بات عجیب ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ نہایت خلوص سے مزاج پرسی کے لیے جانے والے لوگ اپنے غلط رویے سے مریض کو اور زیادہ بیمار کرڈالتے ہیں۔ بہتر ہے کہ مزاج پرسی کے لیے جاتے ہوئے مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے:
٭… آپ جب بھی مریض کے کمرے میں داخل ہوں تو آپ کا چہرہ شگفتہ اور مسکراتا ہونا چاہیے، کیونکہ مزاج پرسی کے لیے آنے والوں کے چہروں کے تاثرات ہی سے مریض اپنی حالت کا اندازہ لگاتا ہے۔
٭… مریض کی طرف مصافحہ کے لیے ہاتھ نہ بڑھایا جائے، اگر مریض خود ہی مصافحہ کرنا چاہے تو بہت آہستگی اور نرمی سے ہاتھ ملائیں۔
٭… مریض کے سامنے اس طرح بیٹھیں کہ اسے آپ سے گفتگو کرتے ہوئے اپنی گردن کو بار بار موڑنا، گھمانا یا ترچھا نہ کرنا پڑے اور وہ سہولت کے ساتھ آپ سے باتیں کرسکے۔
٭… مریض کے ساتھ کم سے کم گفتگو کیجیے اور مریض کو بھی زیادہ باتیں نہ کرنے دیں۔ مزاج پرسی کے لیے چند منٹ بہت ہیں۔
٭… مریض کے پلنگ پر اس طرح سے بیٹھنا اور اس طرح کھڑا ہونا کہ ا س کے پلنگ کو دھچکا لگے، مناسب نہیں ہے۔
٭… اگر خدانخواستہ آپ خود بھی بیمار ہیں یا کسی متعدی (ایک سے دوسرے کو لگنے والے) مرض میں مبتلا ہیں تو کسی دوسرے مریض کے پاس جانے سے گریز کیجیے۔ بیماری میں جسم کی قوتِ مدافعت کمزور ہوجاتی ہے، اس وجہ سے وہ ہر مرض کو آسانی سے قبول کرلیتا ہے۔ آپ کے لیے نزلہ زکام معمولی مرض ہوسکتا ہے، لیکن یہی معمولی مرض کسی مریض کے لیے تشویشناک صورت پیدا کرسکتا ہے۔
٭… مریض کے ذہن پر شوروغل کے بہت برے اثرات مرتب ہوتے ہیں، اس لیے مزاج پرسی کے لیے، بچوں کو ساتھ لے کر نہ جائیں۔ مریض کے پاس گفتگو دھیمی آواز سے کریں۔
٭… مریض کے سامنے بری خبریں یا ایسی باتیں بیان نہ کیجیے جن کو سن کر مریض جذباتی ہوسکتا ہو۔
٭… مریض کے علاج پر تبصرہ اور اس کے بارے میں اپنی رائے دینے سے اجتناب کیجیے۔ اگر کوئی بہت ضروری بات ہو تو مریض کے رشتہ داروں سے کہہ سکتے ہیں۔ لیکن اتائی طریقہ علاج کا مشورہ کبھی مت دیجیے۔
٭ … مریض کی مزاج پرسی میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس کی خبر گیری کی جائے۔ اسے یا اس کے اہلِ خانہ کو اگر کسی چیز کی ضرورت یا کوئی کام ہو تو اسے پورا کرنے میں مدد دی جائے۔
——