مسئلہ فلسطین کی تاریخ

محمد عبداللہ

فلسطین یعنی ارض انبیاء و مسجد اقصی کا مسئلہ امت کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ بیسویں صدی کے وسط میں اس سرزمین انبیاء پر یہودی مملکت کے قیام کے بعد سے یہ مسئلہ امت کے جسم کاناسور بن گیا ہے۔ اہلِ علم جانتے ہیں کہ عالمِ اسلام کے قلب میں اس یہودی مملکت کا قیام اسلام اور امت مسلمہ کے خلاف مغربی سازشوں کا نتیجہ تھا۔ پھر اس ناجائز و غیر اخلاقی مملکت کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کے لیے مغربی دنیا بطور خاص امریکہ نے جو کچھ کیا وہ آج بھی کررہا ہے وہ اس کا واضح ثبوت ہے۔ اسرائیل کو مستحکم بنانے کی کوششوں کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ اور مسلم ملکوں کو کمزور بنانے ان کے اندر انتشار اور نا اتفاقی پیدا کرنے کے لیے بھی مخالف قوتوں نے بے پناہ سازشیں کیں اور آج بھی کررہی ہیں۔ کبھی کہا گیا کہ یہ صرف فلسطینیوں کا مقامی مسئلہ ہے جو کبھی نہ کبھی حل ہوجائے گا۔ کبھی کہا گیا یہ علاقائی اور صرف عربوں کا مسئلہ ہے۔ اس پہلو کو اتنی ہوا دی گئی کہ کئی عرب ممالک اور قائدین اس کی رو میں بہہ گئے یہاں تک عرب قوم پرستی کا فتنہ پیدا ہوگیا۔ مصر کے جمال ناصر کو عرب نیشنلزم کا ہیرو بناکر پیش کیا گیا۔ بعد میں یاسر عرفات کو گھیرا گیا اور چھوٹے سے حصے پر میونسپلٹی کے اختیارات دے کر فلسطین کی حکومت قائم کردی گئی۔ مگر ظاہر ہے کہ فلسطین کا مسئلہ اپنی جگہ رہا اور آج بھی ہے۔ اس لیے فی الواقع یہ اسلام اور امت مسلمہ کا مسئلہ ہے۔ مخالف لوگوں کی تمام کوششوں اور سازشوں کے باوجود امت کی توجہ اس سے ہٹائی نہیں جاسکتی۔
یہودی قوم سرزمین کائنات کی وہ بدترین قوم ہے جس کو خود اللہ تعالیٰ نے بھی نجس قرار دیا ہے۔ ہمیشہ سے ان کی بداعمالیوں کے سبب ذلت و مسکنت ان کا مقدر رہی ہے۔ لیکن پچھلی ایک صدی میں انھوں نے دنیا کو اپنے جال میں کچھ اس طرح پھنسایا ہے کہ اس وقت پوری دنیا پر عملاً حکومت انہی کی ہے۔
وسط ایشیا اور یورپ میں صدیوں بھٹکتے پھرنے کے بعد یہودی علماء و دانشوروں کو یہ خیال آیا کہ ان کا بھی بہ حیثیت یہودی ایک وطن ہونا چاہیے۔ چنانچہ سو سے زیادہ یہودی دانشوران نے ایک طویل المیعاد منصوبہ تیار کیا جسے ’یہودی پروٹوکولس‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ ایک خفیہ منصوبہ تھا جسے عام نہیں کیا گیا۔ اس منصوبہ میں ایک آزاد یہودی مملکت کا بھی نقشہ پیش کیا گیا تھا۔ اپنے وطن کے طور پر انھوں نے تاریخی وجوہ کے سبب فلسطین کو منتخب کیا جس کو اللہ تعالیٰ نے ارض مبارک فرمایا ہے اور جہاں قبلۂ اول مسجدِ اقصیٰ واقع ہے۔
