مرد کی قوامیت کا مفہوم

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

اِسلام نے مرداورعورت کے درمیان تمام معاملات میں مساوات برتی ہے اوراُن کے درمیان کسی طرح کی تفریق نہیں کی ہے۔اس نے عورت کو مرد کی طرح تمام معاشرتی وتمدنی حقوق عطاکیے ہیں، مثلاً اُسے حصولِ تعلیم،شوہرکے اِنتخاب، ناپسندیدہ شوہر سے گلوخلاصی،مہرونفقہ اورمال وجائدادکی ملکیت اور معاشی جدوجہد کا حق حاصل ہے۔اُسے معاشرے میں مرد کی طرح، بلکہ بعض حیثیتوں سے مرد سے بڑھ کر عزت و احترام کا مقام حاصل ہے۔ الغرض اسلام نے عورت کو جن حقوق سے بہرہ ور کیا ہے، مغربی معاشروں میں وہ حقوق عورت کو صدیوں بعد اور طویل کشمکش اور جدوجہد کے نتیجے میں حاصل ہوسکے ہیں۔ لیکن مساوات کا مطلب بہرحال دونوں کے کاموں کی یکسانیت نہیں ہے۔ اس نے دونوں کے درمیان کاموں کی منصفانہ تقسیم کی ہے اور دونوں کے دائرۂ کار الگ الگ رکھے ہیں۔ اس سلسلے میں اس نے دونوں کی فطری صلاحیتوں کی بھر پور رعایت کی ہے۔عورت کے ذمے فطرت نے بچوں کی پیدائش و پرورش کا عظیم الشان کام سونپا ہے۔ اسی لیے اسلام نے عورت کو گھر کے اندر کے کاموں کی ذمہ داری دی ہے اور اس کی اہم مصروفیات کو دیکھتے ہوئے اسے وسائلِ معاش کی فراہمی سے آزاد رکھا ہے۔ مرد کے ذمے اسلام نے گھر سے باہر کے کام رکھے ہیں اور اسے پابند کیا ہے کہ وہ عورت کی معاشی کفالت کرے اور اسے تحفظ فراہم کرے۔ خاندان کا نظام صحیح ڈھنگ سے چلنے کے لیے کاموں کی تقسیم ضروری تھی۔ اگر ہر شخص ہر کام انجام دینے لگے تو کوئی بھی نظام صحیح طریقے سے نہیں چل سکتا۔ بچوں کی پیدائش و پرورش کا کام صرف عورت ہی انجام دیتی ہے۔ اس کے ساتھ بڑی زیادتی ہوتی کہ یہ کام بھی اس سے متعلق رہتے، مزید گھر سے باہر کے کاموں کا بھی اسے پابند بنادیا جاتا۔

مرد کی اضافی ذمہ داری- خاندان کی سربراہی

مرد اور عورت دونوں کے میدانِ کار کی وضاحت اور ذمہ داریوں کی تعیین کے ساتھ اسلام نے مرد پر ایک اضافی ذمہ داری عائد کی ہے اور وہ ہے خاندان کی سربراہی۔ کسی بھی ادارے کے منظم انداز میں سرگرم عمل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ایک سربراہ ہو، جو اس کے تمام کاموں کی نگرانی کرے، اس کے نظم و ضبط کو درست اور چاق و چوبند رکھے، اس سے وابستہ تمام افراد کی سرگرمیوں پر نظر رکھے۔ اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے ماتحتوں اور اس کے درمیان محبت و خیرخواہی پر مبنی ربطِ باہم پایا جائے۔ وہ ان کے حقوق پہچانے اور ان کو تحفظ فراہم کرے اور وہ لوگ بھی پوری خوش دلی کے ساتھ اس کے احکام بجالائیں اور ان سے سرتابی نہ کریں۔ یہ ذمہ داری کسی ایک فرد ہی کو دی جاسکتی ہے۔ اگر یکساں حقوق و اختیارات کے ساتھ ایک سے زائد افراد کو کسی ادارے کی سربراہی سونپ دی جائے اور ہر ایک اپنی آزاد مرضی سے اس ادارے کو چلاناچاہے تواس کے نظم کا درہم برہم ہوجانا یقینی ہے۔مرداورعورت نظام خاندان کے دوبنیادی ارکان ہیں۔اس کی سربراہی ان میںسے کسی ایک ہی کو دی جاسکتی ہے۔اِسلام نے یہ ذمہ داری مرد کے حوالے کی ہے(ایضاً)۔قرآن میں اسی کو’درجہ‘سے تعبیر کیاہے۔اللہ تعالیٰ کا اِرشاد ہے:

وَلَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوفِ وَلِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃ۔ٌ(البقرہ۲:۲۲۸)

