمبر ڈائل کیا مگر وہ ایک اور کال میں مصروف تھا۔
ایمن نے بڑبڑاتے ہوئے فون رکھا: کررہے ہوں گے گلے شکوے اپنے کسی دوست سے۔
’’بیگم صاحبہ الٹے ہاتھ پر جانا ہے یا سیدھے ہاتھ پر؟‘‘ رکشے والے نے پوچھا۔
ایمن نے سیدھے ہاتھ پر مڑنے کے لیے کہا۔
منزل پرپہنچ کر ایمن نے پرس سے ۱۰۰ روپئے نکال کر رکشے والے کے ہاتھ میں تھمائے اور دروازہ کھول کر بھاگتے بھاگتے سیڑھیاں چڑھنے لگی۔ اتنی تیزی سے سیڑھیاں چڑھنے کی وجہ سے اس کا سانس پھول رہا تھا۔ تیسری منزل پر ایمن کا فلیٹ تھا۔ بیل بجائی۔ طاہر نے دروازہ کھولا۔ وہ اسے دیکھتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
’’کیاہوا کچھ تو بتاؤ ایمن ؟‘‘
’’زین کو کسی نے اغوا کرلیا ہے۔ آپ جلدی سے اسکول فون کرکے معلوم کریں۔‘‘اس نے روتے ہوئے طاہر سے کہا۔
’’تم کیسے کہہ سکتی ہو کہ ہمارے زین کو اغوا کرلیا گیا ہے وہ تو اسکول سے آکے کچھ دیر پہلے مدرسے بھی چلا گیا۔‘‘
’’طاہر تمہیں یقین نہیں آرہا ناں! تو دیکھو میرے موبائل پر کال آئی تھی ایک بج کر ۲۵؍منٹ پر۔‘‘ طاہر نے ایمن کے ہاتھ سے موبائل لیا اور چیک کرنے لگا۔
طاہر، ایمن کو دیکھ کر کافی ڈر گیا تھا کیونکہ اس کا مذاق واقعی بہت بھاری پڑگیا تھا۔ ایمن ابھی اسی خوف میں ڈوبی ہوئی تھی، طاہر نے بہت دیر تک ایمن کو تسلی دی، سمجھایا کہ بس تھوڑی دیر میں زین آتا ہوگا مدرسے سے۔ کیوں خواہ مخواہ پریشان ہورہی ہو۔
ایمن طاہر کو گھورتے ہوئے بولی: ’میں خواہ مخواہ پریشان ہورہی ہوں! اگر آپ میری کال ریسیو کرلیتے، اپناموبائل مصروف نہ رکھتے تو شاید میں اتنی ہلکان نہ ہوتی، میری تو جیسے جان ہی نکل گئی تھی۔‘‘
طاہر دل ہی دل میں سوچ رہا تھا:’’بیٹا! ابھی تو یہ نہیں پتا کہ یہ فون میں نے کیا تھا، اگر پتا چل جاتا تو میری تو شامت آجاتی، مگر اس بے وقوف ایمن نے کال اٹینڈ کرلی اور میسج ریسیو نہیں کیا۔
طاہر نے ایمن کو پانی کا گلاس تھمایا۔
ایمن نے پانی کا ایک گھونٹ پینے کے بعد پوچھا: ’’زین کو ٹھیک طرح سے کھانا تو کھلا دیا تھا ناں۔ ‘‘
طاہر: ہاں بابا کھلا دیا۔ آج آفس کی چھٹی کی ہے تو گھر کے کام تو سنبھالنے ہیں ناں۔ ایمن! اپنا موبائل دو، کہاں ہے۔ طاہر نے ان باکس کھول کر ایمن کو دکھایا یہ پورا میسج پڑھو ، پورا۔
پیغام کے آخر میں لکھا تھا : ’’اپریل فول‘‘
ایمن نے پیغام پڑھنے کے بعد طاہر کو اتنی سنائیں کہ اسے چپ کرانا مشکل ہوگیا تھا۔ ’’میں ہی ملی تھی کیا کسی کو اتنا گھٹیا مذاق کرنے کے لیے۔ جس کسی نے بھی میرے ساتھ یہ مذاق کیا ہے اگر وہ میرے سامنے آجائے تو میں اس کا منہ نوچ لوں گی، نہیں چھوڑوں گی۔‘‘
طاہر:’’اب بس بھی کرو، کیوں بات کا بتنگڑ بنارہی ہو۔‘‘
طاہر کھڑا سوچ رہا تھا کہ آج تو خیر نہیں ہے، بس اللہ ہی مالک ہے۔
ابھی طاہر بیڈ روم میں جا ہی رہا تھا کہ دروازے پر بیل بجنے کی آواز آئی۔
طاہر: کون ہے؟
پاپا دروازہ کھولیں۔
طاہر: رکو بیٹا کھولتا ہوں۔
زین نے گھر میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلے السلام علیکم کہا۔ طاہر نے کہا: وعلیکم السلام بیٹا۔
زین : پاپا! امی شاپنگ کرکے آگئیں؟
طاہر : جی بیٹا وہ آگئی ہیں، شاید کچن میں ہوں گی۔ بیٹا آج آپ مدرسے سے جلدی آگئے؟
زین نے کہا: جی پاپا آج مدرسے میں حماد کا ختم قرآن تھا، ختم قرآن کے بعد دوسرے مدرسے سے مفتی صاحب آئے تھے، انھوں نے چند ایک نصیحتیں کیں۔ اور پاپا آپ کو پتا ہے مفتی صاحب نے اپریل فول یا اس جیسے خراب دن منانے والوں کو کتنی سختی سے منع کیا تھا، اور آج پروگرام بھی اس دن کے حوالے سے تھا۔ طاہر کے کان کھڑے ہوگئے کہ یہ زین میاں کیا کہہ رہے ہیں! طاہر دل ہی دل میں کہتے رہے کہ زین میاں! آپ کے پاپا بھی صبح اپریل فول منانے والوں میں پیش پیش تھے۔
طاہر: پاپا آج اپریل کی پہلی تاریخ ہے، اسی لیے مفتی صاحب نے اپریل فول کے بارے میں بتایا تھا کہ مسلمانوں کو ہرگز نہیں منانا چاہیے، اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں اور گناہ بھی ہوتا ہے۔
ایمن جو بیڈ روم میں تھوڑی دیر پہلے گئی تھی، زین کی آواز سن کر دوڑتی ہوئی آئی ’’ارے میرا بچہ زین… آگئے تم، کیسے ہو۔ ایمن زین سے اس طرح لپٹ گئی جیسے برسوں کی بچھڑی ہوئی ملی ہو۔
دور کھڑا طاہر ماں بیٹے کے پیار کو حیرت سے دیکھ رہا تھا اور دل ہی دل میں خود کو مجرم محسوس کررہا تھا۔ واقعی اس سے بہت بڑا گناہ ہوگیا۔
زین: ماما کیا ہوا صبح ہی تو میں اسکول جانے سے پہلے آپ کے پاس تھا، اسکول سے جب آیا تو آپ شاپنگ پر گئی ہوئی تھیں۔ زین نے طاہر کی طرف دیکھتے ہوئے : کہا پاپا! ماما کو کیا ہوا؟
طاہر سوچوں میں گم تھا، بڑبڑاتے ہوئے بولا: جی بیٹا! تم جاؤ تھوڑی دیر آرام کرو، شام کو کرکٹ کھیلنے گراؤنڈ چلیں گے۔ زین کرکٹ کھیلنے کی بات سن کر خوشی سے اچھل پڑا اور ’’پاپا زندہ باد‘‘ کا نعرہ لگاتے ہوئے اپنے کمرے میں چلا گیا۔
آپ چائے پیئں گے؟ ایمن نے طاہر سے پوچھا۔
طاہر نے کہا: ضرور۔ ایمن کچن کی طرف جانے لگی۔
طاہر نے ایمن کا ہاتھ پکڑ کر کہا: پہلے میری بات سن لو۔ ایمن نے کہا: جی بولیں۔
طاہر: ایسے نہیں، پہلے یہاں بیٹھو۔
ایمن: جناب والا بیٹھ گئی، جیسے آپ کا حکم۔
طاہر: اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوجائے تو تم کیا کروگی؟
ایمن: کیسی غلطی؟
طاہر نے سوچ لیا تھا کہ ایمن کا جو بھی ردِ عمل ہوگا، دیکھا جائے گا، بس اسے بتادینا ہی بہتر ہے۔
طاہر نے کہا: ایمن کل مجھے آفس میں ایک سم پڑی ہوئی ملی تھی زمین پر، میں نے اٹھالی۔
طاہر نے ٹھہرتے ٹھہرتے یہ جملہ مکمل کیا۔
ایمن طاہر کو دیکھتے ہوئے، طاہر صبح جو نامعلوم نمبرسے کال آئی تھی کہیں وہ تم نے تو نہیں کی تھی؟
طاہر: ہاں وہ میں نے کی تھی، لیکن ایمن تم یقین کرو میں نے جھوٹ تو بول دیا اس چکر میں کہ اپریل فول منائیں گے، مگر اس وقت سے میرے دل کو قرار نہیں ملا۔ تم بھلے ہی کچھ کہو یا نہ کہو، مگر جھوٹ میں بہت بے سکونی اور بے چینی ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری ہر ادا سے واقف ہے، اسی لیے ہمیں ان باتوں سے منع کیا ہے، جنھیں برداشت کرنے کی ہم میں سکت نہ ہو۔ اب دیکھو میں نے ایک فون کیا اور تم اتنی زیادہ پریشان ہوگئیں کہ تمہیں دیکھتے ہی مجھے احساس ہوگیا کہ میں نے کتنا غلط اور بھونڈا مذاق کیا ہے۔
اتنے میں زین ہاتھ میں گیند اور بیٹ لیے اپنے پاپا اور ماما کے پاس آیا۔ پاپا چلیں گراؤنڈ کرکٹ کھیلنے۔
طاہر: بیٹا پہلے تم آرام توکرلو، پھر چلیں گے۔
ایمن: زین بیٹا جاؤ پاپا ٹھیک کہہ رہے ہیں۔
زین: نہیں مجھے نیند نہیں آرہی، میں آپ کے پاس ہی بیٹھوں گا۔
زین سوچتے ہوئے بولا: پاپامفتی صاحب کہہ رہے تھے کہ اگر ہم یہودیوں اور عیسائیوں کے دن منائیں گے اور ان کی نقل کریں گے تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ہمیں انہی کے ساتھ اٹھائیں گے۔
ایمن اور طاہر زین کی باتیں غور سے سن رہے تھے۔ ایمن طاہر کو دیکھنے لگی اور طاہر نے نظریں جھکالیں۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146