ایک دفعہ حضرت عائشہ صدیقہؓ بیمار ہوئیں، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں تمہاری تکلیف میں برابر کا شریک ہوں۔ جتنی تکلیف تمہیں ہورہی ہے، اتنی میں بھی محسوس کررہا ہوں۔‘‘ آپؐ نے یہ جملے اس لیے ارشاد فرمائے کہ حضرت عائشہؓ کو حوصلہ ملے اور وہ آنے والی آفت کو صبر سے جھیل سکیں۔
اس کے بعد اس معروف واقعہ کا تصور کیجیے جس میں آپؐ پر کوڑا پھینکنے والی بڑھیا کی عبادت کے لیے حضور پاکؐ تشریف لے جاتے ہیں۔
اسلام ایسا معاشرہ تشکیل کرنا چاہتا ہے جس میں لوگ ایک دوسرے کے دکھ درد میں برابر کے شریک ہوں، یوں ایک دوسرے سے الفت اور ہمدردی پیدا ہوتی اور زندگی رحمت خداوندی بن جاتی ہے۔ صحیح بخاری میں ہے ’’مومنوں کی مثال ایک دوسرے سے رحم، محبت اور ہمدردی میں ایسی ہے جیسے ایک جسم، جب اس کا ایک عضو تکلیف میں مبتلا ہو، تو سارا جسم بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔‘‘
مشکوۃ کتاب الآداب میں حدیث نبوی ﷺ ہے: ’’جس نے میری امت میں سے کسی کی بھی کوئی ضرورت پوری کی اور وہ اس طرح اسے خوشی دینا چاہتا ہے، تو دراصل اس نے مجھے خوش کردیا، اس نے اللہ کو خوش کردیا، اور جس نے اللہ کو خوش کردیا، اسے اللہ تعالیٰ جنت میں داخل فرمائے گا۔‘‘
رسول اکرم ﷺ نے ساری مخلوق کو اللہ کا کنبہ قرار دیا ہے۔ بلا امتیاز مذہب، رنگ، نسل اور زبان سب انسانوں کے ساتھ حسنِ سلوک، خدمتِ خلق اور بیماروں، حاجت مندوں اور غریبوں کی داد رسی اور خدمت کی خصوصی تاکید فرمائی ہے۔ ایک حدیث میں ہے: ’’قیامت کے روز اللہ تعالیٰ فرمائیں گے، اے آدم کے بیٹے! میں بیمار ہوگیا تو نے میری عیادت نہ کی۔ بندہ کہے گا: اے میرے پروردگار! میں آپ کی عیادت کیسے کرسکتا ہوں؟ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: اگر تم فلاں بیمارکی عیادت کرنے جاتے، تو مجھے اس کے پاس پاتے۔‘‘
ہمارا فرض ہے کہ جب انسان بیمار ہوجائے تو اس کی عیادت کی جائے۔ یہ عیادت ہسپتال یا مریض کے گھر جاکر ہونی چاہیے۔ اسے حضورﷺ نے ضروری قرار دیا ہے۔
امام بخاریؒ نے صحیح بخاری میں ایک باب کا عنوان رکھا ہے: ’’باب وجوب عیادت المریض‘‘ یعنی مریض کی عیادت کے واجب ہونے کا باب۔ اس میں رسول اکرم ﷺ کی متفرق احادیث ہیں۔ ایک حدیث میں ہے: ’’بھوکوں کو کھانا کھلاؤ، مریض کی عیادت کرو اور قیدیوں کو چھڑاؤ۔ ‘‘دوسری حدیث میں حضور اکرمﷺ نے ہمیں سات چیزوں کا حکم دیا اور سات چیزوں سے منع فرمایا۔ ان سے ایک حکم یہ ہے کہ ہم مریض کی عیادت کریں۔ (صحیح بخاری، باب 78)
نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ مسلمان پر مسلمان کے پانچ حقوق ہیں: سلام کا جواب دینا، مریض کی عیادت کرنا، جنازے کے ساتھ جانا، دعوت قبول کرنا اور چھینک پر یرحمک اللہ کہنا۔
حضور پاکﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص کسی مریض کی جتنی دیر عیادت کرتا ہے، وہ اتنی دیر جنت کے باغ میں عمدہ پھل اکٹھے کرتا ہے جب تک وہ لوٹ نہ آئے۔‘‘ (صحیح مسلم)
عیادت کرنے والا جیسے ہی عیادت کی نیت سے نکلے، اللہ کی رحمت اس پر سایہ فگن ہوجاتی ہے اور جب وہ مریض کے پاس پہنچ کر اس کی عیادت میں مصروف ہوتا ہے تو مکمل طور پر اللہ کی رحمتوں میں ڈوب جاتا ہے۔(مشکوٰۃ)
اسی طرح ایک اور حدیث ہے: ’’جو مسلمان صبح کسی مسلمان کی عیادت کرتا ہے تو ستر ہزار فرشتے غروب آفتاب تک اس کی مغفرت کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں، جب کوئی رات کے وقت کسی مسلمان کی عیادت کرے تو ستر ہزار فرشتے صبح تک اس کی بخشش کی دعا کرتے ہیں۔‘‘ (ترمذی)
عیادت کا مقصد مریض کی دلداری اور ضروریات کی فراہمی میں ممکنہ حد تک اس سے تعاون کرنا ہے۔ عیادت کے دوران ہمیں ہر اس کام سے بچنا چاہیے جس سے مریض کی دل آزاری، حوصلہ شکنی، مایوسی یا مریض کی تکلیف میں اضافہ ہو۔ مریض کی تسلی وتشفی کے لیے ہمدردانہ الفاظ استعمال کرنے چاہئیں۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب تم مریض کے پاس جاؤ، تو اسے لمبی عمر کی امید دلاؤ، اس سے مریض کا دل خوش ہوجاتا ہے۔ اسے کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ ابھی تم سے بہت نیک کام لے گا اور تمہاری فکروں کا بوجھ کم ہوجائے گا۔
آپ کو چاہیے کہ جو مریض تکلیف میں مبتلا ہو، اس کے پاس تھوڑی دیر بیٹھیں اور حوصلہ دینے کے لیے دلچسپ گفتگو کریں۔ آپؐ جب کسی کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے، تو اس پر اپنا دایاں ہاتھ رکھ کر فرماتے : ’’اے اللہ اس تکلیف کو دور کردے، اے انسانوں کے رب، شفا عطا فرما، تو ہی شفا دینے والا ہے۔ تیری شفا کے علاوہ کوئی شفا نہیں، تو ایسی شفا عطا فرما جو کسی تکلیف کو باقی نہ رہنے دے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
ایک یہودی نبی اکرم ﷺ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ وہ بیمار ہوا تو آپؐ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے۔ اس سے فرمایا کہ مسلمان ہوجاؤ۔ وہ اپنے والد کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کے والد نے کہا: ابوالقاسم کی بات مانو، تو وہ لڑکا اسلام لے آیا اور صحت یاب ہوگیا۔ گویا غیر مسلموں کی عیادت بھی سنت ہے۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ گلے شکوے اور آہ و بکا سے گریز کرنا چاہیے۔ مریض کو ان نیک لوگوں کے صبر و شکر کے واقعات سنائے جائیں، جو بیماری کے دوران جنم لیں۔ مریض کو بتائیں کہ بیماری اور تکلیف میں شکر و صبر کرنے سے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
مریض کی عیادت کا عمل دین اسلام کی تعلیم کے مطابق بڑے اجروثواب کا حامل تو ہے ہی، ساتھ ہی یہ باہمی الفت و محبت اور اچھے سماجی و معاشرتی تعلق کے قیام اور تشکیل کا ذریعہ بھی ہے۔ اسی طرح یہ عمل مریض کے لیے بھی باعثِ سکون اور صبر وشکر ہے۔ ہمارے ایک ایم ڈی ڈاکٹر دوست کا کہنا تھا کہ اطباء اور ماہرین نفسیات بتاتے ہیں کہ جب کوئی شخص کسی مریض کی عیادت کے لیے جاتا ہے اور اسے صبر و اجر اور عزم و حوصلہ کی تلقین کرتا ہے تو اس سے مریض کے اندر قوت مدافعت یا امیونٹی بڑھتی ہے اور اس کی جلد شفایابی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
اس طرح ہم کسی مریض کی عیادت کے وقت ایک طرف تو اپنے لیے اجر سمیٹ رہے ہوتے ہیں، دوسری طرف مریض کی شفا یابی میں بھی معاونت کرتے ہیں۔