یہودی علماء و دانشوران نے برطانوی سامراج پر ڈورے ڈالنے شروع کیے۔ کیونکہ فلسطین اس وقت برطانوی سامراج کا حصہ تھا۔ انھوں نے برطانیہ کو اس بات کے لیے آمادہ کرلیا کہ وہ فلسطین سے یہودی مملکت قائم کرنے میں مدد دے اور اس کے بدلے کئی ٹن سونا برطانیہ کو دینا طے ہوا۔
برطانیہ جب زوال کی طرف گامزن ہونے لگا اور بوڑھا شیر بن گیا تو یہودیوں نے روس اور امریکہ پر ڈورے ڈالے اور بالآخر انہیں بھی یہ سمجھانے میں کامیاب ہوگئے کہ فلسطین میں یہودی مملکت قائم ہوجانے کی صورت میں دنیا بھر کے یہودی وہاں پہنچ جائیں گے۔ یوروپ اور روس کیونکہ ان کی سازشوں سے تنگ تھے، اس لیے انھیں بھی اسی میں سکون محسوس ہوا اور بالآخر پورے یورپ وسط سے اکٹھے ہوکر یہودی فلسطین میں آباد ہونے لگے اور مقامی فلسطینیوں کی زمینوں کو بڑی بڑی قیمت دے کر خریدنا شروع کردیا۔
۱۸۸۰ء ہی سے کچھ عقلمند صہیونیوں نے فلسطین ہجرت کرنی شروع کردی تھی اور انھوں نے دوسرے یہودیوں کو بھی اس بات پر اکسانا شروع کردیا تھا کہ وہ بھی فلسطین چلیں۔ ۱۸۹۷ء میں انہی لوگوں نے تھیوڈر ہرزل کی لیڈر شپ میں World Zionist Organisation قائم کی۔ ان یہودیوں نے پہلے گھانا اور افریقہ کے دوسرے علاقے اور ارجنیٹنا کو بھی یہودیوں کے لیے مستقل مقام ہونے پر بحث کی لیکن فلسطین پر سب کا اتفاق ہوا۔ پھر بیسویں صدی کے آغاز سے ہی یہودی یوروپی ممالک سے سوچی سمجھی پلاننگ کے تحت فلسطین ہجرت کرنے لگے۔
اس طرح کی بے وقاراور اہانت آمیز گورنمنٹ کی پالیسی سے نپٹنے کے لیے فلسطینیوں نے پرامن طور پر ایک تحریک چھیڑی۔ لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوا اور ان کو جلد ہی اس بات کا احساس ہوگیا کہ حکومت ان کی اس جائز مانگ پر دھیان دینے والی نہیں ہے۔ ان لوگوں نے ۱۹۲۰، ۱۹۲۱ اور ۱۹۲۹ء میں حکومت کے خلاف بغاوت کردی جس پر برطانوی مسلح افواج نے بے دردی سے فلسطینیوں کا قتل عام کیا۔
۲؍نومبر ۱۹۴۷ء کو UNنے فلسطین کے پارٹیشن کی تجویز پیش کی جس میں فلسطینی علاقہ کا 56.74%، 33%یہودیوں کو دے دیا گیا اور 42.88%باقی67%عرب لوگوں کو دیا گیا اور یوروشلم کو اوپن سٹی (Open City) کی حیثیت سے UNانتظامیہ کے تحت رکھا گیا۔ یہ سب ہوجانے کے بعد ۱۴؍مئی ۱۹۴۸ء کو اقوام متحدہ نے اسرائیل کے ایک آزاد ملک ہونے کی تصدیق کردی اور پھر ۱۵؍مئی کو اسرائیل نے ایک آزاد ملک کا اعلان کردیا۔ فلسطین کا 67% مل جانے کے بعد بھی اسرائیل نے چین کی سانس نہ لی بلکہ قتل و خون کے ذریعے چند ہی سالوں میں مزید دس فیصد علاقے پر قبضہ کرلیا۔ قیام اسرائیل سے لے کر ۱۹۵۰ء کے اختتام تک اسرائیلی جارحیت کا یہ عالم تھا کہ محض ڈیڑھ سال کے عرصے میں تیرہہزار افراد سے زیادہ عرب شہری قتل کردیے گئے اور نو لاکھ سے زیادہ لوگ بے گھر ہوکر مہاجر جیسی زندگی گزارنے لگے۔