’’عورتوں کے لیے بھی معروف طریقے پرویسے ہی حقوق ہیں جیسے مردوں کے حقوق ان پر ہیں،البتہ مردوں کو ان پر ایک(برتر)درجہ حاصل ہے۔‘‘

اسی ذمہ داری کی بناپرمردکو قرآن میں ’قوّام‘ (سربراہ)کہاگیاہے:

اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَافَضَّلَ اللّٰہْ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَبِمَآاَنْفَقْواْمِنْ اَمْوَالَھِمْ۔(النساء ۴:۳۴)

’’مردعورتوں کے سربراہ ہیں،اس سبب سے کہ اللہ نے اُن میں سے ایک دوسرے پر فضیلت دی ہے اوراس سبب سے کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔‘‘

نگران نہ کہ داروغہ

اس تفصیل سے واضح ہواکہ شوہر کی حیثیت خاندان میں ایک نگرانِ اعلیٰ کی ہے،جس کے ماتحت بیوی بچے اوردیگر متعلقین پوری آزادی کے ساتھ اپنی سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔ شوہر ان کی کفالت کرتاہے،اُنھیں تحفظ فراہم کرتاہے اوراُ نھیں مکروہاتِ دُنیا سے بچاتاہے۔اس کی مثال چرواہے کی سی ہے،کہ وہ ریوڑ میں شامل تمام بھیڑبکریوں پرنظررکھتاہے،ان کی دیکھ بھال کرتاہے اوراُنھیں بھیڑیوں کے حملوں سے بچتاہے۔ایک حدیث میں یہی تعبیر اختیارکی گئی ہے۔اللہ کے رسول نے اِرشاد فرمایا:

اَلرَّجُلُ رَاعٍ عَلیٰ اَھْلِ بَیْتَہٖ وَھُوَمَسْئُولٌعَنْ رَّعِیَّتِہٖ(بخاری،کتاب الاحکام،۷۱۳۷،مسلم،کتاب الامارہ:۱۸۲۹)

’’مرداپنے گھروالوں کا راعی(نگراں)ہے اوراس سے اس کی رعیت کے بارے میں پوچھاجائے گا۔‘‘

شیخ محمدعبدہؒ قوامیت پروشنی ڈالتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اس آیت میں قوامیت سے مراد وہ سربراہی ہے جس میں ماتحت شخص اپنے پورے اِرادہ واختیارکے ساتھ اپنی سرگرمیاں انجام دیتاہے۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس میں ماتحت شخص پوری طرح مجبورمحض ہوتاہے،وہ کسی ارادہ واختیارکامالک نہیں ہوتا اور صرف وہی کام انجام دیتاہے جس کی اس کاسربراہ اُسے ہدایت دیتاہے۔بلکہ کسی شخص کے دوسرے پر قوام ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اسے جن کاموں کی رہ نمائی کرتاہے،ان کے نفاذ کے سلسلے میں اس کی دیکھ ریکھ اورنگرانی رکھتا ہے۔‘‘ (رشیدرضا،۵/۶۸)

مردوں کوسربراہی ونگرانی کے اختیارات تفویض کرنے کے ساتھ قرآن وحدیث میں واضح ہدایات دی گئی ہیں کہ مرد اپنی ان اختیارات کا غلط استعمال نہ کریں،بلکہ اپنے زیر دست عورتوں کے ساتھ اچھاسلوک کریں اورمحبت،شائستگی اورہم دردی کے ساتھ پیش آئیں۔اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

وَعَاشِرُوھُنَّ بِالْمَعْرُوفِ(النساء ۴:۱۹)

’’ان کے ساتھ بھلے طریقے سے زندگی بسرکرو۔‘‘

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا:

اِسْتَوْصوْابِالنِّسَآئِ خَیْراً۔

’’ عورتوں کے ساتھ اچھابرتائو کرو۔‘‘

اُم المومنین حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا:

خَیْرْکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖ

’’تم میں بہترشخص وہ ہے جو اپنے گھروالوں کے لیے بہترہو۔‘‘

عورتوں کواطاعت شعاری کی تاکید

دوسری طرف عورتوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ مردوں کی ا طاعت کریں۔ان پر واضح کردیاگیاہے کہ مردوں کو جو قوامیت کی ذمہ داری دی گئی ہے،اس میں ان(عورتوں)کی حق تلفی نہیں ہے اوراس سے ان کی کوئی سبکی اور توہین نہیں ہوتی، بلکہ ایسا محض نظام خاندان کو درست اورچاق وچوبند بنانے کے لیے کیا گیاہے،اس لیے اُنھیں چاہیے کہ اپنے شوہروں کا کہنا مانیں،اُنھیں خوش رکھیں اوراُن کی ہدایات سے سرتابی نہ کریں۔چنانچہ زیر بحث آیت کا اگلا ٹکڑایہ ہے:

فَالصّٰلِحٰتْ قٰنِتٰتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغْیْبِ بِمَاحَفِظَ اللّٰہ۔(النساء ۴:۳۴)

’’پس جو صالح عورتیں ہیں وہ اطاعت شعار ہوتی ہیں اورمردوں کے پیچھے اللہ کی حفاظت ونگرانی میں ان کے حقوق کی حفاظت کرتی ہیں۔‘‘

آیت کے اس حصے میں نیک عورتوں کی دو صفات بیان کی گئی ہیں:ایک صفت ہے قانتات، یعنی اطاعت کرنے والی،’قنوت‘کے لغوی معنی اطاعت کے ہیں۔قرآن کے دیگر مقامات پر اس کا استعمال’اللہ کی اطاعت‘کے معنی میں ہواہے۔ بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ یہاں بھی وہ اس معنی میں ہے،جب کہ بعض دیگر کہتے ہیں کہ’اطاعت‘میں اللہ کی اطاعت کے ساتھ شوہر کی اطاعت بھی شامل ہے۔

صالح عورتوں کی دوسری صفت یہ بیان کی گئی ہے:حافظات للغیب،یعنی غیب کی حفاظت کرنے والیاں۔غیب کا ایک مفہوم شوہرکی غیرموجودگی ہے، یعنی شوہروں کی عدم موجودگی میں وہ اپنے آپ کی، بچوں کی اورشوہروں کے گھر اورمال وجایداد کی حفاظت کرتی ہیں۔زمخشریؒ فرماتے ہیں:’’غیب،موجودگی کی ضد ہے۔یعنی جب ان کے شوہر ان کے پاس موجود نہیں ہوتے ہیں تووہ ان کے غائبانہ میںان کی چیزوں کی حفاظت کرتی ہیں۔‘‘(زمخشری،۱/۵۲۴)

ابن عطیہؒ نے اس مفہوم کو کچھ اوروسعت دی ہے۔ ان کے نزدیک غیب میں ہر وہ چیز داخل ہے جس کا شوہر کو علم نہ ہو،خواہ وہ اس کی موجودگی میںہو یا غیر موجودگی میں۔کہتے ہیں:’’غیب سے مراد ہروہ چیز ہے جس کا شوہر کو علم نہ ہو اوراس کی نگاہ سے پوشیدہ ہو اس میں دونوں حالتیں شامل ہیں۔وہ کہیں باہر گیا ہو یا موجود ہو۔‘‘(ابن عطیہ،المحرر الوجیز،۲/۴۷بحوالہ ابوحیان،۳/۳۳۷)

غیب کا دوسرامفہوم ’راز‘ہے۔اس صورت میں حافظات للغیب کا مطلب یہ ہوگاکہ وہ رازوں کی حفاظت کرنے والی ہیں۔علامہ آلوسیؒ نے لکھا ہے: ’’اس کا ایک دوسرا معنی یہ بتایاگیا ہے کہ وہ اپنے شوہروں کے رازوں یعنی جو کچھ ان کے شوہروں اور ان کے درمیان خلوت میں ہوتاہے،اس کی حفاظت کرنے والی ہیں۔‘‘ (آلوسی،۵/۲۴)

شیخ محمد عبدہؒ فرماتے ہیں:’’غیب سے مراد یہاں وہ بات ہے جس کو ظاہر کرنے میں شرم آئے،یعنی وہ ہر اس چیز کو چھپاتی ہیں جس کا تعلق ازدواجی معاملات سے ہو اورجو ان کے شوہروں اوران کے درمیان خاص ہو۔‘‘

ابوحیان نے عطاوقتادہ سے منسوب جو قول نقل کیاہے،اس میں یہ دونوں مفہوم شامل ہیں:’’وہ حفاظت کرتی ہیںاس چیز کی جس کا ان کے شوہروں کو علم نہ ہو،وہ اپنے آپ کی حفاظت کرتی ہیں جو کچھ ان کے شوہروں اوران کے درمیان ہوتاہے اسے اِدھر اُدھر بیان نہیںکرتیں۔‘‘(ابوحیان،۳/۳۳۷)

انھی اوصاف کی بناپر حدیث میں نیک عورت کو دُنیا کی سب سے قیمتی متاع قرار دیاگیاہے۔حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول نے ارشاد فرمایا: اَلدُّنْیَا مَتَاعٌ وَخَیْرْ مَتَاعِ الدُّنْیَااَلمَرْاَۃُ الصَّالِحَۃْ۔(صحیح مسلم،کتاب الرضاع، ۱۴۶۷) ’’دنیاسامانِ زیست ہے اوردنیا کی سب سے قیمتی متاع نیک عورت ہے۔‘‘ ——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں