مرد کی قوامیت کا مفہوم اور اس کی اہمیت

عذراء زمرود تاریگام

آیت اَلرِّجَالِ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآء
(مرد عورتوں پر قوام ہیں) اسلامی نظام خاندان کا، جوکہ فطری نظام ہے،ایک اہم اصول یا اس کی بنیادی قدر کو بیان کرتی ہے۔
اسلام اجتماعی اور انفرادی زندگی کے لیے جو حدود اور آداب متعین کرتا ہے، اس کی تربیت کے لیے پہلا ادارہ گھر کو قرار دیتا ہے۔ اسلام کی نگاہ میں گھر اجتماعیت کی پہلی یونٹ ہے۔ اسی سے خاندان کی تنظیم ہوتی ہے، یہی آگے بڑھ کر معاشرہ کی صورت اختیار کرتا ہے اور اسی سے ریاست وجود میں آتی ہے۔ چناچہ قرآن کریم نے اس گھر کی حقیقی حیثیت کو واضح کرنے کے لیے اس کو ’’حصن‘‘ قرار دیا ہے گویا یہ گھر انسانی معاشرے کے افراد کے لئے قلعہ ہے اور اس کے تمام باسی اس میں رہتے ہوئے محفوظ ہیں۔ اسلام جہاں افراد خانہ کو اس گھر کے اندر تحفظ فراہم کرنے کی بات کرتا ہے وہیں اس کے اندر رہنے والوں میں مؤدت اور رحمت کے جذبات پیدا کرنا بھی اس کا مقصود ہے۔
اس تصور کے پیش نظر یہ بات سمجھنی ہے کہ گھر کی یہ چھوٹی سی یونٹ حقیقت میں ایک بڑی ریاست کا حصہ ہے جس کے زیر سایہ رہنے والوں کی حفاظت ان کی عادات واطوار کی درستگی، ان کے اعمال و افکار کی تہذیب وترقی اس یونٹ کا اولین مقصد ہے۔
ایک چھوٹے سے چھوٹا ادارہ بھی تقسیم کار اور تقسیم اختیارات اور سربراہی کا فیصلہ کیے بغیر اولاً تو وجود میں ہی نہیں آتا اور اگر وجود میں آ بھی جائے تو باقی نہیں رہتا اور اگر یہ تصور کرلیا جائے کہ جس ادارے میں جتنے افراد کام کرتے ہیں وہ سب برابر کے اختیارات رکھیں گے اور کوئی کسی کو کسی غلطی پر ٹوکنے کا مجاز نہیں ہوگا بلکہ ہر کوئی من مرضی کا مالک ہوگا تو آپ پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ ایسا ادارہ چند دن بھی باقی نہیں رہ سکتا۔ پوری دنیا میں اس مسلمہ حقیقت کا چلن ہم عام دیکھتے ہیں۔ غور کیجیے اور پھرخاندان کے سربراہ کی اہمیت کا اندازہ کیجئے۔ یہ تمام انسان ہونے کے اعتبار سے برابر ہیں لیکن صلاحیتوں کے اعتبار سے اختیارات کے اعتبار سے اور اپنی حیثیت کے اعتبار سے ہرگز برابر نہیں۔ رہا وہ گھر جس کے رہنے والوں کو زندگی بھر اکٹھے رہنا ہے اور جن کے سپرد نوع انسانی کی آئندہ تیار ہونے والی نسل کی زندگی اور ان کے فکر وعمل کو درست کرنے کی ذمہ داری ہے، اسے اگر اس سوال کو حل کیے بغیر چھوڑ دیا جائے کہ اس چھوٹی سی ریاست کا سربراہ کون ہوگا ؟ اور اس گھر میں رہنے والے باقی افراد کی حیثیت کیا ہوگی ؟ یعنی ان کے حقوق و فرائض کا تعین کیسے کیا جائے گا ؟ تو یہ بات سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ یہ گھر باقی نہیں رہ سکتا۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ ریاست جس کا آغاز دوافراد یعنی میاں اور بیوی سے ہورہا ہے ان دونوں میں سے کس کو سربراہی کے مقام پر فائز کیا جائے ؟ دونوں تو سربراہ نہیں ہوسکتے اس لیے کہ یہ عقل اور انسانی تجربے کے خلاف ہے۔ بہرحال کسی ایک کو سربراہ بننا ہے تو وہ مرد ہو یا عورت ؟ قرآن کریم کا جواب یہ ہے کہ یہ مقام مرد کو حاصل ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:
“اَلرِّجَالِ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَـآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ”
مرد قوام کس لحاظ سے ہیں ؟ قوام کا معنیٰ سرپرست، سربراہ اور منتظم ہے۔قوامیت کا یہی عملی اور حقیقی مفہوم ہے۔ یعنی ایسا شخص جو کسی دوسرے کی تمام تر معاشی اور معاشرتی ذمہ داریاں پوری کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ پھر مردوں کے قوام ہونے کی اللہ تعالیٰ نے دو وجوہ بیان فرمائی ہیں۔ ایک یہ کہ مرد اپنی جسمانی ساخت کے لحاظ سے عورتوں سے مضبوط ہوتے ہیں مشقت کے کام جتنا مرد کرسکتے ہیں عورتیں نہیں کرسکتیں۔ پھر ذمہ داریوں کو نباہنے کی صلاحیت بھی مردوں میں عورتوں کی نسبت زیادہ ہوتی ہے۔ لہذا گھر کی چھوٹی سی ریاست کا سربراہ یا قوام بھی مرد ہی کو ہونا چاہیے اور مردوں کے قوام ہونے کی دوسری وجہ یہ بتائی کہ وہ اپنے اہل خانہ کے تمام تر معاشی اخراجات کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور بنائے گئے ہیں اور اس کی بھی اصل وجہ وہی ہے جو پہلی وجہ میں مذکور ہوئی کہ مرد محنت شاقہ کر کے جو کچھ کمائی کرسکتے ہیں وہ عورتیں نہیں کرسکتیں۔ لہٰذا امور خانہ داری کا سربراہ تو عورت کو بنایا گیا اور پورے گھر کی اندرونی اور بیرونی ذمہ داریوں کا سربراہ مرد کو۔ یہی وجہ ہے کہ طلاق اور رجوع کا حق بھی مرد کو دیا گیا ہے چناچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ مرد اپنے اہل بیت پر حکمران ہے اور اس سے اس کی رعیت کے متعلق بازپرس ہوگی۔ اور عورت اپنے شوہر کے گھر اور اس کی اولاد پر حکمران ہے اس سے اس کے متعلق بازپرس ہوگی۔
چناچہ آیت مذکورہ سے یہ واضح ہدایت ملتی ہے کہ گھر کے ادارے میں حاکم ہونے کی حیثیت مرد کو حاصل ہے ‘ سربراہ خاندان مرد ہے، عورت نہیں۔
عورت کو بہرحال اس کے ساتھ ایک وزیر کی حیثیت سے کام کرنا ہے۔ یوں تو ہر انسان یہ چاہتا ہے کہ میری بات مانی جائے۔ گھر کے اندر مرد بھی یہی چاہتا ہے اور عورت بھی۔ لیکن آخر کار کس کی بات چلے گی ؟ یا تو دونوں باہمی رضامندی سے کسی مسئلے میں متفق ہوجائیں ‘ بیوی اپنے شوہر کو دلیل سے ‘ اپیل سے ‘ جس طرح ہو سکے قائل کرلے تو معاملہ ٹھیک ہوگیا۔ لیکن اگر معاملہ طے نہیں ہو رہا تو اب کس کی رائے فیصلہ کن ہوگی ؟ تو اصولی طور سے یہ طے ہوگیا کہ ایسی صورت میں مرد ہی کی رائے نافذ ہوگی۔ کیوںکہ بہرحال اللہ تعالیٰ نے گھر کے ادارے کا سربراہ مرد کو بنایا ہے۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ مرد اگر اپنی اس حیثیت کا غلط استعمال کرتا ہے ‘ عورت پر ظلم کرتا ہے اور اس کے حقوق ادا نہیں کرتاتو تو یہ معاملہ قوامیت کا نہیں بلکہ ایک فرد معاشرہ یا خاندان کے رویہ کا معاملہ ہے جو ظلم کو روا رکھتا اور اللہ کی نا فرمانی کرتا ہے جس پر اس کی اللہ کے یہاں سخت پکڑ ہوگی۔ یہی بات اللہ کے رسول کی اس حدیث میں ہے کہ
“کلکم راع و ھو مسئول عن رعیتہ” ۔
دراصل یہ مرد کا قوام ہونا بلاوجہ نہیں بلکہ اس پر قرآن کریم نے اسی آیت میں دو دلائل بھی مہیا فرمائے ہیں۔
1- اللہ تعالیٰ نے مرد کو عورت پر فضیلت بخشی ہے مرد کو بعض صفات میں عورت پر نمایاں تفوق حاصل ہے۔ جس کی بنا پر وہ سزاوار ہے کہ قوامیت کی ذمہ داری اسی پر ڈالی جائے۔ مثلاً محافظت ومدافعت کی جو قوت و صلاحیت یا کمانے اور ہاتھ پائوں مارنے کی جو استعداد اور ہمت اس کے اندر ہے وہ عورت کے اندر نہیں ہے۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ یہاں زیر بحث کلی فضیلت نہیں ہے بلکہ صرف وہ فضیلت ہے جو مرد کی قوامیت کے استحقاق کو ثابت کرتی ہے۔ بعض دوسرے پہلو عورت کی فضیلت کے بھی ہیں لیکن ان کا قوامیت سے تعلق نہیں مثلاً عورت گھر درسنبھالنے اور بچوں کی پرورش ونگہداشت کی جو صلاحیت رکھتی ہے وہ مرد نہیں رکھتا۔ اسی وجہ سے قرآن کریم نے یہاں بات ابہام کے انداز میں فرمائی ہے جس سے مرد و عورت دونوں کا کسی نہ کسی پہلو سے صاحب فضیلت ہونا نکلتا ہے لیکن قوامیت کے پہلو سے مرد ہی کی فضیلت کا پہلو راجح ہے۔
2- دوسری دلیل یہ ہے کہ مرد نے عورت پر اپنا مال خرچ کیا ہے یعنی بیوی بچوں کی معاشی اور کفالتی ذمہ داری تمام تر اپنے سر اٹھائی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ذمہ داری مرد نے اتفاقیہ یا تبرعاً نہیں اٹھائی ہے بلکہ اس وجہ سے اٹھائی ہے کہ یہ ذمہ داری اسی کے اٹھانے کی ہے۔ وہی اس کی صلاحیتیں رکھتا ہے اور وہی اس حق کا ادا کرسکتا ہے۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مرد کی اس حیثیت کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
اَلرَّجُلُ رَاعٍ عَلٰی اَھلِہٖ وَمَسْئُوْلٌ عنہ
مرد اپنے اہل خانہ کانگران ہے اور اسی سے اس نگرانی کے حوالے سے سوال کیا جائے گا
مرد کو چونکہ گھر کی راہنمائی، نگرانی، گھر بھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے اور پھر قیامت کے دن اسی حوالے سے اس سے سوال بھی کیا جائے گا۔ واضح بات ہے کہ جب کسی پر ذمہ داری ڈالی جاتی ہے تو پھر اس کو اختیارات بھی دئیے جاتے ہیں اس لحاظ سے مرد کو بھی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ایسے حقوق عطا کیے گئے اور ایسے اختیارات دئیے گئے ہیں جن کا استعمال کرکے وہ احسن طریقے سے اپنی ذمہ داریاں ادا کرسکے۔
حقیقت یہ ہے کہ مرد کو بیوی پر جو بھی حقوق حاصل ہیں اس کی بنیاد مرد کا قوام ہونا اور گھر کی اس حیثیت اور کردار کا تسلیم کرنا ہے جس کا ذکر سابقہ سطور میں کیا گیا ہے۔ اگر ان دونوں بنیادی باتوں کو قبول نہ کیا جائے تو پھر ایک عورت کے لیے مرد کے حقوق یعنی اپنی ذمہ دایوں کو تسلیم کرنا چنداں آسان نہیں۔ یہ وہ بنائے نزاع ہے جس نے آج مرد و عورت کے تعلق کو الجھا کر رکھ دیا ہے اور اولاد کی تربیت روز بروز زوال کا شکار ہے۔
اگر دنیا میں معمولی نوعیت اور مختصر دائرہ میں اثر انداز ہونے والے اداروں کا یہ حال ہے تو زندگی کو وجود بخشنے والا ادارہ یعنی انسان کا مولد ومبدا اور پھر اس کی پرورش وارتقاء کا ضامن اور اس کے افکار و اعمال کی پہلی تربیت گاہ کے معاملے میں یہ رویہ کہاں تک قابل قبول ہوسکتا ہے کہ گھر کی سربراہی کے تصور کو آزادی کے خلاف مانا جائے اورمردو عورت کی برابری اور مساوات کا مفہوم یہ مانا جائے کہ عورت مرد بن کر زندگی گزارے گی اور اس کا دائرہ کار بھی وہی ہوگا جو مرد کا دائرہ کار ہے۔ اسی کج فہمی کے نتیجے میں عورت پوری طرح جذباتی اور جسمانی استحصال کا شکار ہوئی اور اسی کے نتیجہ میں خاندانی نظام کا شیرازہ بکھرا اور پورا یوروپ خاندانی اور نسلی اعتبار سے خود کشی کے دہانے پر پہنچ گیا۔
غضب خدا کا کہ عورت کو آزادی کے نام پر گھر سے نکالا اور وہ اس پروپیگنڈے کا شکار ہو کر گھر سے نکل گئی کہ اس چہار دیواری میں رہنا قید ہے اور شوہر اور بچوں کی ضروریات کی تکمیل اور ان کی خدمت اس کی توہین اور اس کے وقار سے فروتر کام اور دقیانوسیت ہے اور آج کی تعلیم یافتہ عورت اسے قبول نہیں کرے گی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جس عورت کو گھر میں بیٹھنا اور اہل خانہ کی خدمت رجعت پسندی معلوم ہوتی تھی وہ ہوٹلوں میں ویٹرس بنی دن رات لوگوں کی خدمت میں لگی ہوئی ہے۔ ہوٹلوں میں بستروں کی چادریں بدل رہی ہے۔ ہوائی جہازوں میں ائیرہوسٹس بن کر سینکڑوں مہمانوں کی جا وبے جانازبرداریاں کررہی ہے اور ہوسناک نگاہوں کانشانہ بنی ہوئی ہے۔ اسی پر بس نہیں دفتروں میں اسٹینو گرافر یا کسی صاحب کی سیکرٹری بن کرمتاعِ دین و دانش لٹارہی ہے۔
اس خرابی کی تمام ترذمہ داری اور انسانیت کی اس تذلیل کا تمام تر انحصار مردو عورت کے تعلق کے غلط تصوراور سوچ پر ہے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ اس کی اصلاح کی جائے۔ وہ اسی طرح ممکن ہے کہ دونوں اپنے حقیقی مقام اور اپنے اپنے فرائض سے آگاہ ہوں۔ واضح رہے کہ اب یوروپ میں یہی ’’رجعت پسندی‘‘ لوٹ رہی ہے اور اس گھریلو عورت کو،جو گھر میں رہ کر شوہر اور اپنے بچوں کی دیکھ ریکھ کرتی ہے، اس کے لئے نئی اصطلاح ’’ہوم میکر‘‘ ایجاد کی گئی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ اصل کی طرف رجوع ہو رہی ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146