اب عرب دنیا کو اس خطرے کا احساس ہوا مگر اب بہت دیر ہوچکی تھی۔ اسرائیل اب مغربی طاقتوں کے تعاون اور برطانیہ کی مدد سے اتنا طاقتور ہوچکا تھا کہ کسی بھی عرب ملک کے لیے اسے شکست دینا ممکن نہ تھا۔ لیکن پھر بھی ۱۹۶۷ء میں عرب اسرائیل جنگ ہوئی اور عرب ممالک متحد ہونے کے باوجود شکست کھا گئے کہ یہ بھی برطانوی سازش کا ایک حصہ تھا۔ اس جنگ میں کامیابی کے بعد اسرائیل تقریباً پورے فلسطین پر تو قابض ہوہی گیا اس نے شام، اردن اور مصر کے بھی کئی حصوں پر قبضہ کرلیا۔ جس میں نہر سوئز بھی شامل ہے۔ پھر ۱۹۷۳ء میں عرب طاقتوں نے ایک اور کوشش کی مگر امریکی مدد جو اسرائیل کو حاصل تھی اس نے پھر ایک مرتبہ شکست سے دوچار کردیا۔
اب فلسطین کی قیادت تتر بتر اور تقریباً ختم ہوگئی۔ عرب ریاستیں چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹ کر بے اثر ہوگئیں اور عملاً امریکی زیر اثر آکر کندتلوار بن گئیں تو مسئلہ عرب فلسطینی عوام نے خود اپنے ہاتھوں میں لے لیا اور ایک عوامی فلسطینی تحریک بن گیاجو آج تک جاری ہے۔ یاسر عرفات بڑے طمطراق کے ساتھ آئے اور بالآخر اپنے آخری دنوں میں فلسطینی اتھارٹی کے ہیڈ کوارٹر میں ہی قید رہ کر اس دنیا سے بے چارگی کے عالم میں رخصت ہوگئے۔ اس دور میں تحریک انتفاضہ شیخ احمد یٰسین کی قیادت میں اٹھی جس نے عوامی طاقت کا لوہا منوایا اور اب اگرچہ فلسطینی عوام کو کوئی سیاسی سرپرستی حاصل نہ تھی مگر وہ خود میں ایک تحریک بن گئے تھے اس لیے امن معاہدات کا سلسلہ شروع ہوا جو اس بات کی علامت تھا کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کی طاقت کو تسلیم تو کیا۔
جو بھی معاہدے ہوئے وہ سب فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان ہوئے جبکہ فلسطینی اتھارٹی محض ایک دکھاوا تھا جس کی حیثیت صرف ایک ایسے گروپ کی تھی جسے دنیا اسرائیل کے لیے مفادات حاصل کرنے کی غرض سے استعمال کرتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اس اتھارٹی کو عوام کا اعتماد حاصل نہیں رہا اور ان کی اپنی جدوجہد جاری ہے۔ اب تک جو مشہور معاہدے ہوئے ہیں ان میں اوسلو اور کیمپ ڈیوڈ خاص ہیں جنھوں نے فلسطین کے مسئلہ کی تاریخ میں نئے ابواب کا اضافہ کیا۔ اگرچہ ان معاہدوں سے فلسطینیوں کو کچھ حاصل نہیں ہوا لیکن یہ بات ضرور تسلیم کی جانی چاہیے کہ من مانی کرنے والی طاقتیں اگر کمزوروں کے ساتھ معاہدے کے لیے مجبور ہوں تو کمزوروں کی طاقت کا اعتراف اور طاقت ور کی کمزوری کی واضح دلیل ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں